بچوں کی تربیت ہمیشہ سے ہی والدین کے لئے ایک بہت بڑا امتحان رہا ہے ۔ آج کے مادہ پرستی کے دور میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں ہم نے اپنے آپ کو اتنا الجھا لیا ہے کہ ہم اپنی اس بنیادی زمہ داری سے بھی غافل ہیں ۔ بچوں کی جائز وناجائز خواہشات پوری کرنے کے لیے آہستہ آہستہ حلال اور حرام کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے اور امید یہ ہے کہ ہمارے بچے معاشرے کے اچھے مہذب شہری بن جائیں ۔ یہاں ایک چھوٹا سا سوال ان والدین سے کہ جب آپ موٹر سائیکل یا گاڑی پر چھوٹے سے بچے کو بٹھا کر اشارے پر ایک منٹ کے لئے نہیں رک سکتے ، کسی کی ایک گالی یا معمولی بدتمیزی کا جواب دس گنا بڑھا کر دیں گے ۔ تو آپ کا بچہ قاسم علی شاہ ، پروفیسر جاوید اقبال کیسے بنے گا ۔عام طور پر والدین اپنی گردن چھڑوانے کے لیے الزام بچے کے دوستوں پر ڈال دیتے ہیں یہ ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے اس کو خراب کیا ہے یہ تو پانچویں جماعت تک 90 فیصد نمبر لیتا تھا ۔ کسی سیانے نے صحیح کہا خالہ جی یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے نوے فیصد کہا ورنہ آپ 110 فیصد بھی کہ دیتی تو یہاں کون سا کوئی رزلٹ کارڈ دیکھ رہا ہے اسی طرح سگریٹ نوشی، چھالیا ،گٹکا، سنوکر تمام منفی سرگرمیاں اس کے دوستوں کی مہربانی ہے میرا بیٹا تو اللہ تعالی کی گائے ہے، بہت ہی فرمابردار ہے جو جدھر لگاتا ہے اس طرف لگ پڑتا ہے چلو فرض محال ان سب باتوں کو مان بھی لیا جائے تو والدین اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے اس لیے کہان کی ترتیب کا صلہ آپ کو ہی ملنا ہے ۔ ان مسائل کا بہت ہی عملی حل ہمارے دوست اور بڑے بھائی ممتاز ماہر تعلیم جناب فیصل جنجوعہ صاحب جو کہ ایفا سکول لالہ موسیٰ کے پرنسپل ہے نے دیا جو اس تحریر کی بنیادی وجہ بھی بنا کہ اگر دوست ہی انسان کو منزل دیتے ہیں اور بچہ دوستوں کی عادات کو اپناتا ہے تو آپ خود اپنے بچے کے دوست کیوں نہیں بن جاتے یہ ہے بھی بالکل فطرت کے قریب سب سے پہلے پچہ اپنے والدین کے ہی قریب ہوتا ہے ان کی بے پرواہی دوسروں کی طرف لے جاتی ہے۔ معاشرے میں عام دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ بچے زیادہ بگڑے ہوے ہوتے ہیں جن کہ والدین میں ناچاکی ہو یا دونوں ہی نوکری کرتے ہوں یا والد بیرون ملک ہوں یا چھوٹی عمر میں بچے کو ہاسٹل میں داخل کروادیا ہو ۔ بچے کی تربیت میں پہلے آٹھ سال بہت اہم ہوتے ہیں جو آپ اس کو بنانا چاہتے ہیں وہ بنا سکتے ہیں چاہے ڈاکٹر بنا لے یا ڈاکو یہ آپ لوگوں پر منحصر ہے۔ والدہ کا کردار زیادہ اہم ہے تحقیق سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ انسان کے اصول اکثر اس نے اپنے والدین سے ہی وراثت میں حاصل کیے ہوتے ہیں ۔ والدین سے بچوں کی دوستی کے لیے سب سے اہم ان کا اپنے بچوں کو وقت دینا ہے ان کی باتوں ،رائے اور خیالات کو سمجھنا ہوگا ۔ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور طریقے سے منانا ہو گا۔ بچوں کی دنیاوی اور دینی تعلیم میں دلچسپی لینی ہوگی ۔ بچوں کو تخلیقی کام پر لگانا ہوگا۔ ان کے ساتھ کھیلنا انہیں جیتنا ہارنا پھر جیت یا ہار کے بعد محتاط ردعمل دینا سکھانا ہوگا۔ اکثر معاشرے کے درمیانے طبقے کے والدین کو ہفتے میں ایک چھٹی ہوتی ہے اور وہ اسے اپنے دوستوں میں گزارنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی طرف کی بےپروائی آپ کا بچہ بھی باہر دوست تلاش کرے گا اور جیسے کہ آپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں تو اس کو اس کے دوست خراب کرتے ہیں تو پھر یہاں آپ کو سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا آپ کو اپنے بچے سے دوستی کرنی ہوگی الغرض آپ اپنے بچے کو کل جو بنانا چاہتے ہیں کہ وہ نمازی ہو، سچ بولے ،دھوکا نہ دے ،ایماندار ہو وہ آپ خود آج بن جائے یقین مانیے آپ خود بھی اور آپ کی اولاد بھی اس معاشرے کا چلتا پھرتا صدقہ جاریہ ہوگا ایک قول تمام والدین کے لیے اپنے بچے کے لئے اچھا مستقبل چھوڑ کے جانے سے بہتر ہے کہ آپ اس معاشرے کے لئے ایک اچھا انسان چھوڑ کر جائیں۔ ذرا نہیں مکمل غور و فکر کیجئے ۔