ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے 11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 2025 میں منایا جانا والا عالمی یوم آبادی کا موضوع
” خواتین اور لڑکیوں کی صحت اور حقوق کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جائے؟ ”
اس دن کا آغاز 11 جولائی 1987ء میں ورلڈ بینک کے سینئر ڈیموگرافر کے سی زکریا کی سفارش پر ہوا ۔ اس دن کو عالمی یوم آبادی کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ہر سال اس دن کو ایک نیا نام دینے کا مقصد عالمی برادری اور اس سیارے پر آباد انسانوں کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے جو ابادی میں اضافے کی وجہ سے پیش آ رہے ہیں۔ان مسائل کا سدباب کرنا اور ان کے لئے بہتر منصوبہ بندی کرنا ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این پاپولیشن فنڈ کا ایک سا ہے۔ یہی ادارہ اس حوالے سے مختلف کوششیں اور منصوبے وضع کرتا ہے۔
گزشتہ دو صدیوں میں آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔
انسان کی ابتداء سے 1800 تک اس دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ مگر آنے والے سو سالوں میں حیران کن اضافہ ہوا۔ 1920 تک آبادی بڑھ کر دو گنا ہو چکی تھی۔ یہی آبادی 1970 میں چار گنا ہو کر 4 ارب ہوئی اور 2022 میں آبادی 8 ارب کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ ہر روز اس میں دو لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سیکنڈ میں شرح پیدائش 4.3 اور شرح اموات 2.0 ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ 2037 میں آبادی 9 ارب ہو جائے گی۔
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں آبادی میں اضافہ ایک اہم مسئلہ پے۔ یقیناً ایک اہم مسلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دن کے منانے کا مقصد آبادی پر کنٹرول نہیں نہ ہی آبادی کی رفتار کو کم کرنا نہیں بلکہ لوگوں میں آگہی پیدا کرنا ہے کہ کیسے بڑھتی ہوئی آبادی کو وہ تمام سہولیات بہم پہنچائی جائیں جو ان کا حق ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان وسائل اور ذرائع کا جائزہ لینا جو انسانی بہبود کے لئے موافق ہوں ۔یہ بھی جائزہ لینا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کسں حد تک ممکن ہے۔
اگر دنیا کے نقشے کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو براعظم ایشیا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے گنجان آباد ہے۔ مجموعی آبادی کے 5 ارب سے زائد نفوس اسی براعظم میں آباد ہیں۔ یہیں پر چین، ہندوستان اور پاکستان جیسے تین آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک ہیں ۔ صرف ہندوستان کے بارے میں کہا جاتا ہے 2050 تک یہ سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
کئی ممالک میں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے جس کی اہم وجہ ان علاقوں میں بچوں کی پیدائش اور نگہداشت سے متعلق ماؤں کے لئے طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی اکیس کروڑ خواتین ان سہولتوں تک رسائی چاہتی ہیں جو مختلف مشکلات کے باعث ممکن نہیں۔ خواتین میں تعلیم اور آگہی پیدا کرنے سے پیدائش میں کمی ممکن ہے مگر اس کا مقصد شرح پیدائش کم کرنا ہر گز نہیں۔زچہ بچہ کی نگہداشت سے لے کر بچوں کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے اہم پیش رفت ہی دراصل اس کا مقصد ہے۔ ایک طرف زیادہ آبادی والے ممالک کے مسائل ہیں ،جبکہ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں شرح پیدائش میں کمی بڑا مسئلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ اور میڈیکل سائنس میں ترقی اور تعلیم کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کے مسئلے پر قابو تو پا لیا گیا مگر کئی عشروں کے بعد اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ممالک میں شرح پیدائش میں کمی آرہی ہے اور عمر رسیدہ افراد کی آبادی دوسرے طبقوں کے مقابلے میں زیادہ ہو رہی ہے۔ںپسماندہ ممالک میں آبادی پر کنٹرول آسان نہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں اس میں اضافہ مشکل ہو رہا ہے۔
زیادہ تر لوگ زیادہ آبادی کے منفی ماحولیاتی اور سماجی اثرات سے واقف ہیں، لیکن اس کے مضر صحت اثرات سے نہیں۔ آبادی میں اضافہ زمین میں پائے جانے والے ذرائع کا استعمال بڑھتا جارہا۔ آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی آلودگی اوزون کی تہہ میں سوراخ کا سبب بن رہی ہے۔ انسانوں کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں UV کا لوگوں اور زمین کو متاثر کرنا بڑھ رہا ہے۔ آبادی میں اضافہ فضائی آلودگی میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ جس سے سانس کی مختلف جان لیوا بیماری پیدا ہو رہی ہیں۔ ہوا میں نقصان دہ مواد کا اضافہ ہو رہا ہے جس سے ٹی بی، سانس کی بیماریاں اور وبائی امراض میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اتنے سالوں سے اقوام متحدہ یہ دن مما رہا ہے مگر ابادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہی جا رہا اس کے وجہ کیا ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کچھ ترقی پذیر ممالک میں غیر مستحکم سیاسی نظاموں کی بنا پر آبادی سے متعلق معاملات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ اور اسی طرح کچھ ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے لئے پالیسی سازی میں ٕروایتی اور مذہبی نظریات آڑے آتے ہیں۔ ایسے میں تعلیم اور طبی سہولتوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حل ثابت ہو سکتا ہے ۔
اس دن کو کیسے منایا جاتا ہے؟
اچھی صحت کے رحجان کو فروغ دینے کے لئے مختلف سیمنار اور واک ہوتی ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی سے لوگوں میں آگاہی پیدا کی جاتی ہے۔
ایسے عوامل کو ترقی دینا جو صنفی مساوت پیدا کریں۔
لوگوں کو شعور دینا کہ یہ زمین ہمارا واحد ٹھکانہ ہے۔ اس کے وسائل پر سب کا حق ہے.