انٹرویو حکیم شاکر فاروقی 176

بلعم بن باعورا / بدکاری کا انجام/ قصص القرآن 7/ حکیم شاکر فاروقی

فرعون کے غرق ہو جانے اور بنی اسرائیل کے مصر سے صحیح سالم نکل آنے کے بعد انہیں ایک وطن کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ آپ علیہ السلام نے ستر ہزار کا لشکر جرار تیار کر لیا، قوم عمالقہ پر چڑھائی کا حکم ہوا تو آپ نے میدان’’ موآب‘‘ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی اور نہر یرون کے قریب پڑاؤ کیا۔
یہ میدان شاہ بلق بن صفور کی راج دہانی کا حصہ تھا، لازماً اسے اس کا سامنا کرنا تھا اس لیے اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ قوم فرعون کا قصہ اس تک پہنچ چکا تھا، دوسرا موسی علیہ السلام کے بہترین لشکر کا مقابلہ کرنے کی جرات اس میں نہیں تھی۔ اس نے لڑائی کی بجائے ایسا طریقہ سوچنا شروع کیا کہ موسی علیہ السلام خود ہی واپس لوٹ جائیں یا ان کا لشکر شکست کھا جائے۔
طویل مشاورت کے بعد اس نے اپنے علاقے کے ایک عابد بلعم بن باعورا کی خدمات لینے کا سوچا۔ یعنی بجائے جنگ کرنے کے روحانی طور پر کوئی ایسا کھیل کھیلا جائے کہ موسی علیہ السلام کا لشکر واپس چلا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ بلعم بن باعورا بہت عبادت گزار اور اسم اعظم سے بھی واقف تھا۔ جس کے لیے دعا یا بددعا کرتا فوراً قبول ہو جاتیں۔ لہذا بادشاہ نے اسے کہا کہ تم اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بددعا کر دو تو ہم تمہیں مالا مال کر دیں گے۔ لیکن اس نے انکار کر دیا؛ کہا وہ اللہ کے رسول ہیں اور جو شخص رسول اللہ کے خلاف بددعا کرے وہ عنداللہ مردود ہو جاتا ہے۔ لیکن بادشاہ نے ترغیب و ترہیب ہر طرح سے مجبور کرنا شروع کر دیا۔
ایک دن اس نے بلعم بن باعورا کے پاس کافی سارا ہدیہ بھیجا جو اس نے قبول کر لیا، پھر وقفے وقفے سے اپنے وزراء سے رشوت دلائی جو اس نے قبول کر لی۔ کچھ دن بعد دوبارہ بددعا کی درخواست کی جس کا وہ صریح انکار نہ کر سکا اور استخارہ کر کے بتانے کا کہا۔ سچ کہتے ہیں ’’رشوت‘‘ عابدین کے منہ پر سیمنٹ کا کام کرتی ہے، جو سوچ سمجھ کے راستوں پر ناکے لگا کر باطل کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔بلعم بن باعورا نے رات کو استخارہ کیا تو صاف انکار ہو گیا کہ پیغمبر کے خلاف بددعا کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے لیکن قوم نے اسے بار بار تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اگلی رات اس نے پھر استخارہ کیا لیکن اب کی بار کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے اپنی بیگم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا، استخارہ میں خاموشی کا مطلب ہے کہ تمہیں اجازت مل گئی ہے قوم کے مفاد میں تمہیں کسی مزید استخارے یا عبادت کی ضرورت نہیں، نیز جتنی دولت ہمارے پاس آ چکی ہے اتنی ہم کبھی بھی نہیں کما سکتے۔ چنانچہ اگلے دن اس نے حبان نامی پہاڑ پر جا کر بددعا کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپنے گدھے پر سوار ہو کر جب پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تو وہ بیٹھ گیا۔ اس نے زبردستی ہنکانا چاہا تو گدھے نے انسانی زبان میں اسے اس منحوس کام سے روکا لیکن اس نے پھر بھی بددعا شروع کر دی۔ قوم حیرت سے تک رہی تھی کہ بلعم بن باعورا جہاں قوم عمالقہ کا نام لینا چاہتا وہاں اس کے منہ سے بنی اسرائیل نکلتا اور جب بنی اسرائیل کا نام لینا چاہتا تو قوم عمالقہ کا نام نکلتا۔ گویا بنی اسرائیل کے حق میں دعا اور عمالقہ کے خلاف بددعا ہوتی گئی۔
قوم نے شکوہ کیا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ ہمارے ہی خلاف بددعا کر دی؟
بلعم بن باعوراکہنے لگا ’’یہ میرے بس میں نہیں تھا، میں جو کچھ کہنا چاہتا، اس کے برعکس منہ سے نکلتا تھا۔‘‘
قوم نے بلعم کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو اس نے اشارے سے سب کو چپ کروایا اور کہا:
’’جہاں میری بددعا کام نہیں کر سکی، وہاں تمہاری مکاری و عیاری کام آ سکتی ہے۔‘‘
قوم نے کہا ’’ہمیں جلدی سے بتاؤ وہ کیا ہے؟ ‘‘
کہنے لگا: ’’ اپنی قوم کی خوب صورت لڑکیوں کو بنی اسرائیل میں تجارت کی غرض سے بھیجو اور ان سے کہو، وہ لوگ جو کچھ تمہارے ساتھ کرنا چاہیں انہیں روکنا نہیں۔ اگر ان کے ایک شخص نے بھی کسی کے ساتھ حرام کاری کر لی تو سارا لشکر شکست کھا جائے گا۔‘‘
قوم نے خوب صورت ترین لڑکیوں کا انتخاب کیا اور انہیں بنی اسرائیل میں بھیج دیا۔ یہ شیطانی رسیاں جب لشکر موسوی میں داخل ہوئیں تو اول کسی نے انہیں منہ نہ لگایا۔ پھر لشکر کے ایک کمان دار زمری بن یلوم کا دل ایک کنعانی خاتون کشتی بنت صور پر آ گیا۔ اسے لے کر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا :
’’اے موسی! تم کہو گے کہ یہ عورت تمہارے لیے حرام ہے لیکن میں اسے اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس کا بازو پکڑا اور اپنے خیمے میں لے گیا۔
ابھی اس نے حرام کاری شروع کی ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب بھیج دیا۔ ایک دوسرے کمان دار فیحاص بن عیزار کو زمری کے کرتوت کا علم ہوا تو فوراً اس کے خیمے میں پہنچا اور دونوں کو ایک ہی نیزے میں پرو دیا اور دونوں کی نعشیں باہر لا کر لٹکا دیں۔ یوں اللہ تعالیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور طاعون ختم ہو گیا۔ البتہ اتنا ہوا کہ لشکر بغیر لڑائی کیے واپس چلا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے بلعم بن باعورا کو یہ سزا دی کہ اس کی زبان کتے کی طرح لٹک گئی۔ مفسرین کے مطابق کتا لالچی اور حکمت و بصیرت سے عاری ہوتا ہے، اور بلعم نے بھی لالچ کے جال میں پھنس کر ساری حکمتیں پس پشت ڈال دیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کتے سے ملتی جلتی سزا دی۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ اس نے آخر میں شیطان کو سجدہ بھی کر لیا تھا۔تبھی تو علماء کرام کہتے ہیں، اپنے علم اور عبادات پر غرور نہیں کرنا چاہیے، کیا معلوم کب سب کچھ مردود ٹھہرے؟ حدیث مبارکہ میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے جو ہر عالم کو مانگنی چاہیے:
اَللّٰهُمَّ إنِّي اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ ، وَ مِن نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ ، وَ عَمَلٍ لَا يُرْفَعُ، وَ دُعَآءٍ َلا يُسْمَعُ
’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے عمل سے جو بلندی نہ دے اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو سکے۔‘‘(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ) آمین۔
٭…٭…٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں