66

آزادی اظہار رائے کی آڑ میں!!!/تحریر/ابو علقمہ آصف اقبال

دیگر مذاھب کے مقابلے میں اسلام کی ایک امتیازی شان یہ ہے کہ اسلام نے کبھی غیروں کے مقدسات، طرز عبادت اور مقام عبادت کے خلاف اپنے ماننے والوں کو کبھی ہرزہ سرائی کا درس نہیں دیا۔ گو کہ وہ اسلام کو ہر گز قابل قبول نہ ہوں اور ان سے اسلام اور اہل اسلام کو حد درجہ اختلاف بھی ہو، مگر محض تعصب اور ضد کی چادر تلے اسلام نے کبھی انتہا پسندی، مذھبی اور معاشرتی دھشت گردی کو کسی صورت روا نہیں رکھا اور صرف یہی نہیں، یہ اسلام کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ اسلام نے نہ صرف گزشتہ آسمانی کتابوں کی حرمت و عظمت کو باقی رکھا بلکہ اس کی توھین کو بھی ناجائز قرار دیا اور ان پر بھی ایمان رکھنا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ بنادیا اور اس سے بھی بڑھ کر حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ تمام انبیاء کے تقدس و احترام اور ان پر ایمان کو عین ایمان قرار دیا اور اس کی خلاف ورزی پر ایسے شخص کو سیدھا دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔

ایک اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ حتی کہ جو کوئی غیر مسلم اسلام دشمنی میں ملوث نہ ہو اور اسلام کے خلاف کسی بھی طرح کسی کار بد کا مرتکب نہ ہو، تو ایسے فرد کو بھی اسلام مکمل تحفظ اور جان و مال کی سلامتی عطا کرتا ہے۔ بلکہ جزیہ کی ادائیگی کے بعد تو اسلام غیر مسلموں کو بھی مکمل طور پر مسلمانوں والے حقوق دیتا ہے اور ان سے کسی بھی صورت پہلو تہی نہیں کرتا۔ اس پر بہت ہی روشن دلیل پیغمبر اسلام کا وہ عالیشان فرمان ہے کہ: “جو کسی معاہد کو قتل کرے گا ،وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔” (صحیح بخاری )
یہ تو رہا اسلام میں غیروں کے حقوق! اب ذرا غیروں کے ان رویوں پر صرف نظر کریں جو انہوں نے اسلام دشمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ روا رکھے ہیں، وہ سب تاریخی اوراق میں قلم بند ہیں۔ حالیہ قرآن سوزی کا واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی مغرب میں آزادی رائے کے نام پر ناموس رسالت اور قرآن کے ساتھ گستاخی عروج پر رہی ہے۔ ہاں مگر! حالیہ واقعہ کی سنگینی کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی انجانے میں نہیں، بلکہ عدالت کی اجازت، پولیس کی سرپرستی، مسجد کے اطراف، مسلمانوں کو ان کی جانوں سے زیادہ عزیز کتاب اور مسلمانوں کے عظیم الشان تہوار کے موقع پر ایک ایسے شخص کی جانب سے کہ جس کا کردار ماضی میں بھی اس طرح کے گھناؤنے اور اسلام مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے داغ دار رہا……. اس کار بد کو انجام دلوایا گیا۔
مغربی کارندوں اور اسلام دشمنی رکھنے والوں سے ایک سوال تو ضرور بنتا ہے کہ ایک طرف انتہا پسندی اور دھشت گردی کے خلاف بلند ترین صدائیں ہیں۔ مگر افسوس کہ دوسری طرف آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخی جیسے کارنامائے بد کو انجام دے کر پورے عالم کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک غیبی خنجر گھونپنا نہ صرف گھونپنا بلکہ بارہا یہ جرم کرکے زخم کو پل پل مزید گہرا کرنا یہ کون سا انصاف ہے؟ کون سی آزادی ہے؟ کہاں کا قانون ہے؟ اس سے بڑی اور دھشت گردی کیا ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے دکھتی رگ کو ہر بار پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دکھایا جائے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا انتہا پسندی ہوسکتی ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔
شاید ایسا کرنے والے نہیں جانتے کہ ایک مسلمان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور اس ذاتِ بابرکت پر اترنے والی روشن کتاب ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ بات صاف سی ہے اور دو ٹوک ہے کہ اس ریڈ لائن کے آگے، اس کے تحفظ کی خاطر ایک مسلمان اپنی جان تو کیا اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بات تو یہ ہے اسلام کے ایک ایک شعائر اور مقدسات کے تحفظ کے لیے مسلمان ایک بار نہیں، ہزار بار مرمٹنے کو اپنے لیے سعادت اور ذخیرہ آخرت سمجھتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ اس ریڈ لائن کو پار کرجانے کے بعد ایک مسلمان اپنے سارے جذبات اور احساسات کھو بیٹھتا ہے اور پھر مارنے یا مرنے تک کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ صدیوں سے ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کفر اور طاغوتی قوتوں کی شیطانی کوششیں جاری رہیں گی۔ مگر قول آخر یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے کیا موثر اقدامات کیے جائیں۔ واضح بات ہے کہ اس میں سب سے پہلے اور سب سے اہم کردار ہر ذی اقتدار مسلمان کا ہے۔ بعد ازاں عام مسلمانوں کا۔ اگر صاحب اقتدار اور پھر رعایا اپنے حقوق واجبی ادا کرے تو اس قسم کے گھناؤنے واقعات کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر سب سے بڑی زمہ داری تو بنتی ہے تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کی، جس میں 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں اور جن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ان کے لیے اس سے بڑھ کر تحفظ کا کام کیا ہوگا کہ مسلمانوں کی عظیم الشان کتاب اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو گستاخی اور بے ادبی سے محفوظ رکھا جائے اور تنظیم کے ذریعے ایک ایسا عالمی سطح کا قانون تشکیل دیا جائے کہ تاقیامت، کسی کس و ناکس کی جراءت نہ ہوسکے کہ وہ گستاخی کا سوچے بھی اور ساتھ ہی ساتھ ایسے ممالک اور ان کے سربراہان سے ہر قسم کا رابطہ اور تعلق ختم کرکے اس عالم کفر کو یہ سبق دے دیا جائے کہ ہمارے لیے ہمارے نبی اور ان پر اترنے والی عظیم الشان کتاب اور تمام تر شعائر اسلام ہماری ہر چیز اور ہر رشتے ناطے حتی کہ اپنی جان سے بھی مقدم ہیں کہ جس پر اگر ذرا بھی آنچ آئے تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں