مفتی عبدالصمد ساجد صاحب مدظلہ
مدرس و معین دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا
تصدیق: مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی صاحب مدظلہم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجوابُ حامداً وّ مصلّياً وّ مسلّماً
صورت ِ مسئولہ میں شوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہیں تو بیوی اس پر طلاق ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے ، جس کا حکم یہ ہے کہ اب بغیر تحلیل شرعی کے ان کے باہمی نکاح یا رجوع کی کوئی صورت نہیں۔تین طلاق کے بعد بغیر تحلیل شرعی کے شخص مذکور کا اس خاتون کوبسانا سخت گناہ اور حرام ہے ، اور ان کا باہمی ازدواجی تعلق زنا ہے ۔
اگر کوئی شخص ایک مجلس میں ایک جملہ سے یا الگ الگ جملوں سے تین طلاق دے تو ایسے طریقہ سے طلاق دینا خلافِ سنت اور گناہ ہے مگر یہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں ، قرآن و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام کے آثار ، آئمہ اربعہ رحمہم اللہ کے اقوال اور امت کے اجماع سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔ وہ لوگ جو آئمہ اربعہ(امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ )میں سے کسی کی اتباع و تقلید نہیں کرتے، ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے ہیں جو کہ قرآن و سنت اور اجماع ِامت کے خلاف اور بالکل غلط اور سخت گم راہی ہے ۔ ان کے نادرست فتویٰ پر عمل کرنا بالکل خواہش پرستی اور حرام ہے، کسی کے کہنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا ۔
اگر کوئی شخص تین طلاق کے بعد کسی غلط فتوی کو بنیاد بناکر اپنی بیوی کو بسانا چاہے تو بااثر تعلق والوں کو چاہیے کہ اسے سمجھائیں اور فتنہ و فساد سے بچتے ہوئے ان کی باہم جدائی کروادیں۔ اس کے باوجود بھی اگر وہ باز نہ آئے اور اس بیوی کو ناجائز طور بسانے پر اصرار کرے تو اصلاح اور تنبیہ کی نیت سے ایسے شخص سے خصوصی تعلقات ختم کردیے جائیں ۔ مثلاً اس کی خوشی و غمی میں شریک نہ ہوں، نہ اسے اپنی ایسی تقریبات میں بلائیں ۔ البتہ اگر قطع ِ تعلقات سے بجائے اصلاح فساد کا اندیشہ ہو تو نرمی سے کام لیا جائے۔ کیونکہ مقصود اصلاح اور تنبیہ ہے وہ جس بھی معتدل طریقہ سے حاصل ہو۔
تین طلاق کے بعد (وہ تین طلاق چاہے ایک مجلس میں ہوں یا متعدد مجالس میں ، ایک جملہ سے ہوں یا الگ الگ جملوں سے) حلالہ شرعیہ کے بغیر عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی ، یہاں تک کہ وہ عورت عدت کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح صحیح کرے اور نکاح کے بعد دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرے پھر مر جائے یا از خود طلاق دے دے اور اس کی عدت گزر جائے تب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کرسکے گا، یہ حلالہ شرعیہ ہے اور خود قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہے،تین طلاق کے بعد بغیر حلالہ شرعیہ عورت کو بسائے رکھنا قرآن و سنت اور اجماع ِ امت کے مطابق بالکل حرام ہے اور اس کے جواز کا فتوی دینا حرام کاری کو رواج دینا ہے، حلالہ کو ہر حال قابل ِ لعنت قرار دینا اور حرام کہنا غلط ہے اور قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے ۔ ہاں البتہ اگر تین طلاق کے بعد عورت کا کسی سے اس شرط پر نکاح کردینا کہ وہ ہم بستری کے بعد طلاق دے دے گا ، یہ شرط باطل ہے، اور حدیث میں ایسا حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے، تاہم اس باطل شرط کے باوجود اگر دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے دے تو عدت کے بعد عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے گی، اور اگر دوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا لیکن اس شخص کا اپنا خیال یہ ہے کہ وہ عورت کو صحبت کے بعد فارغ کردے گا تو یہ صورت موجب ِ لعنت نہیں بلکہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں یہ شخص اس عمل پر اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح اگر عورت کی یہ نیت ہو کہ صحبت کے بعد وہ دوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر سے نکاح کے قابل ہوجائے گی تو یہ صورت بھی جائز ہے ، گناہ نہیں ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں حضرت الاستاذ مفتی سید عبدالقدوس ترمذی مدظلہم کا تحقیقی مقالہ ’’ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم ‘‘ اور دیگر اکابر کے فتاویٰ جات و مقالات ۔
◉ مختصر دلائل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
فی القرآن الکریم }البقرۃ:۲۲۹{
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ۔
ترجمہ:’’ طلاق دو مرتبہ کی ہے ، پھر خواہ قاعدے کے مطابق رکھ لے ، خواہ اچھے طریقے سے اس کو چھوڑ دے ‘‘۔
آیت ِ مذکورہ کا مضمون یہ ہے کہ طلاق دو دفعہ کی ہے ، اب اس میں دونوں احتمال ہیں کہ دو طلاق الگ الگ طہر میں دے دے یا ایک ساتھ دے دے ، بہر صورت دونوں واقع ہوں گی اور جب ایک وقت میںدو طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں تو تین بھی واقع ہوں گی، اس لیے کہ دو اور تین میں فرق کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں ’’ باب من أجاز الطلاق الثلاث ‘‘ میں تین طلاق کے واقع ہونے پر اسی آیت ِ مبارکہ سے استدلال کیا ہے ۔
قال الإمام البخاری فی صحیحہ} کتاب الطلاق، بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَث،۷/۴۲ دار طوق النجاۃ، بیروت{
بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَثِ لِقَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی:الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ)(البقرۃ229)
و فی عمدۃ القاری (کتاب الطلاق، بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَث، ۲۰/۲۳۴، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
وجہ الاستدلال بہ أن قولہ تعالی:الطلاق مرتانمعناہ: مرۃ بعد مرۃ، فإذا جاز الجمع بین ثنتین جاز بین الثلاث۔
و قال الجصاص فی أحکام القرآن(۱/۴۶۷، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ذکر الحجاج لإیقاع الطلاق الثلاث معا، قال أبو بکر: قولہ تعالی: (الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان) الآیۃ، یدل علی وقوع الثلاث معا مع کونہ منہیا عنہا، وذلک; لأن قولہ: (الطلاق مرتان) قد أبان عن حکمہ إذا أوقع اثنتین بأن یقول أنت طالق أنت طالق فی طہر واحد; وقد بینا أن ذلک خلاف السنۃ، فإذا کان فی مضمون الآیۃ الحکم بجواز وقوع الاثنتین علی ہذا الوجہ، دل ذلک علی صحۃ وقوعہما لو أوقعہما معا; لأن أحدا لم یفرق بینہما.
وفی القرآن الکریم (البقرۃ:۲۳۰)
فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ۔
ترجمہ : پس اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورشخص سے نکاح کرلے۔
و قال الجصاص فی أحکام القرآن(۱/۴۶۸، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وفیہا الدلالۃ علیہ من وجہ آخر، وہو قولہ تعالی: (فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) فحکم تحریمہا علیہ بالثالثۃ بعد الاثنتین ولم یفرق بین إیقاعہما فی طہر واحد أو فی أطہار، فوجب الحکم بإیقاع الجمیع علی أی وجہ أوقعہ من مسنون أو غیر مسنون ومباح أو محظور.
ترجمہ : اور اس آیت میں اس مسئلے پر ایک اور دلیل بھی ہے اور وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :(فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) یعنی وہ عورت اس پہلے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، ـــ اللہ تعالی نے دو طلاق کے بعد تیسری طلاق سے بیوی کے شوہر پر حرام ہونے کا حکم لگایا ہے اور اس میں کوئی فرق کہ نہیں فرمایا کہ وہ دونوں طلاقیں ایک ہی طہر میں واقع کی ہوں یا کئی طہر وں میں، لہذا سب طلاقوں کے واقع کرنے کا حکم ثابت ہوگیا ، شوہر جس بھی طریقہ سے طلاق واقع کرے ، سنت طریقہ سے ہو یا سنت طریقہ سے نہ ہو ، جائز طریقہ سے ہو یا ناجائز طریقہ سے۔(بہرحال طلاق واقع ہوجائے گی)۔
و قال ابن حزم فی المحلی بالآثار (۱۹/۱۳۹)
فہذا یقع علی الثلاث مجموعۃ و مفرقۃ و لا یجوز أن یخص بہذہ الآیۃ بعض ذلک دون بعض بغیر نص۔
فی صحیح البخاری (کتاب الطلاق، بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلاَقَ الثَّلاَث، رقم الحدیث:۵۲۶۱)
عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا، فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لاَ، حَتَّی یَذُوقَ عُسَیْلَتَہَا کَمَا ذَاقَ الأَوَّلُ۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، تو اس خاتون نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا اور شوہر(ثانی) نے طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوچکی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں یہاں تک وہ اس کا شہد چکھ لیتا( یعنی اس سے صحبت کرلیتا)جیسا کہ پہلے شوہر نے چکھا ۔
و فی فتح الباری(۹/۳۶۷)
فالتمسک بظاہر قولہ طلقہا ثلاثا فإنہ ظاہر فی کونہا مجموعۃ۔
و فی سنن النسائی(کتاب الطلاق، رقم الحدیث:۳۴۰۱)
أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ جَمِیعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ: أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللَّہِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ؟۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی اکٹھی تین طلاق دے دی ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جائے گا؟۔
اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکٹھی تین طلاق دینے پر غصے کا اظہار تو فرمایا مگر اکٹھی دی گئی تین طلاق کو ایک طلا ق قرار نہیں دیا ، بلکہ تینوں کو نافذ فرمایا۔
و فی سنن أبی داؤد(کتاب الطلاق، باب فی اللعان، رقم الحدیث:۲۲۵۰)
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِی ھَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَہَا ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تین طلاق دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ فرمادیا۔
و فی صحیح البخاری (کتاب الطلاق، باب من قال لامرأتہ : أنت علی حرام، رقم الحدیث:۵۲۶۴)
کَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا، قَالَ: لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِی بِہَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَہَا ثَلاَثًا حَرُمَتْ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَکَ۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب اس شخص کے بارے میں سوال کیا جاتا جس نے تین طلاقیں دی ہوں، تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر تو نے ایک یا دو دی ہوتیں (تو رجوع کرسکتا تھا)کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی حکم فرمایا تھا، لیکن اگر تو نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو بیوی حرام ہوچکی ہے یہاں تک کہ وہ تیرے سوا کسی اور سے نکاح کرلے۔
و فی مصنف ابن أبی شیبۃ (۵/۱۱،رقم الحدیث:۱۸۰۸۹ )
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إذَا أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَجْلِسٍ ، أَوْجَعَہُ ضَرْبًا ، وَفَرَّقَ بَیْنَہُمَا.
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کسی ایسے شخص کو لایا جاتا جس نے ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوتیں تو آپ رضی اللہ عنہ اسے سزا دیتے اور ان زوجین میں جدائی کرا دیتے ۔
و فیہ أیضا (۵/۱۱)
عَنْ نَافِعٍ قَالَ : قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا ، فَقَدْ عَصَی رَبَّہُ ، وَبَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہُ.
و فیہ أیضا(۵/۱۰)
عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ قَالَ : سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلاَثًا فِی مَجْلِسٍ ؟ قَالَ : أَثِمَ بِرَبِّہِ ، وَحُرِّمَتْ عَلَیْہِ امْرَأَتُہُ.
و فیہ أیضاً(۵/۱۴، ۱۸۱۰۹)
عَنْ حَبِیبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ ، قَالَ : جَاء َ رَجُلٌ إلَی عَلِیٍّ فَقَالَ : إنِّی طَلَّقْت امْرَأَتِی أَلْفًا ؟ قَالَ : الثَّلاَثُ تُحَرِّمُہَا عَلَیْك.
جو حضرات قرآن و سنت ، آثار ِ صحابہ کرام و تابعین عظام علیہم الرضوان ، اقوال ِ آئمہ اربعہ ، اور اجماع ِامت سے انحراف کرکے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے ہیں عموما ان کی دلیل یہ دو روایات ہوتی ہیں۔
(۱) عَنْ عِکْرِمَۃَ، مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” طَلَّقَ رُکَانَۃُ بْنُ عَبْدِ یَزِیدَ أَخُو بَنِی الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَیْہَا حُزْنًا شَدِیدًا، قَالَ: فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ” کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟ ” قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: ” فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ ” قَالَ: نَعَمْ قَالَ: ” فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَأَرْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ ” قَالَ: فَرَجَعَہَا فَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ” یَرَی أَنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ کُلِّ طُہْرٍ ” (مسند الامام أحمد ،۴/۲۱۵)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے بیان فرمایاکہ رکانہ بن عبد یزید نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ، پھر اس سخت حزن و ملال ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے انہیں کیسے طلاق دی ہے، تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے انہیں تین طلاقیں دی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مجلس میں ؟ کہا : جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کرلو، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ پھر حضرت رکانہ نے رجوع کرلیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ طہر میں ہی طلاق جائز سمجھتے تھے۔
غیر مقلدین حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں ، تو گزارش یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا جو قصہ اس حدیث میں مذکور ہے، اس میں روایات میں اضطراب ہے، اور یہ اضطراب فی المتن ہے، چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں، جیسا کہ اس روایت میں مذکور ہے، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ انہوں نے لفظ ’’ بَتّہ ‘‘ سے طلاق دی تھی، طلاق ’’ بَتّہ ‘‘ سے مراد ایسی طلاق ہے کہ جس میں ایک طلاق سے تین طلاق تک احتمال اور گنجائش ہوتی ہے، یعنی اگر نیت ایک کی ہو ایک واقع ہوتی ہے اور اگر نیت تین کی ہو تو تین واقع ہوں گیں۔ اسی اضطراب کی وجہ سے حضرات محدثین کرام نے اس روایت کے بارے مختلف اقوال اختیار فرمائے ہیں چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلول، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ضعیف اور امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں اور علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے فتح القدیر میں اسے منکر قرار دیا ہے، کیونکہ یہ روایت ثقہ اور معتبر راویوں کی روایت کے خلاف ہے، اما م ابو داؤد رحمہ اللہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق ’’ بَتّہ ‘‘ دی تھی، کیونکہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں نے یہی روایت کیا ہے کہ انہوں نے طلاق ’’ بَتّہ ‘‘ دی تھی ، اور اہل خانہ گھر کے قصے کو زیادہ جانتے ہوتے ہیں ، صاحب البیت أدریٰ بما فیہ ۔ ذیل میں سنن ابی داؤد کی روایت ملاحظہ فرمائیں ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ یَزِیدَ بْنِ رُکَانَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ: أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ الْبَتَّۃَ، فَأَتَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا أَرَدْتَ، قَالَ: وَاحِدَۃً، قَالَ: آللَّہِ؟، قَالَ: آللَّہِ، قَالَ: ہُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ : وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ جُرَیْجٍ أَنَّ رُکَانَۃَ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا، لِأَنَّہُمْ أَہْلُ بَیْتِہِ، وَہُمْ أَعْلَمُ بِہِ، وَحَدِیثُ ابْنِ جُرَیْجٍ رَوَاہُ عَنْ بَعْضِ بَنِی أَبِی رَافِعٍ، عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
(سنن أبی داؤد، کتاب الطلاق ، باب فی البتۃ، ۲/۲۶۳، رقم الحدیث:۲۲۰۸، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
ترجمہ: حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو’’ طلاق بَتّہ ‘‘ دے دی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا ارادہ تھا ، عرض کی کہ ایک کا ارادہ تھا، فرمایا کہ اللہ کی قسم ؟ عرض کیا جی ہاں ! اللہ کی قسم ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری نیت کے مطابق ہی طلاق واقع ہوئی ہے ، امام ابو دؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : یہ حدیث ابن جریج کی اس روایت سے زیادہ صحیح اور معتبر ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں، اس لیے کہ اِ س روایت کے رواۃ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے اہل ِ خانہ ہیں اور وہ اس واقعے کو دوسروں سے زیادہ جاننے والے ہیں ۔ ابن جریج کی روایت وہ ہے کہ جسے بنو ابی رافع کے ایک شخص نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس واقعہ کی روایات میں اضطراب ہے صحیح یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق کی نیت سے اپنی بیوی کو طلاق بَتّہ دی تھی ، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم فرمایا ، ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دے کر رجوع کا حکم فرمایا ہو۔ لہذا اس روایت سے استدلال باطل ہوا۔
(۲) حضرات غیر مقلدین دوسرا اس روایت سے استدلال کرتے ہیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً، الحدیث۔(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث،رقم الحدیث:۱۴۷۲)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کے زمانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دوسال تک تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں۔
اس حدیث سے بھی غیر مقلدین حضرات کا استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے ۔
(۱) اس روایت میں راوی کو وہم ہوا ہے، کیونکہ ابن طاؤس سے اس کے خلاف روایت منقول ہے، اور علامہ باجی رحمہ اللہ نے حضرت ابن طاؤس رحمہ اللہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اوجز المسالک میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے:
و ما روی عن ابن عباس فی ذلک من روایۃ طاؤس ، قال فیہ بعض المحدثین : ہو وہم ، و قد روی ابن طاؤس عن أبیہ عن ابن وہب خلاف ذلک و إنّما وقع الوہم فی التأویل ، قال الباجی: و عندی أنّ الروایۃ عن ابن طاؤس بذلک صحیحۃ فقد رواہ عنہ الآئمۃ معمر و ابن جریج و غیرہما۔(۴/۲۳۱)
و فی السنن الکبری للبیہقی(کتاب الخلع و الطلاق، ۷/۵۵۱، رقم الحدیث:۱۴۹۷۴، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ أَبَا الصَّہْبَاء قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: ” ہَاتِ مِنْ ہَنَاتِکَ أَلَمْ یَکُنْ طَلَاقُ الثَّلَاثِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَاحِدَۃً؟ قَالَ: قَدْ کَانَ ذَلِکَ، فَلَمَّا کَانَ فِی عَہْدِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تَتَابَعَ النَّاسُ فِی الطَّلَاقِ فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ ” رَوَاہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ. وَہَذَا الْحَدِیثُ أَحَدُ مَا اخْتَلَفَ فِیہِ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فَأَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ، وَتَرَکَہُ الْبُخَارِیُّ وَأَظُنُّہُ إِنَّمَا تَرَکَہُ لِمُخَالَفَتِہِ سَائِرَ الرِّوَایَاتِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
حاصل یہ ہے کہ امام بیہقی طاؤس والی روایت ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کا اختلاف ہے، امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے نقل کیا جبکہ امام بخار ی رحمہ اللہ نے نقل نہیں کیا، میرا خیال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس لیے روایت نہیں کیا کیونکہ یہ روایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی دیگر تمام روایات کے خلاف ہے۔
و فی الاستذکار للقرطبی (۶/۸، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وأما وقوع الثلاث تطلیقات مجتمعات بکلمۃ واحدۃ فالفقہاء مختلفون فی ہیئۃ وقوعہا کذلک هل تقع للسنۃ أم لا مع إجماعہم علی أنہا لازمۃ لمن أوقعہا کما تقدم ذکرنا لہ وروایۃ طاوس وہم وغلط لم یعرج علیہا أحد من فقہاء الأمصار بالحجاز والعراق والمغرب والمشرق الشام……… ولو صح عن بن عباس ما ذکرہ طاوس عنہ وذلک لا یصح لروایۃ الثقات الجلۃ عن بن عباس خلافہ ما کان قولہ حجۃ علی من ہو من الصحابۃ أجل وأعلم منہ وہم عمر وعثمان وعلی وبن مسعود وبن عمر وعمران بن حصین وغیرہم وقد ذکرنا الروایۃ عن بعضہم بذلک……قال أبو عمر فہؤلاء الصحابۃ کلہم قائلون وبن عباس معہم بخلاف ما رواہ طاوس عن بن عباس وعلی ذلک جماعات التابعین وأئمۃ الفتوی فی أمصار المسلمین، وإنما تعلق بروایۃ طاوس أہل البدع فلم یروا الطلاق لازما إلا علی سنتہ فجعلوا فخالف السنۃ أخف حالا فلم یلزموہ طلاقا، وہذا جہل واضح لأن الطلاق لیس من القرب إلی اللہ تعالی فلا یقع إلا علی سنتہ إلی خلاف السلف والخلف الذین لا یجوز علیہم تحریف السنۃ ولا الکتاب، وممن قال بأن الثلاثۃ فی کلمۃ واحدۃ تلزم موقعہا ولا تحل لہ امرأتہ حتی تنکح زوجا غیرہ مالک وأبو حنیفۃ والشافعی وأصحابہم والثوری وبن أبی لیلی والأوزاعی واللیث بن سعد وعثمان البتی وعبید اللہ بن الحسن والحسن بن حی وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راہویہ وأبو ثور وأبو عبید ومحمد بن جریر الطبری، وما أعلم أحدا من أہل السنۃ قال بغیر ہذا إلا الحجاج بن أرطأۃ ومحمد بن إسحاق وکلاہما لیس بفقیہ ولا حجۃ فیما قالاہ، قال أبو عمر ادعی داود الإجماع فی ہذہ المسألۃ وقال لیس الحجاج بن أرطأۃ ومن قال بقولہ من الرافضۃ ممن یعترض بہ علی الإجماع لأنہ لیس من أہل الفقہ۔قال أبو عمر ہذا حدیث منکر خطأ وإنما طلق رکانۃ زوجتہ البتۃ لا کذلک رواہ الثقات أہل بیت رکانۃ العالمون بہ وسنذکرہ فی ہذا الباب، وأما ذہب بن إسحاق فہو قول طاوس وہو مذہب ضعیف مہجور عند جمہور العلماء وأما حدیث طاوس فقد ذکرنا أن الجمهور من أصحاب بن عباس رووا عنہ ذلک وہو المأثور عن جماعۃ الصحابۃ وعامۃ العلماء وما التوفیق إلا باللّٰہ۔
(۲) صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث کا جو مطلب حضرات غیر مقلدین نے لیا ہے ، دوسری احادیث کی بنا پر مطلب درست نہیں ہے ، نیز فقہاء ِ کرام میں سے کسی نے بھی اس کو مطلب کو صحیح قرار دے کر یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین نہیں ہوتیں بلکہ ایک شمار ہوتی ہے، لہذا اس کا سب سے زیادہ صحیح اور مضبوط معنی اور مفہوم وہ ہے جو امام قرطبی نے پسند کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
ففی تفسیر القرطبی(سورۃ البقرۃ:۲۲۹، ۳/۱۳۰، دار الکتب المصریۃ، قاہرۃ)
واتفق أئمۃ الفتوی علی لزوم إیقاع الطلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ، وہو قول جمہور السلف، وشذ طاوس وبعض أہل الظاھر إلی أن طلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ یقع واحدۃ، ویروی ہذا عن محمد ابن إسحاق والحجاج بن أرطاۃ. وقیل عنہما: لا یلزم منہ شی، وہو قول مقاتل. ویحکی عن داود أنہ قال لا یقع. والمشہور عن الحجاج بن أرطاۃ وجمہور السلف والأئمۃ أنہ لازم واقع ثلاثا. ولا فرق بین أن یوقع ثلاثا مجتمعۃ فی کلمۃ أو متفرقۃ فی کلمات، فأما من ذھب إلی أنہ لا یلزم منہ شی فاحتج بدلیل قولہ تعالی:” والمطلقات یتربصن بأنفسہن ثلاثۃ قروء “. وہذا یعم کل مطلقۃ إلا ما خص منہ، وقد تقدم. وقال:” الطلاق مرتان” والثالثۃ” فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان”. ومن طلق ثلاثا فی کلمۃ فلا یلزم، إذ ہو غیر مذکور فی القرآن. وأما من ذہب إلی أنہ واقع واحدۃ فاستدل بأحادیث ثلاثۃ: أحدہا- حدیث ابن عباس من روایۃ طاوس وأبی الصہباء وعکرمۃ. وثانیہا- حدیث ابن عمر علی روایۃ من روی أنہ طلق امرأتہ ثلاثا، وأنہ علیہ السلام أمرہ برجعتہا واحتسبت لہ واحدۃ. وثالثہا- أن رکانۃ طلق امرأتہ ثلاثا فأمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برجعتہا، والرجعۃ تقتضی وقوع واحدۃ. والجواب عن الأحادیث ما ذکرہ الطحاوی أن سعید ابن جبیر ومجاہدا وعطاء وعمرو بن دینار ومالک بن الحویرث ومحمد بن إیاس بن البکیر والنعمان بن أبی عیاش رووا عن ابن عباس فیمن طلق امرأتہ ثلاثا أنہ قد عصی ربہ وبانت منہ امرأتہ، ولا ینکحہا إلا بعد زوج، وفیما رواہ ہؤلاء الأئمۃ عن ابن عباس مما یوافق الجماعۃ ما یدل علی وہن روایۃ طاوس وغیرہ، وما کان ابن عباس لیخالف الصحابۃ إلی رأی نفسہ. قال ابن عبد البر :وروایۃ طاوس وہم وغلط لم یعرج علیہا أحد من فقہاء الأمصار بالحجاز والشام والعراق والمشرق والمغرب، وقد قیل: إن أبا الصہباء لا یعرف فی موالی ابن عباس. قال القاضی أبو الولید الباجی:” وعندی أن الروایۃ عن ابن طاوس بذلک صحیحۃ، فقد روی عنہ الأئمۃ: معمر وابن جریج وغیرہما، وابن طاوس إمام. والحدیث الذی یشیرون إلیہ ہو ما رواہ ابن طاوس عن أبیہ عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر بن الخطاب طلاق الثلاث واحدۃ، فقالٔ عمر رضی اللہ عنہ: إن الناس قد استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ، فلو أمضیناہ علیہم! فأمضاہ علیہم. ومعنی الحدیث أنہم کانوا یوقعون طلقۃ واحدۃ بدل إیقاع الناس الآن ثلاث تطلیقات، ویدل علی صحۃ ہذا التأویل أن عمر قال: إن الناس قد استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ، فأنکر علیہم أن أحدثوا فی الطلاق استعجال أمر کانت لہم فیہ أناۃ، فلو کان ذلک حالہم فی أول الإسلام فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما قالہ، ولا عاب علیہم أنہم استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ. ویدل علی صحۃ ہذا التأویل ما روی عن ابن عباس من غیر طریق أنہ أفتی بلزوم الطلاق الثلاث لمن أوقعہا مجتمعۃ، فإن کان ہذا معنی حدیث ابن طاوس فہو الذی قلناہ، وإن حمل حدیث ابن عباس علی ما یتأول فیہ من لا یعبأ بقول فقد رجع ابن عباس إلی قول الجماعۃ وانعقد بہ الإجماع۔
حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت میں کسی عام قاعدہ کا ذکر نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک خاص صورت سے ہے ، او ر وہ یہ کہ شوہر لفظ ِ طلاق کو تاکید کی نیت سے دوہرائے ، ہر جملہ سے الگ الگ طلاق کی نیت نہ ہو، تو اس صورت میں شوہر کی تصدیق کی جائے گی اور ایک طلاق کے واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا لیکن شوہر کی یہ تصدیق اس وقت تک کی جاتی تھی اور شوہر پر اس وقت تک اعتماد کیا جاتا تھا جب تک کہ لوگوں میں صدق و دیانت غالب تھا اور لوگوں کے دل دھوکا اور فریب اور مسائل و احکام میں جرات سے خالی تھے، لیکن بعد میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگوں میں جھوٹ ، دھوکا اور فریب کا رواج ہونے لگا ، اب کسی کی دیانت پر بھروسہ کرکے اس کے دعویٰ کی تصدیق مشکل ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ظاہراً تکرار ِ طلاق کو دیکھ کر اس کے مطابق تینوں طلاقوں کو نافذ فرمایا اور نیت ِ تاکید کے دعویٰ کو قبول نہیں فرمایا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعوذ باللہ کوئی مسئلہ نیا نہیں بنایا اور نہ عہد ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری حکم میں کوئی تبدیلی فرمائی ۔مذکورہ بالا توجیہ شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ نے بھی کی ہے:
و فی شرح صحیح مسلم للنووی(کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث،۱۰/۷۱، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
وقد اختلف العلماء فیمن قال لامرأتہ أنت طالق ثلاثا فقال الشافعی ومالک وأبو حنیفۃ وأحمد وجماہیر العلماء من السلف والخلف یقع الثلاث وقال طاوس وبعض أہل الظاہر لا یقع بذلک إلا واحدۃ ……… …وأما حدیث بن عمر فالروایات الصحیحۃ التی ذکرہا مسلم وغیرہ أنہ طلقہا واحدۃ وأما حدیث بن عباس فاختلف العلماء فی جوابہ وتأویلہ فالأصح أن معناہ أنہ کان فی أول الأمر إذا قال لہا أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ینو تأکیدا ولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ إرادتہم الاستئناف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو إرادۃ التأکید فلما کان فی زمن عمر رضی اللہ عنہ وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغۃ وغلب منہم إرادۃ الاستئناف بہا حملت عند الإطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق إلی الفہم منہا فی ذلک العصر وقیل المراد أن المعتاد فی الزمن الأول کان طلقۃ واحدۃ وصار الناس فی زمن عمر یوقعون الثلاث دفعۃ فنفذہ عمر فعلی ہذا یکون إخبارا عن اختلاف عادۃ الناس لا عن تغیر حکم فی مسألۃ واحدۃ قال المازری وقد زعم من لا خبرۃ لہ بالحقائق أن ذلک کان ثم نسخ قال وہذا غلط فاحش لأن عمر رضی اللہ عنہ لا ینسخ ولو نسخ وحاشاہ لبادرت الصحابۃ إلی إنکارہ وإن أراد ہذا القائل أنہ نسخ فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذلک غیر ممتنع ولکن یخرج عن ظاہر الحدیث۔
نیز حضرات غیر مقلدین معروف حنفی محقق عالم علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ تعالی یا بعد کے کسی عالم کے کسی فتویٰ کو بنیاد بنا کر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے تو گزارش یہ ہے کہ قرآن و سنت ، آثار صحابہ کرام و تابعین عظام اور اجماع ِ امت کے مقابلے میں کسی کی شخصی اور ذاتی رائے اور تفرد کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ اصولی بات یہی ہے۔ جہاں تک علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے محولہ بالا فتویٰ کی بات ہے تو یاد رہے کہ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے دو چیزوں کوبنیاد بناکر یہ فتوی دیا ہے، ایک ضرورت و حاجت ، اور اسے قیاس کیا ہے زوجہ ٔ مفقود پر، دوسرے اسے امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب قرار دیا ہے، جبکہ یہ دونوں باتیں مخدوش اور خلاف ِ حقیقت ہیں، کیونکہ مسئلہ زوجہ ٔ مفقود میں امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب اختیار بغیر کوئی سبیل ہی نہیں ، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے ، کیونکہ یہاں عورت اس خاوند کے علاوہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، خاص اسی شخص سے نکاح پر کوئی ضرورت موقوف نہیں ، اگر یہ خاوند مر جائے تو پھر کیا کرے گی؟ ثانیاً امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف اس قول کی نسبت غلط ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، آئمہ ِاربعہ اور جمہور سلف و خلف علیہم الرحمۃ و الرضوان کا ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی واقع ہونے پر اجماع ہے، خود علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ اس کی تصریح کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں :
’’جمہور صحابہ ، تابعین ، آئمہ اربعہ ، اکثر مجتہدین ، امام بخاری اور جمہور محدثین کے مذہب کے موافق تین طلاقیں واقع ہوں گی‘‘ (فتاوی عبدالحی، ۲/۵۹، خیر الفتاویٰ، ۵/۳۹۲)
شرح وقایہ کے حاشیہ عمدۃ الرعایۃ میں لکھتے ہیں:
إن الثلاث تقع بإیقاعہ، سواء کانت المرأۃ مدخولۃ أو غیر، مدخولۃ وہو قول جمہور الصحابۃ والتابعین والأیمۃ الأربعۃ وغیرہم من المجتہدین وأتباعہم، (عمدۃ الرعایۃ، کتاب الطلاق، ۴/۴۴۲)
لہذا علامہ لکھنوی کی طرف منسوب یہ فتوی یا تو جعلی ہے کماقال البعض، ورنہ یہ ہے کہ خلاف ِ اجماع ہونے کی وجہ سے غلط اور مردود ہے ، اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ کما صرح بہ شیخ مشایخنا المفتی السید عبدالکریم گمتھلوی قدس سرہ فی امداد الاحکام ۔(۲/۶۱۴)
◉ ذیل میں مذہب ِ آئمہ اربعہ رحمہم اللہ سے متعلق چند عبارات ملاحظہ فرمائیں ۔
و فی عمدۃ القاری(کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالی: الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان، ۲۰/۲۳۳)
و مذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعی والنخعی والثوری وأبو حنیفۃ وأصحابہ ومالک وأصحابہ ومالک وأصحابہ والشافعی وأصحابہ وأحمد وأصحابہ، وإسحاق وأبو ثور وأبو عبید وآخرون کثیرون، علی أن من طلق امرأتہ ثلاثا وقعن، ولکنہ یأثم، وقالوا: من خالف فیہ فہو شاذ مخالف لأہل السنۃ، وإنما تعلق بہ أہل البدع ومن لا یلتفت إلیہ لشذوذہ عن الجماعۃ التی لا یجوز علیہم التواطؤ علی تحریف الکتاب والسنۃ۔
ترجمہ : جمہور علماء یعنی تابعین اور ان کے بعد کے حضرات ، امام اوزاعی، امام نخعی ، سفیان ثوری ، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام مالک اور ان کے اصحاب، امام شافعی اور ان کے اصحاب ، امام احمد اور ان کے اصحاب ، امام اسحق ، ابو ثور ، ابو عبید اور دیگر بہت سے حضرات کا مذہب یہ ہے کہ جو جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو واقع ہوجاتی ہیں لیکن وہ گناہ گار ہوگا۔ جو شخص اس مسئلہ میں مخالفت کرے تو امت سے کٹا ہوا اور اہل السنۃ کا مخالف اور بدعتی ہے ، اور ان لوگوں میں سے ہے جن کی پرواہ نہیں کی جاتی کیونکہ وہ اس جماعت کی مخالفت کررہے ہیں کہ جن کا قرآن و سنت کے کسی حکم میں تبدیلی پر اکٹھا ممکن نہیں ہے ۔
و فی فتح القدیر (کتاب الطلاق، باب طلاق السنّۃ، ۳/۴۶۸، دار الفکر، بیروت)
(قولہ وطلاق البدعۃ)ما خالف قسمی السنۃ، وذلک بإن یطلقہا ثلاثا بکلمۃ واحدۃ أو مفرقۃ فی طہر واحد أو ثنتین کذلک أو واحدۃ فی الحیض أو فی طہر قد جامعہا فیہ أو جامعہا فی الحیض الذی یلیہ ہو، فإذا فعل ذلک وقع الطلاق وکان عاصیا، وفی کل من وقوعہ وعددہ وکونہ معصیۃ خلاف، فعن الإمامیۃ لا یقع بلفظ الثلاث ولا فی حالۃ الحیض؛ لأنہ بدعۃ محرمۃ، ………………وذہب جمہور الصحابۃ والتابعین ومن بعدہم من أئمۃ المسلمین إلی أنہ یقع ثلاثا. ومن الأدلۃ فی ذلک ما فی مصنف ابن أبی شیبۃ والدارقطنی فی حدیث ابن عمر المتقدم قلت: یا رسول اللہ أرأیت لو طلقہا ثلاثا؟ قال: إذا قد عصیت ربک وبانت منک امرأتک وفی سنن أبی داود عن مجاہد قال: کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال: إنہ طلق امرأتہ ثلاثا، قال: فسکت حتی ظننت أنہ رادہا إلیہ، ثم قال ینطلق أحدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس؟ فإن اللہ عز وجل قال (ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا) (الطلاق:2)عصیت ربک وبانت منک امرأتک. وفی موطأ مالک: بلغہ أن رجلا قال لعبد اللہ بن عباس: إنی طلقت امرأتی مائۃ تطلیقۃ فماذا تری علی؟ فقال ابن عباس: طلقت منک ثلاثا وسبع وتسعون اتخذت بہا آیات اللہ ہزوا. وفی الموطأ أیضا: بلغہ أن رجلا جاء إلی ابن مسعود فقال: إنی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات، فقال: ما قیل لک. فقال: قیل لی بانت منک۔
و فی مختصر القدوری(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ، ۶۱۶، البشری، کراتشی)
و إن کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ أو اثنتین فی الأمۃ ، لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً و یدخل بہا، ثم یطلقہا أو یموت عنہا۔
و فی الہدایۃ (کتاب الطلاق،باب طلاق السنۃ، ۲/۳۷۳، ۳۷۴، رحمانیہ، لاہور)
قال: ” الطلاق علی ثلاثۃ أوجہ حسن وأحسن وبدعی فالأحسن أن یطلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ واحدۃ فی طہر لم یجامعہا فیہ ویترکہا حتی تنقضی عدتہا ” لأن الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانوا یستحبون أن لا یزیدوا فی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدۃ فإن ہذا أفضل عندہم من أن یطلقہا الرجل ثلاثا عند کل طہر واحدۃ ولأنہ أبعد من الندامۃ وأقل ضررا بالمرأۃ ولا خلاف لأحد فی الکراہۃ.والحسن ہو طلاق السنۃ وہو أن یطلق المدخول بہا ثلاثا فی ثلاثۃ أطہار ” وقال مالک رحمہ اللہ إنہ بدعۃ ولا یباح إلا واحدۃ لأن الأصل فی الطلاق ہو الحظر والإباحۃ لحاجۃ الخلاص وقد اندفعت بالواحدۃ.ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ” إن من السنۃ أن تستقبل الطہر استقبالا فتطلقہا لکل قرء تطلیقۃ “………و طلاق البدعۃ أن یطلقہا ثلاثا بکلمۃ واحدۃ أو ثلاثا فی طہر واحد فإذا فعل ذلک وقع الطلاق و کان عاصیاً۔
و فی عمدۃ القاری (۲۰/۲۳۶، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
وقال أبو حنیفۃ وأصحابہ والشافعی: النکاح جائز ولہ أن یقیم علی نکاحہ أو لا، وہو قول عطاء والحکم، وقال القاسم وسالم وعروۃ والشعبی: لا بأس أن یتزوجہا لیحلہا إذا لم یعلم بذلک الزوجان، وہو مأجور بذلک. وہو قول ربیعۃ ویحیی بن سعید، وذہب الشافعی وأبو ثور إلی أن نکاح الذی یفسد ہو الذی یعقد علیہ فی نفس عقد النکاح أنہ إنما یتزوجہا لیحللہا ثم یطلقہا، ومن لم یشترط ذلک، فہو عقد صحیح، وروی بشر بن الولید عن أبی یوسف عن أبی حنیفۃ مثلہ، وروی أیضا عن محمد عن یعقوب عن أبی حنیفۃ أنہ إذا نوی الثانی تحلیلہا للأول لم یحل لہ ذلک، وہو قول أبی یوسف ومحمد، وروی الحسن بن زیاد عن زفر عن أبی حنیفۃ أنہ إن شرط علیہ فی نفس العقد أنہ إنما یتزوجہا لیحلہا للأول فإنہ نکاح صحیح ویحصنان بہ ویبطل الشرط، ولہ أن یمسکہا ، فإن طلقہا حلت للأول.……فإن قلت: روی الترمذی والنسائی من غیر وجہ عن سفیان الثوری عن أبی قیس واسمہ عبد الرحمن بن ثروان الأودی عن ہذیل بن شرحبیل عن عبد اللہ بن مسعود، قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ، وقال الترمذی: حدیث حسن صحیح، ورواہ أحمد فی (مسندہ) : ورواہ أبو داود والترمذی وابن ماجہ عن الحارث عن علی رضی اللہ تعالی عنہ: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ، وروی الترمذی عن مجالد عن الشعبی عن جابر بن عبد اللہ بنحوہ سواء ، وروی ابن ماجہ من حدیث اللیث بن سعد قال: قال لی أبو مصعب مشرح بن ہاعان قال عقبۃ بن عامر: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا أخبرکم بالتیس المستعار؟ قالوا بلی یا رسول اللہ. قال: ہو المحلل، لعن اللّٰہ المحلّل والمحلّل لہ، وروی ابن ماجہ من حدیث ابن عباس بنحوہ سواء ، وروی أحمد والبزار وأبو یعلی وإسحاق بن راہویہ فی (مسانیدہم) من حدیث المقبری عن ابن عباس بنحوہ سواء ، وروی ابن أبی شیبۃ من روایۃ قبیصۃ بن جابر عن عمر، رضی اللہ تعالی عنہ، قال: لا أوتی بمحلل ومحلل لہ إلا رجمتہا، وروی عبد الرزاق عن الثوری عن عبد اللہ بن شریک العامری سمعت ابن عمر یسأل عمر: طلق امرأتہ ثم ندم، فأراد رجل أن یتزوجہا لیحللہا لہ، فقال ابن عمر: کلاہما زان ولو مکثا عشرین سنۃ، فہذہ الأحادیث والآثار کلّہا تدلّ علی کراہیۃ النکاح المشروط بہ التحلیل، وظاہرہ یقتضی التحریم. قلت: لفظ المحلل یدل علی صحۃ النکاح، لأن المحلل ہو المثبت للحل، فلو کان فاسدا لما سمّاہ محللا، ولا یدخل أحد منہم تحت اللعنۃ إلا ء ذا قصد الاستحلال۔
و فی ھذا کفایۃ لمن لہ درایۃ و اللّٰہ ولی الہدایۃ ۔فقط۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب و علمہ أتم و أحکم
عبدالصمد ساجد عفا عنہ الأحد الماجد
معین دار الافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا
14؍محرم الحرام 1441ھ
14؍ستمبر؍2019ء يوم السبت
باسمه سبحانه و تعالیٰ
احقر نے یہ تفصیلی جواب بغور دیکھا، بحمد اللہ تعالیٰ یہ بالکل صحیح اور قرآن و سنت اور جمہور اہل السنۃ و الجماعۃ اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آئمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے مذہب کے عین مطابق ہے، فاضل مجیب سلمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کے وقوع پر دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی طلاق کے عدم ِ وقوع کے قائلین کا بھی مدلل رد کیا ہے، اس لیے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع میں شک نہیں کرنا چاہیے، ہذا ھو الحقّ و الحقّ أحقّ أن یتّبع ۔
منسلکہ تحریر میں اہل ِ حدیث کہلانے والے عالم نے آیت ِ قرآنی ’’الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ‘‘ الآیۃ۔ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں واقع نہیں ہوتیں کیونکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں : طلاق دوبار ہے ‘‘۔ ’’ مَرَّتَانِ ‘‘ کا معنی ہوا ایک کے بعد دوسری مرتبہ(مختلف اوقات میں) ایک ہی نشست میں لفظ ِ طلاق کئی بار بولنے سے وہ کئی نہیں بلکہ ایک ’’ مَرّۃ ‘‘ ہی شمار ہوگا۔ حالانکہ اس آیت ِ کریمہ میں طلاق ِ رجعی کا ذکر فرمایا جارہا ہے ، تمام مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ طلاق ِ رجعی دو دفعہ ہے یعنی وہ طلاق جس میں بغیر نکاح کے عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے وہ دوبار ہے، طلاق ِ رجعی کے بعد عدت میں مرد چاہے تو عورت کو دستور کے مطابق ر کھ لے یا اچھے طریقہ سے چھوڑ دے ، اگر رجوع نہ کیا اور طلاق ِ رجعی کی عدت گزر گئی تو اب تراضی ٔ طرفین کے بعد نکاح سے رجوع ہوسکتا ہے،لیکن اگر اس نے تیسری طلاق بھی دے دی تھی تو اب بغیر تحلیل شرعی کے دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں کما قال تعالیٰ :فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ(البقرۃ:۲۳۰)
اس تفصیل سے خوب واضح ہے کہ اس آیت ِ کریمہ میں طلاق رجعی کا بیان ہے، حاشیہ شیخ الاسلام میں ہے :’’اسلام سے پہلے دستور تھا دس بیس جتنی بار چاہتے زوجہ کو طلاق دیـتے مگر عدت ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے پھر جب چاہتے طلاق دیتے اور رجعت کرلیتے اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری کہ طلاق جس میں رجعت ہوسکے ، کل دوبار ہے‘‘ ۔ (ص۴۵، حاشیہ ۵)
اس آیت ِ کریمہ کے اسلوب پر جب غور کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ طلاق دینے کا اصل شرعی طریقہ یہی ہے کہ اگر طلاق کی ضرورت پڑے تو زیادہ سے زیادہ دو رجعی طلاق دے دی جائے ، تین طلاق دینا مناسب نہیں ہے، طلاق کا احسن طریقہ فقہاء ِ کرام نے یہی بیان فرمایا ہے کہ صرف ایک طلاق ِ رجعی ایسے طہر میں دے ، جس میں ہم بستر ی نہ کی ہو اور عدت میں رجوع نہ کرے ، عدت ختم ہونے پر نکاح خود ہی ختم ہوجائے گا، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسی طلاق کو بہتر قرار دیا ہے ۔ کما ہو منقول عن ابراہیم النخعی فی مصنف ابن أبی شیبۃ ۔
قرآن ِ کریم کے الفاظ ’’ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ‘‘ سے اس کی اجازت بھی معلوم ہوتی ہے کہ دو تک طلاقیں تک بھی دی جاسکتی ہیں، مگر ’’ مَرَّتَانِ ‘‘ کے لفظ میں اس طر ف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دو طلاق بیک لفظ و بیک وقت نہ ہوں بلکہ دو طہروں میں الگ الگ ہوں اور یہ طلاق بھی سنت میں شامل ہے ، بدعت نہیں ۔ اب رہا تیسری طلاق کا معاملہ تو حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دوسرے فقہاء ِ کرام نے تیسر ی طلاق کو مطلقاً ناجائز اور بدعت کہا ہے لیکن دوسرے آئمہ ِ کرام رحمہم اللہ تعالی نے تین طہروں میں تین طلاق کو سنت میں داخل کہہ کر بدعت سے نکال دیا ہے لیکن اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ (ماخوذ از معارف القرآن ، ۱/۵۶۰)
آیت ِ کریمہ ’’ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ‘‘ کا صحیح مطلب اور اس کی صحیح تفسیر جو ہم نے ذکر کی ہے اس سے واضح ہے کہ اس آیت میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتلایا جارہاہے ، جس کی تفصیل فقہاء ِ کرام نے بیان فرمادی ہے، کہ اگر طلاق دینے کی ضرورت پیش آئے تو ایک طلاق رجعی دینی چاہیے اور دو تک بھی دی جاسکتی ہیں کیونکہ ان کے بعد عدت میں رجوع ہوسکتا ہے، تیسری طلاق نہیں دینی چاہیے لیکن اگر دے دی تو پھر بغیر تحلیل شرعی کے رجوع کا حق نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس آیت میں مرد کو ضرورت کے وقت طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتلایا گیا ہے جس کی تفصیل ہم بیان کرچکے ہیں، لیکن اس میں یہ کہاں ہے کہ اگر کوئی شخص اس طریقہ پر عمل نہ کرے اور اس کے خلاف بدعت طریقہ سے ایک مجلس میں دفعۃً تین طلاق دے دے تو اس کا نفاذ نہیں ہوگا ؟ ۔ اگر خلاف ِ سنت طریقہ سے دی گئی طلاق کے عدم ِ نفاذ کے بارہ میں یہ آیت نص ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی طلاق کو کیسے نافذ فرماتے اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین و آئمہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ اس کے نفاذ پر کیسے متفق ہو تے؟ کیا ان سب کو نص ِ قرآنی کا مخالف کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں ! معلوم ہوا اس آیت سے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کے عدم ِ نفاذ و عدم ِ وقوع پر استدلال صحیح نہیں اور ’’ مَرَّتَانِ ‘‘ کو سورۃ النور کی آیت ’’ ثلاث مرات ‘‘ پر قیاس کرکے یہ حکم لگانا بھی ان عبارات اور احادیث کے خلاف ہے جن میں ایسی طلاق کے نفاذ کا حکم موجود ہے ۔فافهم و انصف و لا تکن من القاصرین۔
رہا پیر کرم شاہ بھیروی مرحوم کا حوالہ ، اولاً تو بڑی حیرت کی بات ہے کہ پیر صاحب تو اپنی ناقص رائے کا اظہار فرما رہے ہیں اور مجیب نے بلادلیل بلکہ خلاف ِ دلیل اس رائے کو ان کا فیصلہ قرار دے دیا ۔ ثانیاً : وہ حنفی اور مقلد ہونے کے مدعی ہیں ، ان کی یہ رائے مقلدین کے اجماع کے خلاف ہونے کے باوجود ان پر کیسے حجت ہو جائے گی ، کسی بھی مذہب کے مفتیٰ بہ او رمعتبر و مستند قول کے مقابلہ میں جب اس مذہب کے بڑے سے بڑے محقق عالم کا قول بھی لائق ِ قبول نہیں ہوتا تو ایک مقلد عالم کی رائے کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ ۔ ثالثاً : پیر صاحب کے اس قول اور ان کی رائے کو احناف میں سے کسی قابل ِ ذکر عالم نے قبول نہیں کیا حتی کہ خود ان کے پیر جناب خواجہ قمر الدین سیالوی مرحوم نے بھی ان کی تردید میں مستقل رسالہ لکھ کر اس رائے کا رد کیا ہے، اس رد شدہ قول کو فیصلہ کے عنوان سے پیش کرنا انتہائی تعجب خیز ہے۔ فقط۔
احقر عبدالقدوس ترمذی غفرلہ
(رئیس) دار الافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال، سرگودھاش