آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے ، میں فیس بک پر ایکٹو ہونا شروع ہوئی تو جہاں دیکھوں بس شاعر/ہ مصنف/ہ موجود ہیں کتابوں پر کتابیں چھپ رہی ہیں۔ مجھے تب نہیں علم تھا کہ ہمارے ہاں ادب کا کیا معیار رہ گیا ہے۔ میں نے ایک خاتون شاعرہ (جن کا میں نام نہیں لوں گی نہ پوچھیے گا) کی شاعری کی کتاب منگوائی ۔ خدا جانتا ہے کہ مجھے کتنی مایوسی ہوئی۔پھر ایک اور مشہور نام فیس بک کا، یہ بھی خاتون ، ان کی شاعری اور نثر کی کتابیں لیں، افففف اس دن مجھے پتہ چلا کہ ادب کے نام پر کس قدر بے ادبی ہو رہی ہے۔ یعنی ایسی کہانیاں اور شاعری جن کو میں مڈل کلاس لیول پر بھی پڑھنا نہ چاہوں ، ان پر کتاب چھپی ہوئی ہے۔پھر ایک اور تجربہ ہوا۔ وہ بھی ایسا۔یہاں پر مجھے لگتا ، خواتین کا بیڑہ زیادہ غرق ہوا ہوا ہے۔ اس قدر معمولی لکھی گئ وہ تمام کتابیں ، مرد حضرات آج بھی مجھے کچھ بہتر ہی لگتے ہیں لکھنے کے معاملے میں ۔وہ دن آخری دن تھے جب میں نے کسی نو آموز کی کتاب کا آڈر دیا تھا۔ اس دن میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر میرے پاس ایک کتاب آڈر کرنے کا بجٹ ہے تو وہ میرے لیے قیمتی ہے، میں اس بجٹ کو کسی نئے تجربہ کار ، کے تجربے کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتی۔ میں اس بجٹ سے وہی کتاب لوں گی جس کا مجھے علم ہوگا کہ میرا وقت اور پیسے ضائع نہیں ہوں گے اور جس سے میری لائبریری کی چھوٹی سی جگہ بھی ضائع نہ ہو۔میں نئے لکھنے والوں یا پھر غیر معیاری لکھنے والوں کو سپورٹ نہیں کر سکتی۔ میں یہاں نئے لکھنے والوں کی تضحیک نہیں کر رہی ، بلکہ صرف اتنا بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ ادب میں سمال بزنس سپورٹ نامی چیز کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہر کوئی اتنا لکھے کہ اسے پتہ ہو کہ اب جو میں نے لکھا ہے اس تک لوگ خود آئیں گے ۔ اسے بار بار اپنی تحاریر سے سیکھنے کو ملے اس کے بعد یہ فیصلہ لیا جائے کہ اب کوئی ان کی کتاب پر پیسہ لگائے تو وہ پیسہ حلال ہوگا۔میرے لیے کتاب ایک مقدس لفظ ہے، اس کو ذمہ داری کی طرح ہی لیا جائے تو اس کا حق ادا ہوتا ہے ۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل