کسی نئی چیز کی ایجاد کر کے انسانی تاریخ کا پانسا پلٹ کر رکھ دینا کسی بھی انسان کے لیے انتہائی مسحور کن احساس ہوسکتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ تمام ایجادات سے دنیا کو فائدہ ہی پہنچا ہو، کچھ ایجادات نے دنیا کو شدید و ناقابلِ فراموش نقصان بھی پہنچایا اور ان کے مؤجد اکثر اپنی زندگی میں اس بارے میں پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کف افسوس ملتے پائے گئے۔
انسان کی ایجادات میں سب سے مہلک ترین اور تباہ کن ایجاد ایٹم بم ہے۔ ایٹم بم پوری انسانی تاریخ میں صرف دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان پر یکے بعد دیگرے دو ایٹم بم گرائے گئے۔ پہلا بم ہیروشیما پر گرائے جانے کے تابکاری اثرات کئی ماہ تک رہے جس میں تقریباً 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ دوسرا بم ناگاساکی پر گرائے جانے سے 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد کسی بھی جنگ میں ایٹم بم کا استعمال نہیں ہوا۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2022 کے آغاز تک دنیا کے نو ممالک کے پاس تقریباً 12 ہزار 700 جوہری میزائل موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر روس کے پاس ہیں اور امریکہ اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے پاس ایسے پانچ ہزار سے زیادہ میزائل ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق روس کے پاس 5977، امریکہ کے پاس 5428، چین کے پاس 350، فرانس کے پاس 290، برطانیہ کے پاس 225، پاکستان کے پاس 165، انڈیا کے پاس 160، اسرائیل کے پاس 90 اور شمالی کوریا کے پاس 20 ایٹمی میزائل ہیں۔ امریکہ ممکنہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے 2040 تک ایک کھرب ڈالر خرچ کرے گا۔
آج دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد 30 سال پہلے کی نسبت کم ہے لیکن یہ اب بھی اتنے ہیں کہ دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں اور عنقریب دنیا ان سے پاک ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
“No Exit From Pakistan”
اس کتاب کے مصنف کا نام Daniel S Markey ہے۔ یہ شخص 2003ء سے 2007ء تک امریکہ وزارتِ خارجہ میں Policy and Planning کے شعبے سے وابستہ رہا۔ اس کے بعد وہ 2007ء سے 2015ء تک پاکستان، بھارت اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے “جان ہاپکنز” یونیورسٹی کے شعبے کا senior fellow بھی رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تین وجوہات کی بنا پر ہم پاکستان نہیں چھوڑ سکتے۔
اول یہ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اتنا بڑا اور پھیلا ہوا ہے کہ پھر ہم اس پر کڑی نظر نہیں رکھ سکیں گے۔
دوم: پاکستان کے چین کی سِول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس قدر گہرے اور دور رس تعلقات ہیں کہ اگر ہم یہاں سے چلے گئے تو پاکستان چین کی مدد سے آزاد اور خود مختار ہو جائے گا۔
اور سوم: پاکستان کی فوج اتنی بڑی اور مضبوط ہے کہ یہ نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ کتاب میں پاکستان اور امریکہ کے ستر سالہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے 1950ء میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر کبھی بھی اس قدر مضبوط نہیں ہونے دینا کہ وہ مسلم اُمّہ کی قیادت کر سکے۔ ایسا کرنا امریکہ کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ امریکہ کو شروع دن سے ہی پاکستان میں ایسے ضمیر فروش بکاؤ افراد ملے ہیں جنہوں نے محض چند ٹکوں کی خاطر پاکستان کے مفاد کا سودا کر ڈالا۔ کتاب کے مطابق امریکہ نے پاکستان کے ہر طبقہ میں افراد کو خرید رکھا ہے۔ اس فہرست میں سیاسی رہنما، سول بیوروکریسی کے ارکان، فوج کے اعلیٰ عہدیدار، صحافی، میڈیا ہاؤسز کے مالکان اور خاص طور پر پڑھے لکھے مقبول دانشور شامل ہیں۔ امریکہ یہ خرید و فروخت ہر ملک میں کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے یہ کام بےحد آسان لگا کیونکہ خرید و فروخت کے اس بازار میں پاکستان کی اشرافیہ اپنی قیمت بہت کم لگاتی ہے۔ یہ قیمت اتنی تھوڑی بھی ہوتی ہے جیسے ایک شخص کو امریکہ کا ویزہ مل جائے یا اس کے بچوں کو امریکہ میں تعلیم کے لیے وظیفہ مل جائے تو وہ اپنے ملک کے مفادات کا سودا کر دیتا ہے۔
سو یہ بات ثابت ہوئی کہ امریکہ یہاں(پاکستان میں) اپنے پنجے گاڑے رکھنا چاہتا ہے۔ وہ بخوبی واقف ہے کہ اگر وہ یہاں سے نکل گیا تو اس کی پرچھائیں تک اس خطۂ پاک میں نظر نہیں آئیں گی۔ لہٰذا اس وقت امریکہ کے تمام تھنک ٹینک، اسٹیبلشمنٹ، خفیہ ایجنسیاں اور مالیاتی گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان سے نکلنا، پاکستان کو مکمل طور پر آزاد ہونے دینا ہے۔ اسے اپنے شکنجے میں کسے رکھنا چاہیے تاکہ یہ کبھی بھی چین کے ساتھ بحثیتِ ایک خودمختار مملکت تعلقات استوار نہ کر سکے۔
ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے بعد یہ دنیا کئی بار ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچی لیکن آج تک کسی لیڈر نے ایٹمی حملے کا بٹن نہیں دبایا۔ تاہم اب روسی صدر کے ایٹمی ہتھیاروں کو ہائی الرٹ پر رکھنے کے حکم نے دنیا کو ایک بار پھر ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس دہلیز سے آگے صرف تباہی ہی تباہی ہے اور ایک لیڈر کا ایٹمی بٹن دبانے کا فیصلہ پوری دنیا کو برباد کر سکتا ہے۔ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تو ممکن ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کچھ لوگ کسی خاص کمپیوٹر کی سکرین کو گھور رہے ہوں، کچھ Banker میں بیٹھے اپنے لیڈر کے حکم کا انتظار کر رہے ہوں اور ہوسکتا ہے کسی آبدوز کا کمانڈر اپنے لیڈر کے ایک اشارے کا منتظر ہو۔
ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے۔ مگر بطورِ امت مسلمہ ہم کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم نہ نظریاتی طور پر ایک ہیں نہ روحانی طور پر۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں مگر ہم کرۂ ارض پر ایک اکیلے تن تنہا، بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔ ہم جو شیر تھے کہ زمانہ ہماری دھاڑ سے گونجا کرتا تھا آہ آج ہم پر گلی کے آوارہ کتے بھی بھونکتے ہیں۔
اس وقت تنزلی وتباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا آج کا پاکستان، اگر آزادانہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہے، خطۂ ارض میں ایک جرات مندانہ اقدام و قائدانہ کردار ادا نہیں کر رہا تو، اس کی بزدلی اور قوتِ فیصلہ کی کمی کی بنیادی وجہ سیاستدانوں، سول ملٹری بیوروکریسی، میڈیا اور دانشوروں میں موجود وہ ضمیر فروش و بے ایمان لوگ ہیں جو امریکہ کی اسیری سے پاکستان کو رہائی دلانا ہی نہیں چاہتے۔ ان کا قبلہ و کعبہ امریکہ ہے اور اس بکاؤ محبت کی قیمت بہت معمولی سی ہے یعنی امریکہ سے ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات۔۔۔ آہ! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
ہم پاکستانی جب بھی ایٹمی دھماکہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں فوراً سے پیشتر دیوان بالا میں فون آجاتا ہے۔ “پہلے ہمارا قرضہ تو چکا دو پھر کرتے رہنا ہم پر بم دھماکہ۔”
پاکستانی فوج دنیائے عالم کی سب سے دبنگ فوج ہے۔ پاک فوج کے جری بہادر جوان بارڈرز پر پہرہ دیتے ہیں آئے روز دشمن کی اندھی گولی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ انڈیا کی اجارہ داری، امریکہ کی ڈھکوسلے بازی اور اسرائیل کے عیارانہ حربوں کا ہر مرتبہ پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ مگر دشمنوں کی سینہ زوری دیکھیے کہ باوجود منہ کی کھانے کے پھر بھی وہ سب متحد ہو کر ہر زاویے سے پاکستان کو چاروں شانے چت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے جس کے پاس پیسہ اور طاقت ہے وہ کامیاب ہے۔ بفضل تعالیٰ پاکستان بلاشبہ ایک ایٹمی طاقت ہے مگر ہمارے بچے بچے کا بال بال قرض میں ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ ہم جب بھی دشمنوں کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو فوراً ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہم ان کے مقروض ہیں، منگتے ہیں، ان کا دیا کھا پی پہن اوڑھ کر نمک حلالی کا حق ادا کرنے پر ایسا مجبور کر دیے گئے کہ ہمارا سارا جوش و جذبہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ہاں ہمیں بس دن منانے کے قابل چھوڑا گیا ہے صاحب! ہم نے اپنے محسن ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ کیسا ناروا سلوک کیا۔ عظیم سائنسدان کی محنت، کاوش اور احسان کے بدلے میں ہم نے اپنے محسن کو دھتکار دیا۔ کیا ہم احسان فراموش قوم واقعی یوم تکبیر منانے کے لائق ہیں؟ ہم جو آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں تو آپسی اختلافات سے ہی فرصت نہیں غیروں کا کیا گلہ کریں۔ ہم کیسی ایٹمی طاقت ہیں کہ چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہمارا دشمن ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری ہنسی اڑاتا دندناتا پھرتا ہے۔ مزہ تو جب ہو کہ ہم آپس کے تمام اختلافات بھلا کر ایک قالب میں ڈھل جائیں۔ دشمن کو اپنی سرحدوں سے نکال باہر کریں۔ ہر عیارانہ چال ،شاطرانہ حربوں کو ناکام بنا دیں اور اگر کسی نے بھی ہماری طرف بری نگاہ ڈالی تو کر ڈالیں پھر ایک بم دھماکہ اور خاک آلود کر دیں دشمنوں کے چہروں کو۔
الحمدللہ ہم امت محمدیہ کے جوشیلے نڈر امتی ہیں، ہم وہ شیر ہیں جو دھاڑنا بھول گیا ہے وگرنہ آج بھی ہم لگا دیں نا ایک فلک شگاف نعرۂ تکبیر اللّٰہ اکبر تو خدا کی قسم دشمن کے پاجامے گیلے ہو جائیں۔ بم دھماکہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے والے بھارت کے حلق سے اس کی زبان کھینچ لینے کی جرات رکھتے ہیں۔ دشمن جس کو آنکھ مچولی کا کھیل سمجھ رہا ہے وہ اس کی زمین پہ طلوع ہونے والے سورج کی روشنی کو تاریکیوں میں بدل دے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ ببانگِ دہل دشمنوں کو بتایا جائے کہ آج بھی ہمارے اندر وہی 65ء کا جذبہ موجود ہے۔ انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان سے کوئی کبھی بھی جنگ نہیں جیت سکتا۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا کیونکہ اس کے لوگ جس دین اسلام کے پیروکار ہیں وہ امن اور سلامتی کا مذہب ہے لیکن جب جنگ مسلط کر دی جائے تو سرتوڑ جوابی کارروائی ہم پر لازم ہے۔
ہمارے عسکری فضائیہ جانباز ہوں، میدانی نڈر سپاہی ہوں یا بحری فوجی جوان انہوں نے لاالہ الااللہ کی جو زرہ بکتر پہن رکھی ہے اسے دشمن کسی طور نہیں توڑ سکتا، باطل کی مکاری کے سامنے افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان کا بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار ہے۔
اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا
لے ہم بھی ہیں صف آراء
لے ہم بھی ہیں صف آراء
اللہ اکبر، اللہ اکبر
پوری پاکستانی قوم کو
28_مئی یومِ تکبیر مبارک
پاکستان زندہ باد