155

بیٹیوں کو بہادر بنائیں/تحریر/ذوالفقار علی بخاری/معروف کہانی نویس و تبصرہ نگار

تحریر/ذوالفقار علی بخاری/معروف کہانی نویس و تبصرہ نگار

“میری دوست بنو گی؟”
پانچ سالہ حمیرانے اپنے ساتھ بیٹھی آٹھ سالہ مہوش سے کہا۔
”ہاں۔۔کیوں نہیں۔۔پیاری لڑکی۔“
مہوش نے مسکراتے ہوئے پانچ سالہ حمیراکی سیدھے ہاتھ کی دوانگلیوں سے اپنی سیدھے ہاتھ کی دوانگلیاں ٹکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کی امی آپ کو آلو والے پراٹھے کھلاتی ہیں؟“
حمیرا نے معصومیت سے مہوش سے پوچھا۔
”نہیں۔ میں پراٹھے نہیں کھاتی۔“
مہوش نے جواب دیا۔
”آپ کا کوئی بھائی ہے؟“
حمیرا ایک کے بعد ایک سوال کر رہی تھی۔
”نہیں میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔“
مہوش نے جواب دیا۔

میں ایک نجی ہسپتال میں اپنی والدہ کے چیک اپ کے لئے آیا تھا۔
میں نے جب حمیراکو دیکھا تو اُس کے چہرے کو دیکھتے ہی یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ یہ بہت بااعتماد بچی ہے جو بڑی معصومیت جہاں رکھتی ہے وہیں ذہانت سے بھی خوب مالا مال ہے۔فاطمہ کا والد اُس وقت موبائل فون پر مصروف تھا لیکن وہ حمیراپر بھی خوب نظر رکھے ہوئے تھا۔

فاطمہ اچانک اپنی جگہ سے اُٹھی اورایک مچھر کو مارنے دوڑی تو اُس کے والد نے روکا تو اُس نے کیا خوب بات کہی تھی مجھے تب اُس پر بہت پیار آیا تھا۔
اُس نے کہا تھا”بابا۔۔۔یہ آپ کی طرف آئے گااورآپ کو کاٹ لے گا۔“

مجھے یقین مانیں تب جتنی خوشی ہوئی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی ہے کہ ایک بیٹی اپنے باپ کوایک مچھر سے بچانا چاہتی ہے، یہی بیٹی جب بڑی ہوتی ہے تو اپنے والدین کے لئے وہ سب کرتی ہے جو وہ چاہتے ہیں لیکن جب یہی بیٹی اپنی مرضی کے مطابق حق مانگنا چاہتی ہے تو پھر کیا کچھ ستم اُس پر نہیں ڈھائے جاتے ہیں۔دوسری طرف یہی بیٹی جب بہادر اوربااعتماد بنائی جاتی ہے تو وہ ایک مچھر تک والدین تک نہیں پہنچنے دیتی ہے۔یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں ہے یہ آپ کے علم میں ہے کہ ہم کتنے بے حس ہیں کہ اپنے مفادات کے لئے بسااوقات بیٹیوں کی خوشیوں کو نگل جاتے ہیں اورکہیں کہیں یہی بیٹیاں اپنے والدین کی آزادی کو حد سے باہر جا کر جب پامال کرتی ہیں تو والدین کی آنکھیں اورسرجھک جاتے ہیں۔

ننھی حمیرا کے اعتماد نے مجھے یہ بات سمجھا دی ہے کہ بیٹیو ں کو بہادری سے جینا سکھانا آج وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ہمیں ان پر نہ صرف اعتماد کرنا ہوگا بلکہ ان کو بہادر بھی بنانا ہوگا کہ وہ تعلیمی اداروں، سسرال اوراگرکہیں ملازمت کریں تواپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں اوربہتر زندگی گذاریں۔

ایک زمانہ تھا جب بچوں کو سلانے کے لئے ڈرایا جاتا تھا کہ فلاں بھوت آجائے گا آپ سو جائیں لیکن یہی ڈر بعدازاں کئی مسائل بھی کھڑے کرتا رہا۔اگرچہ تب احساس نہیں ہوتا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب آپ بچوں خاص کر بچیوں کو ڈرائیں گے تو پھر وہ کمزور ہو جائیں گی اورپھر جب دل کمزور ہوگا تو پھر وہ ایک ننھی آہٹ سے بھی ڈر جائیں گی اورڈرے ہوئے لوگوں کو ہاتھ میں کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔اس لئے خاص کر بیٹیوں کو بہادر بنائیں تاکہ وہ کسی بھی مشکل وقت میں تنہا بھی لڑسکیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا گھر سے باہر لڑکے لڑکر بھی آجائیں تو والدین کچھ نہیں کہتے ہیں، لیکن لڑکیاں لڑیں،بھڑیں تو ان کو ایک کی دس سنائی جاتی ہیں اورپھر وہ سننے سنانے کی بجائے اپنا آپ مار دیتی ہیں۔ وہ بھی انسان ہیں ان کو بھی جینے کا حق دیجئے تاکہ وہ بھی ایک عام انسان جیسی زندگی بسر کر سکیں۔

آج پاکستان میں کئی لڑکیاں مختلف مسائل کا شکار ہو رہی ہیں کہ ان کو ہمیشہ کمزور انسان بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آج مشکلات کا شکار ہیں۔جب ان کو بہادر بنا دیا گیا تو یقین کیجئے گا کوئی مائی کا لعل ان کی طرف میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکے گا کہ آدمی ہمیشہ کمزور پر حملہ زیادہ کرتا ہے۔

ایک بہادر ماں ایک بہادر فرد کو جنم دے سکتی ہے اوراگرآپ ایک بہادر قوم چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بہادر مائیں درکار ہونگی۔اس کے لئے شعور بیدار کرنا ہوگا اورلڑکیوں کی تربیت ایسی کرنی ہوگی کہ وہ بہادری سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر مسائل بھی حل کریں، کامیابی حاصل کریں اورزندگی کو خوش اسلوبی سے گذار بھی سکیں۔
۔ختم شد۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں