ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
(جامی ردولوی)
مشہور روایات کے مطابق پاکستان بنانے کا مقصد ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں پہ
لا الہ الااللہ کا قانون نافذ ہو ۔
ایک ایسی تجربہ گاہ جہاں اسلامی قوانین کا ایک مثالی انفراسٹرکچر دنیا کے سامنے رکھا جائے
جس میں استحصال کی رتی برابر بھی کنجائش نہ ہو۔
خطہ ارض میں رہنے والے تمام انسانوں کی امنگوں کا ترجمان ہو۔
مگر افسوس ۔!
یہ باتیں صرف کتابوں اور تقریروں تک ہی محدود رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم حقیقی آزادی سے آج تک محروم ہیں ۔ اب کچھ لوگ یہ کہنا شروع کردیں گے کہ بھائی ہم تو آزاد ہیں ۔ کس چیز کی غلامی ہے ہم پہ۔۔؟
آزادی سے تو تمام عبادتیں کر رہیں ہیں ناں
تو ان صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ عبادات تو آپ واشنگٹن میں بھی جا کر کریں تو بھی وہاں روکے گا کوئی نہیں بلکہ رمضان کے موقع پر پاکستان کی بنسبت اچھی اور تازہ کھجوریں بھی مل جائیں گی۔
معزز قارئین! کچھ سوالات جو میں آپ کے سامنے رکھوں گا پڑھئیے اور جواب دیجیے کہ کیا واقعی ہم آزاد ہوئے ہیں یا ایک غلامی سے دوسری غلامی ( انگریزوں کی غلامی سے چھوٹ کر سرمایہ داروں ، جاگیر داروں ، مذہبی ٹھیکہ داروں اور خلائی مخلوق) کے زیر تسلط آ چکے ہیں۔
وہ قوم جو اپنا ملک چلانے کے لیے اپنے پرانے آقاؤں کے قوانین پہ ہی عمل پیرا ہو اور اس میں ترمیم کرنے کے لیے بھی مکمل آزادی نہ رکھتی ہو۔ ایسی قوم 14 اگست کے موقع پر آزادی کے نغمے گا گا کر ، باجوں سے پاں پاں کر کے خوش ہو کیا یہ بیوقوفی نہیں ہے۔؟
مندرجہ ذیل کچھ میجر قوانین ہیں جو GoD father کی طرف سے ملے اور ہم اب بھی عہد وفا نباہ رہے ہیں ۔
1۔ ضابط فوج داری کا قانون
تعزیرات پاکستان کا قانون
پاسپورٹ ایکٹ
4۔ سٹامپ ایکٹ
5۔ قانونِ پریس
6۔ جنرل کلاز ایکٹ
7۔ پارٹیشن ایکٹ
8۔ روڈ حادثات کے متعلق بنایا گیا قانون
فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ
10۔ محکمہ مال کے متعلق قوانین ۔
ہماری اسمبلیوں میں بھی تھوڑی بہت ترامیم کیجاتی ہیں بقول شخصے
کھوتا وہی ہے تھڑے(کاٹھی) تبدیل ہیں ۔
آئیے اس یوم آزادی پہ ہی عہد کریں کہ خود کو تمام سیاسی ، سماجی وابستگیوں سے بالائے طاق رکھ کہ حقیقی آزادی کے لئے جدو جہد کرنی ہے۔
اور اس راستے میں جو بھی حالات آئیں تو ڈٹے رہنا ہے ۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی