قربانی اللہ تعالٰی کا عظیم الشان ایک واجبی حکم ہے، ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی دائمی سُنّت ہے، سُنّتِ ابراہیمی ہے، اسلامی شعائر میں سے ہے اور ایک اہم ترین مالی عبادت ہے جس میں لوگوں کا دینی ودنیاوی، مادّی وروحانی ہر طرح کا فائدہ ہے، اس لئے اس اہم عبادت کو سرانجام دیتے وقت شرعی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے اور اسے ہر قسم کی کوتاہیوں اور خرابیوں سے محفوظ رکھنا شرعًا لازم ہے-
آج کل ہمارے ہاں اجتماعی قربانی کا رُجحان بڑھتا چلا جارھا ہے لیکن جہاں اس میں لوگوں کے لئے کسی قدر سہولت اور آسانی ہے وہاں اس میں جگہ جگہ سنگین کوتاہیاں اور خرابیاں بھی دیکھنے سُننے میں آرہی ہیں-
یہاں چند اہم اور سنگین قسم کی کوتاہیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ اچھی طرح آپ غور وخوض کرلیں اور سوچ لیں!
1- گمراہ نظریات اور باطل عقائد کے حامل لوگوں کی شرکت
آج کل جہاں اجتماعی قربانی کا عمومی نظم ہوتا ہے وہاں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ شریک ہونے والا شخص صحیح العقیدہ ہے یا گمراہ کُن نظریات کا حامل، خدا نخواستہ اگر وہ شخص باطل نظریات اور کفریہ عقائد کا حامل ہے، تو اس سے دیگر صحیح العقیدہ لوگوں کی قربانی بھی ضائع ہو جائے گی، اس لئے اجتماعی قربانی میں شرکت کے وقت شرکاء کے عقائد کی جانچ پڑتال نہایت ضروری ہے
2- حرام آمدن والے شخص کی شرکت
قربانی ایک اہم ترین مالی عبادت ہے، اس میں شرعاً وہی مال لگانا درست اور معتبر ہےجو خالص حلالہو، عام طور پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے ادارے، شرکاء کی آمدن کو نہیں دیکھتے کہ وہ حلال ہے یا حرام؟ اگر بالفرض اجتماعی قربانی میں کوئی ایسا شخص شریک ہوگیا کہ جس کی کُل یا اکثر آمدن حرام ہو، تو باقی شرکاء کی قربانی بھی ضائع ہوجائے گی، اس لئے اجتماعی قربانی میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ شریک کیا جائے، اگر حرام آمدن والا کوئی شخص شرکت کے لئے آئے اور قرائن وشواہد کے ذریعے اس کی آمدن کے بارے میں علم ہو جائے تو اسے صاف انکار کردیا جائے اور اگر انکار مشکل ہو تو پھر جواز کا حیلہ اختیار کیا جائے-
حیلے کا طریقہ یہ ہے کہ حرام آمدن والا شخص، کسی سے بطور قرض حلال رقم حاصل کرے پھر قرض سے حاصل ہونے والی رقم، اجتماعی قربانی کے لئے جمع کرا دے اور بعد میں اپنا قرض اتار دے-
اجتماعی قربانی کرنے والے اشخاص یا اداروں کو چاہییے کہ بوقت ضرورت مذکورہ حیلہ اختیار کرنے کے بعد، حرام آمدن والے شخص کو شریک کریں چاہے اس سلسلے میں ان کو از خود کوئی کردار ادا کرنا پڑے، اس کے بغیر اس کو اجتماعی قربانی میں ہرگز شریک نہ کریں-
3- نمود ونمائش، فخر ومباھات اور گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کرنا
قربانی ایک اہم قُربت(عبادت) ہے، اسے ادا کرتے وقت محض قُربت کی نیت ہونی چاہییے، صرف اللہ تعالٰی کی رضامندی وخوشنودی پیش نظر ہونی چاہییے لیکن آج کل بہت سے لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر اللہ تعالٰی کی رضامندی کو نظر انداز کرتے ہوئے اور قربانی کے عظیم فلسفے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، محض نمود ونمائش، فخر ومباھات اور گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کرتے ہیں-
قربانی انفرادی ہو یا اجتماعی، فاسد نیت اسے یقینا فاسد بنا دیتی ہے، اس لئے اجتماعی قربانی میں شریک کرتے وقت لوگوں کی نیت کو پرکھنا ضروری ہے اور فساد کی صورت میں اصلاح نہایت ضروری ہے-
کیوں کہ خدا نخواستہ اگر کسی ایک شریک کی نیت میں فساد ہوا، تو اچھی نیت والے باقی سب شرکاء کی قربانی بھی رائیگاں ہوجائے گی-
4- ذمّہ دار دینی اداروں اور علماء کرام کی سرپرستی کی بجائے غیر ذمہ دار رفاہی اداروں، تنظیموں اور مختلف برانڈز کی اجتماعی قربانی میں شریک ہونا
قربانی چونکہ ایک اہم عبادت ہے، ظاہر بات ہے اسے زیادہ بہتر طریقے کے ساتھ وہی شخص یا ادارہ سرانجام دے سکتا ہے جو اس اہم عبادت کے مسائل بھی بخوبی جانتا ہو اور ان کی اہمیت و حساسیت کو بخوبی سمجھتا ہو اور جو بچارے اس کے بنیادی مسائل سے ہی عاری اور نابلد ہوں، دینی امور کی قدر ومنزلت، ان کی حساسیت اور احترام جس درجے مطلوب ہے، وہ ان میں مفقود ہو تو وہ اس اہم عبادت کو درست طریقے کے ساتھ کیسے سرانجام دے سکتے ہیں؟ وہ یقینا جگہ جگہ پر غلطیاں کریں گے، کوتاہیاں برتیں گے اور لوگوں کی قیمتی قربانیاں ضائع کریں گے، اس لئے غیر ذمّہ دار رفاہی اداروں اور تنظیموں کی بجائے ذمّہ دار دینی اداروں اور علماء کرام کی سرپرستی میں کی جانے والی اجتماعی قربانی میں شریک ہوں!
5- عید الاضحٰی سے پہلے قربانی کرنا
اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے بعض برانڈز جو بطور بزنس کام کرتے ہیں، وہ از خود یا لوگوں کے کہنے پر یہ طے کرلیتے ہیں کہ قربانی کا گوشت پہلے ہی دن دے دیا جائے گا جس وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کی طرف رجوع کرتی ہے اور ان کی اجتماعی قربانی میں صرف اس لالچ سے شریک ہوجاتی ہیں کہ پہلے دن گوشت مل جائے گا اور اِدھر ان کے پاس اتنے بڑے پیمانے پر انتظام نہیں ہوتا ہے کہ وہ عید کے پہلے ہی دن تمام جانوروں کو ذبح کرسکیں اور حصہ داروں کو ان کی قربانی کا گوشت مہیا کرسکیں اس لئے وہ عید سے پہلے ہی جانوروں کو ذبح کرنا شروع کردیتے ہیں اور گوشت تیار کرکے اس کی پیکنگ کروا دیتے ہیں پھر عید والے دن وہی پیک شدہ گوشت، شریک ہونے والے لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں یوں اس طرح لوگوں کی قربانیاں ضائع کردیتے ہیں-
یاد رکھیں! قربانی کا وقت شروع ہونے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرنا شرعا درست نہیں ہے، اگر کسی نے کرلیا تو وہ قربانی نہیں کہلائے گا البتہ اس کا گوشت حلال ہوگا بشرطیکہ شرعی تقاضوں کے مطابق ذبح کیا گیا ہو اور اس صورت میں صاحب نصاب پر وقت کے اندر دوبارہ قربانی کرنا شرعا واجب ہے-
4- جانور یا حصہ کی بجائے گوشت متعیَّن کرنا
اس کی صورت یہ ہوتی کہ جس شخص نے قربانی کرنا ہوتی ہے وہ متعین گوشت مثلا 15 کلوکا مطالبہ کرتا ہے اب اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے بعض برانڈز بعض اوقات 30 کلو والاایک بکرا لے کر دو آدمیوں کی طرف سے ذبح کر دیتے ہیں اور دونوں کو پندرہ پندرہ کلو گوشت دے دیتے ہیں، اسی طرح بسا اوقات بڑے جانور میں گوشت کا اعتبار کرتے ہوئے سات سے زیادہ لوگوں کو شریک کرلیتے ہیں-
شرکت کی مذکورہ دونوں صورتیں سوفیصد غیر شرعی ہیں اس سے یقیناً قربانی ضائع ہوجاتی ہے کیوں کہ چھوٹے ایک جانور یا بڑے جانور کے ایک حصے میں دو آدمیوں کی شرکت شرعا ممنوع ہے
5- جانور یا حصّے میں سے اگر طے شدہ گوشت سے زائد نکل آئے تو اسے بلا اجازت استعمال کرنا
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ چھوٹا پورا ایک جانور یا بڑے جانور کا پورا ایک حصہ ایک شخص کی طرف سے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات چھوٹے جانور یا بڑے جانور کے حصے سے، طے شدہ گوشت سے زیادہ گوشت نکل آتا ہے، اب قربانی کرنے والے یا بڑے جانور میں شریک ہونے والے شخص کو صرف طے شدہ گوشت ہی دیا جاتا ہے، اضافی گوشت نہیں دیا جاتا ہے حالانکہ یہ زائد گوشت بھی قربانی کرنے والوں کا ہے لیکن اجتماعی قربانی کرنے والے بعض ادارے اور تنظیمیں مالکان کی اجازت کے بغیر اسے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں-
یہ بھی شرعا جائز نہیں ہے
6- قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد شرکت
اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے بعض ادارے یا تنظیمیں جانور ذبح کرتے ہیں لیکن ذبح کے وقت سات حصّوں کے شرکاء پورے نہیں ہوتے ہیں پھر بعض مرتبہ ذبح کے بعد بھی مذبوحہ جانور میں کسی نئے شخص کو شریک کرلیتے ہیں-
یہ صورت بھی یقیناً غیر شرعی ہے کیوں کہ شرکت کے لئے شرعاً یہ ضروری ہے کہ جانور ذبح کرنے سے پہلے شرکت کی جائے-
7- وکیل اور مؤکل کے اوقات میں فرق ہونا
بعض اوقات بیرون ملک رہائش پذیر شخص یہاں پاکستان میں موجود کسی شخص یا ادارے کو اپنا وکیل بناتا ہے یا اس کے برعکس پاکستان میں رہائش پذیر شخص بیرون ملک رہنے والے کسی شخص کو وکیل بناتا ہے کہ میں آپ کو مطلوبہ رقم بھیج دیتا ہوں آپ میری طرف سے وہاں قربانی کردینا، اب بعض اوقات مؤکل کے علاقے میں عید الاضحٰی ہوتی ہی نہیں لیکن وکیل کے علاقے میں عید ہوجاتی ہے تو وکیل اپنے علاقے کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے مؤکل کی طرف سے قربانی کردیتا ہے حالانکہ مؤکل کے علاقے میں ابھی تک قربانی کا وقت ہی شروع نہیں ہوا-
شرعاً یہ قربانی بھی درست نہیں ہے کیوں کہ یہ قربانی وقت شروع ہونے سے پہلے کی گئی ہے جو کہ جائز نہیں ہے-
اسی طرح بعض جگہوں پر جس جانور میں حصہ ڈالا جائے، اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے مثلا ایک شخص نے جانور نمبر 5میں حصہ ڈالا تھا لیکن بعد میں کسی نئے شریک کے کہنے پر اس کا حصہ جانور نمبر 5 میں جبکہ پہلے شخص کا حصہ جانور نمبر 7میں کردیتے ہیں، شرعا یہ بھی درست نہیں ہے
بعض لوگ اندازے سے گوشت تقسیم کرتے ہیں یہ بھی جائز نہیں ہےکیوں کہ اس میں سود لازم آتا ہے-
بعض جگہوں پر قربانی کرنے والے لوگوں کی اجازت کے بغیر متعدد جانوروں کا گوشت مکس کردیا جاتا ہے یہ بھی جائز نہیں ہے-
یہ چند اھم کوتاہیاں اور خرابیاں تھیں، جو اجتماعی قربانی میں عموما پائی جا رہی ہیں لہٰذا جہاں علماء کرام کی نگرانی نہیں ہے وہاں اپنی قربانی ہرگز نہ کریں کیوں کہ قوی اندیشہ ہے کہ آپ کی قیمتی قربانی ضائع ہو جاٸے
