136

آزادی بھیک میں نہیں ملی/تحریر/علامہ ڈاکٹرمولانا محمد جہان یعقوب

1947 ؁ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے مسلمان مردوں ،عورتوں اور بچوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔یہ درد ناک کہانیاں اخبارات و جرائد کے علاوہ کتابوں میں بھی محفوظ ہیں ۔ان میں سے چند ایک قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں:
1…ایک خاتون کا بیان ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے فوراً بعد شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں محض قصۂ ماضی بن کر رہ گئیں۔ سالہا سال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ان حالات میں میرے والد نے گاؤں کے دوسرے لوگوں سے مشورے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا، لیکن ہندوؤں اور سکھوں کو یہ بات بھی گوارا نہ تھی اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاؤں سے مسلح جتھے وہاں پہنچ گئے اور چشم زدن میں تمام مردوں کو تہہِ تیغ کردیا۔نوجوان لڑکیوں کو اُن کی ماؤں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔ آج بھی جب میں اِس دلخراش منظر کوچشم تصور سے دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ابنِ آدم ذلت کی اِن گہرائیوں تک بھی جاسکتاہے۔ میرا معصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا سا کھڑا تھا ۔ جب اُس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا ،جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک ہندو نے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اُس معصوم کی گردن پر کیا ،جس سے اُس کا سر تن سے جداہو کر دور جاپڑا۔ اِس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا: اگر مجھے معلوم ہوتاکہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ (ناپاک)نہ کرتا، اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگاجل سے دھو کر پوتر(پاک)کرنی پڑے گی؛ یہ کہہ کر وہ بھی شیطانی کھیل میں شامل ہوگیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹ کر گرا۔ تمام بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد سب لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے گئے اور سب قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور باری باری مظلوم مسلمان دوشیزاؤں کواپنی درندگی کا نشانہ بنانے لگے۔
اس عمل میں، میں زندہ بچ جانے والی چند خوش نصیب یا بدنصیبوں میں بھی شامل تھی۔ اس کے بعد میں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔ آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کرلی۔ سات سال بعد سوہن سنگھ سورگباش ہوگیا تو اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کرلی۔(1947کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی،از: حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
2…ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی ۔ چوک سراجاں پر حملے کی دوسری رات۔حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہاتھا۔ پہلے روز پچاس نوجوان شہید ہوئے، دوسرے روز ساٹھ، شام ہونے سے پہلے دوچار ایسے دل دوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدا ن کے بالکل سامنے تھا۔گھرسے اُس کا چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ’’ ابا ابا‘‘ کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوؤں اور سکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلا چلا کر اعلان کیا: دیکھو ہم آج مسلے(مسلمان) کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اچھالا اور نیچے سے نیزے پر اُسے لے لیا۔ بچے کی چیخ اس قدر دل دوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا،بالآخر ا س نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ (اردوڈائجسٹ)
3…ایک کانوائے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ایک نوجوان نے دورانِ راہ جوکچھ دیکھا، وہ اس طرح بیان کرتاہے :’’ راستے میں اِکا دُکا مسلمان عورتیں ملتی گئیں ،اُنہیں بھی ساتھ لیتے آئے۔ سکھوں اور ہندوؤں نے اپنی درندگی کا جی بھر کر مظاہرہ کیا تھا۔ ہوشیارپور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی۔ والد صاحب نے اٹھا یا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے تھے۔ ایک مشہور خاندان کی نوجوان خاتون تھی ۔ ابا جی کو معلوم ہواتو ضبط نہ کرسکے ۔ اس خاتون نے صرف اتنا کہا :’’ چاچا جی!غم نہ کریں ،اتنا سب کچھ ہوجانے پر پاکستان تو بن گیا۔ مجھے خوشی ہے میں امت کے کسی کام تو آئی۔‘‘
نہر عبور کرکے ہم سب شدت تاثر سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز آئی۔ ایک بزرگ ڈاکٹر نصیرالدین آگے بڑھے ۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ نسوانی آواز آئی۔وہ فورا لپکے ۔ ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی۔ پانی پلاکر مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ اُس خاتون نے مرتے وقت صرف اتنا کہا :’’ میرے والد اور سات بھائی ، چچا اور ان کے چار لڑکے شہید ہوگئے۔ تین بہنیں لڑتے لڑتے اور اپنی عزت بچاتے ہوئے نہر میں ڈوب گئیں ۔ والدہ کو اُنہوں نے قتل کردیا ۔ میں چھپ گئی ، اُنہوں نے مجھے ڈھونڈ نکا لا ،جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کردیا ۔ اُنہوں نے جھلا کر میرا یہ حشر کیا ہے ۔‘‘آخری سانس لینے سے پہلے اِس مظلوم خاتون نے کہا:’’ پاکستان کو میرا سلام پہنچا دینا ۔‘‘
جالندھر کے مسلمانوں نے جس بے جگر ی، دردمندی اور زبردست قربانی سے تحریک پاکستان کے لیے کام کیا ،وہ تاریخ پاکستان کا روشن باب ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے تحریک پاکستان کو تاریخی قربانیوں سے ہمکنار کیا ۔ جالندھر کیمپ کے واقعات بڑے دل دوز تھے ۔ایک صاحب کہتے ہیں کہ:’’ مجھے یاد ہے ایک خاتون آخری دموں پر تھی ، اسے معلوم ہوا کہ ہم لوگ کانوائے پر پاکستان جا رہے ہیں تو اس نے بابا جی کو بلا کر کہا:’’ یہ میرے زیورات ہیں ،خاندان کے سارے مرد شہید ہوچکے ہیں۔ ان زیورات کو قائد اعظم تک پہنچا دیں، شاید پاکستان کے کام آجائیں۔‘‘(ایضاً)
4…مشرقی پنجاب میں خون کا جوسیلاب آیا اُس کا کچھ اندازہ لندن ٹائمز کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجاسکتاہے، جو اُس نے اگست اور ستمبر1947؁ء کو جالندھر اور امرتسرسے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔
پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے :’’سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں۔ و ہ ہرروز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہہِ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو مغرب کی جانب بھگادیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھر وں کو نذرآتش کررہے ہیں۔‘‘
دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے:’’ امرتسر میں 8اگست کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑجلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کے لیے بھاگنا شروع ہوگئے ۔ 13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا ۔ 15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا یوم آزادی بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا،سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا، آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔
تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبران الفاظ میں دیتاہے:’’ اِس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افرا د تھے اور اِن میں سے اکثر پید ل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور قافلے مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا ، تھکان سے چور، بھوک کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال۔ 70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے، وہ بالکل بے سروسامان تھے، اُن کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور اِن کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اڑی ہوئیں تھیں۔اِنہوں نے معصوم بچوں کا قتل، لاشوں کی قطع وبرید اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔ راستے میں ہر قدم پر موت اُن کی گھات میں تھی ۔ اُن میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے؛ یاسکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔‘‘(خونِ مسلم ارزاں ہے،از: ڈاکٹر سعید احمد ملک)
5…پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پر بھی جابجاحملے ہوتے رہے۔ اکثر ٹرینوں کے سارے کے سارے مسافر فنا کے گھاٹ اتار دیے جاتے، نوجوان لڑکیاں اغوا کرلی جاتیں اور ان کی زندگیاں موت سے بدتر ہوجاتیں۔اس ضمن میں بے شمار واقعات میں سے صرف دو کا تذکرہ کیاجاتاہے:
پہلے واقعے کا راوی گنڈا سنگھ والا ریلوے سٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹر خود ہے۔ وہ کہتاہے:’’ایک مہاجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی، گنڈا سنگھ والا سٹیشن پہنچ کر رکی ۔ مجید یزدانی صاحب پلیٹ فارم پر اُس کا استقبال کررہے تھے۔ گاڑی رکی تو اُنہوں نے دیکھا کہ سب بوگیا ں خون سے لت پت ہیں اور ڈبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہیں۔ یہ منظر اُس زمانے کا معمول تھا۔ آگے ایک اور قسم کا منظر آرہا تھا ۔ سب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے جب وہ آخری بوگی کے قریب پہنچے تو وہاں بچوں کے رونے پیٹنے اور کراہنے کی درد ناک آوازوں نے اُنہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جھانک کر دیکھا تو ایک روح فرسا منظر اُن کے سامنے تھا۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں ۔ اُن بچوں کو ذبح نہیں کیاگیا تھا بلکہ اُن کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں پاکستان کی طرف دھکیل دیاگیاتھا۔(جدوجہد آزادی میں پنجاب کا کردار، از :ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار)
دوسرا واقعہ یوں ہے کہ نومبر1947؁ء کو ایک شام واہگہ ریلوے اسٹیشن پر اہلِ لاہور کا ایک جم غفیر اُس گاڑی کے استقبال کے لیے موجود تھا، جو مہاجرین کو لے کر کالکا سے چلی تھی اور براستہ امرتسر پاکستان پہنچ رہی تھی۔ خاصے انتظار کے بعد دھندلائے ہوئے اُفق پر ایک سیاہ دھبہ منتظر لوگوں کی سمت بڑھتا ہوا نظر آیا۔ یہ ریل کا انجن تھا ۔ خوشی کی ایک لہر ہجوم میں پھیل گئی۔ وہ پانی کے مٹکوں اور کھانے کے طباقوں کا جائزہ لینے لگے جو اُنہوں نے پاک وطن میں آنے والے مہاجربھائیوں کے لیے تیار کررکھے تھے۔ جوں جوں گاڑی نزدیک آتی گئی، لوگوں کاجوش و خروش بڑھتاگیا۔ اُنہوں نے نعرۂ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ،لیکن گاڑی سے اُن کے نعروں کا کوئی جواب نہ آیا۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی اور ہلکی رفتار سے چلتی ہوئی پلیٹ فارم پر آرُکی، مگر گاڑی کا کوئی دروازہ کھلا نہ اُس میں سے کوئی ذی روح برآمد ہوا، لوگوں کے دل انجانے اندیشے سے دھڑک اٹھے اور جب اُنہوں نے کھڑکیوں سے ڈبوں کے اندر جھانکا تواُن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کرپانوں سے کٹے ہوئے گلے، گولیوں سے چھلنی سینے، جسم سے علیحدہ ہوئے بازو، پھٹے ہوئے پیٹ، ظلم وتشدد کی الم ناک داستان سنارہے تھے۔ پھر نوجوانوں نے گاڑی کے ڈبے آپس میں تقسیم کرلیے اور خون میں لت پت، کٹی پھٹی اوپر نیچے پڑی لاشوں کو عزت واحترام کے ساتھ آبدیدہ آنکھوں سے ہدیۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے اتارنے لگے۔
(1947؁ء کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی،از: حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں