پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ ڈرامہ سیریل مائی ری کا بہت شور سنا،
رائٹر ڈائریکٹر اور کاسٹ سب ہی ڈرامے کو پروموٹ کرتے ہوئے نظر آئے،
کم عمری کی شادی کا موضوع اس ڈرامے میں اٹھایا گیا کہ کم عمری کی شادی کے کیا نقصانات ہیں،
ڈرامہ تو ڈرامہ ہی ہوتا ہے اور کافی حد تک حقیقت سے دور ہی ہوتا ہے لیکن اس ڈرامے میں نہ جانے کیا سوچ کر یا پھر سوچ سمجھ کر طلاق جیسے حساس معاملے کو بہت ہی میٹھا شکر بنا کر پیش کیا گیا اور دھڑا دھڑ تین خواتین کو طلاق دی گئی اور پوری طاقت لگائی گئی کہ عورت کو شوہر سے ذرا سی کھٹ پٹ پہ طلاق لے لینی چاہئے اور طلاق کو کسی تمغے سے کم نہیں دکھایا گیا،
بے شک کم عمری کی شادی بے جوڑ شادی ہوتی ہے اور اگر خاندان کے افراد میں برداشت اور صلہ رحمی والا معاملہ نہ ہو تو شادی چلتی نہیں اور طلاق ہو جاتی ہے،
لیکن اس ڈرامے کی کہانی میں دو کم عمر لڑکا لڑکی کی شادی ہوتی ہے ایک سال کے اندر ان کے ہاں بچی کی ولادت ہوتی ہے،
لڑکی کا میکہ اور سسرال ایک ہی جگہ رہتے ہیں،
لڑکی بچی کو سنبھالتی ہے،پورے گھر کو سنبھالتی ہے،
گھر والوں کی خدمت کرتی ہے اور پھر تعلیم بھی جاری رکھتی ہے،
لڑکا باپ کے مرنے کے بعد ماں کے ساتھ اپنا خاندانی بزنس سنبھالتا ہے،
لڑکا کم عمر ہے لیکن اس کی ایک عدد گرل فرینڈ بھی ہے،
مختصر یہ کہ لڑکا باہر کی یونیورسٹی میں پڑھنے جانے کا ارادہ کرتا ہے اور دونوں میاں بیوی جو کہ ایک بچی کے والدین بھی ہیں بیٹھ کر علیحدگی کا فیصلہ کر کے اپنی ماؤں کو نہ صرف بتاتے ہیں بلکہ انھیں اپنے فیصلے پہ متفق بھی کر لیتے ہیں،
جب سوشل میڈیا پہ یہ بات بہت زیادہ اٹھائی گئی تو میں نے اس ڈرامے کے کئی حصے دیکھے انتہائی بے مقصد اور گمراہ کن ڈرامہ تھا جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،
طلاق کو چاکلیٹ کے فلیور کے طور پہ ہلکا پھلکا کر کے دکھایا گیا ہے کہ ۔۔۔،
والدین اگر کوئی فیصلہ تمھاری مرضی کے خلاف کر دیں تو چاہے کچھ بھی ہو طلاق لے لینا یا دے دینا کوئی مسئلہ نہیں،
اور آخر میں لڑکی انجینئرنگ کی ڈگری لینے جاتی ہے اور وہاں بھی وہ مرضی کی شادی اور عورت کی آزادی وغیرہ پہ بھاشن دیتی ہے،
اس سارے ڈرامے میں رائٹر اور ڈائریکٹر کو یہ خیال نہیں آیا کہ جب طلاق ہی کروانی ہے تو بچی کا ہونا غیر ضروری ہے،
اس بچی کے والدین جب شادیاں کر کے اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو جائیں گے تو تب یہ بچی کیا کرے گی؟؟
اسی چینل پہ ڈراموں میں چیختی چنگھاڑتی چڑیل قسم کی لڑکیاں دکھائی جاتی ہیں اور منطق یہ ہوتی ہے کہ ان کے والدین میں طلاق ہو گئی تھی جس کا اثر بچی پہ پڑا اور وہ نفسیاتی مریضہ بن گئ،
بہر حال جس طرح کے ڈرامے ہماری ڈرامہ انڈسٹری بنا رہی ہے خدارا پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کو نوٹس لینا چاہئے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق میڈیا پالیسی بنانی چاہیے،
ہماری اسلامی و معاشرتی روایات کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں،
عشق و محبت،ناجائز تعلقات تو اب ایک عام سی بات ہے،
اور اب یہ طلاق جیسے لفظ سے لوگوں کو مانوس کر رہے ہیں تاکہ طلاق بھی عام سی بات ہو جائے،
ذرا ذرا سی بات پہ طلاق دو طلاق لو اور جیو اپنی اپنی زندگی،
ڈرامے کے آخر میں خاندان کی خواتین بیٹھی ہیں خوش ہیں ہنس کھیل رہی ہیں،
کوئی مرد نہیں ہے،
بہت خوب صورتی سے بتایا گیا کہ۔۔۔۔۔!!
مرد کم جہاں پاک
اللہ تعالیٰ ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت فرمائے،
آمین ثم آمین