121

ترکیہ اور شام میں قیامت ”وحشت ناک زلزلہ“تحریر/سر ندیم نظر(ایڈیٹرمشرق سنڈے میگزین)

ندیم نظر(ایڈیٹرمشرق سنڈے میگزین

ملبے تلے دبے افراد کی چیخ و پکار‘ہزاروں گھراور عمارتیں ملبے کا ڈھیر‘ایک لاکھ ہلاکتوں کا خدشہ
جنوبی ترکیہ اورشام میں ایسی عمارتوں کی تعداد کم ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں
ان علاقوںمیں گزشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں
ہم جھولے کی طرح جھول گئے ، میرے دو بیٹے تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں:متاثرہ خاتون

پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ کے شہر کے قریب کا علاقہ تھا اور پہلے شدید جھٹکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں ایک اور زلزلہ آیا اور آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری رہا۔یہ ایک شدید زلزلہ تھا۔ اس کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی اور سرکاری حکام کے مطابق یہ ایک بڑا زلزلہ تھا۔زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی، اسی لیے متاثرہ علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔یونیورسٹی کالج لندن کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے ”رِسک این ڈیزاسٹر ریڈکشن“ سے منسلک پروفیسر جوئنا فار واکر کے مطابق پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گذشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت پیر کے زلزلے کے برابر تھی اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے۔تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی۔یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔
ترکیہ اور شام میں آنے والے بدترین زلزلے کے حوالے سے تاحال حتمی طور پر واضح نہیں ہے کہ کتنا نقصان ہوا ہے اور دوسرے زلزلے کے بعد نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔امدادی کارکن ملبے تلے دبے افراد اور لاشیں نکالنے کے لیے کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ترکیہ کے جنوبی علاقے دیار باقر میں زخمی ہونے والے خاتون نے ایمبولینس میں منتقلی کے دوران بتایا کہ ہم جھولے کی طرح جھول گئے تھے اور اس وقت گھر میں ہم 9 افراد موجود تھے، میرے دو بیٹے تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور مجھے ان کا انتظار ہے۔رپورٹ کے مطابق خاتون کا خاندان دیار باقر میں واقع 7 منزلہ عمارت میں رہائش پذیر تھا، عمارت بری طرح متاثر ہوچکی ہے اور خاتون کا بازو ٹوٹ گیا اور چہرے پر بھی زخم آئے ہیں۔
ترکیہ میں 1999ءمیں استنبول کے قریب مشرقی مرمرا کے ساحلی خطے میں آنے والے زلزلے میں 17 ہزار سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں اور اس کے بعد یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ترک صدر طیب اردوان نے زلزلے کو تاریخ کا بدترین بحران اور 1939ءکے بعد بدترین زلزلہ قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکام جتنا کرسکتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر کوئی امدادی کاموں میں مکمل طور پر مصروف ہے جبکہ سردی کا موسم ہے اور زلزلہ رات کے وقت آیا جس کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی نے دکھایا کہ جنوبی صوبے ادانا میں ایک عمارت سیکنڈز میں زمین بوس ہو رہی ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہاں سے شہریوں کو نکالا جاسکا یا نہیں۔
ترک ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر میں ریسکیو اہلکاروں کو کہرامنماراس اور ہمسایہ شہر غازیانتپ میں عمارتوں کے ملبے کو کھودتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ تمام شہری جو زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ امید کرتے ہیں کہ ہم جلد از جلد اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مل کر اس آفت سے نکل آئیں گے۔این ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ زلزلے سے مزید دو شہروں ادیامان اور ملاتیا میں بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔سی این این ترکیہ ٹیلی ویژن نے بتایا کہ زلزلے کے جھٹکے وسطی ترکیہ اور دارالحکومت انقرہ کے چند حصوں میں بھی محسوس کیے گئے۔یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں آتش فشاو¿ں پر تحقیق کی ماہر، ڈاکٹر کارمن سولانا کہتی ہیں کہ’ ’بدقسمتی سے جنوبی ترکیہ اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔اسی لیے زلزلے سے تباہی سے بچنے کا انحصار امدادی کارروائیوں پر ہے۔ آئندہ 24 گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہیں کہ ان میں کتنے لوگوں کو زندہ نکال لیا جاتا ہے۔ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے“ترکی اور شام کی سرحد کے قریب کے اس علاقے میں گذشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ یہاں اتنا شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچاو¿ کا نظام بھی قدرے کم دکھائی دیتا ہے۔
ایک بار پھر حضرت انسان کو اپنی بے چارگی کے احساس سے دوچار ہونا پڑا۔ ترکیہ میں آن کی آن میں نقشہ ہی بدل گیا۔تادم تحریر ہزاروں افراد کے ہلاک ہونے اور کئی ہزار افراد کے زخمی ہونے کی خبریں میڈیاکے ذریعے ساری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر ہمارے مادہ پرستانہ طرز زندگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔علم طبیعات اور ہیئت کے مطابق زمین بنیادی طور سے تین حصوں میں منقسم ہے۔ سب سے نچلا حصہ درجہ حرارت کے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے پگھلی ہوئی حالت میں ہے۔ اس پگھلی ہوئی حالت کو لاوا کہتے ہیں۔ اس لاوے کے اوپر Tectonic Plates تیرتی رہتی ہیں۔ جن کی مجموعی تعداد پورے کرہ ارض میں 21 ہے۔ یہ پلیٹیں ہزاروں کلومیٹر چوڑی اور سو کلومیٹر تک موٹی ہوتی ہیں۔ ہلکی رفتار سے یہ پلیٹیں گردش کرتی رہتی ہیں، سال بھر میں یہ اپنے مقام سے پانچ ملی میٹر تک ہٹ جاتی ہیں، گردش کے دوران کبھی کبھی یہ پلیٹیں ٹکرا بھی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وافر مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس اخراج کی وجہ سے زمین کی بالائی پرت پر ایک ہلچل پیدا ہوجاتی ہے جو زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے لیکن ان واقعات کا ظہور کب ہوجائے گا، اس کے بارے میں جدید سائنس بالکل خاموش ہے۔اکثر بڑے زلزلوں سے پہلے کئی چھوٹے چھوٹے جھٹکے آتے ہیں، ان چھوٹے جھٹکوں کو Fore Shocks کہا جاتا ہے۔ بڑے زلزلے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے زلزلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جنہیں After Shocks کہا جاتا ہے۔ یہ کچھ ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک انجینئر نے زلزلہ آنے کی وجہ کے بارے میں خیال ظاہر کیا ہے ”زمین کی سطح کے میلوں نیچے چٹانوں کے کھسکنے سے زلزلے آتے ہیں“
قیامت کے زلزلے کی طبعی وجوہات کیا ہوں گی؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے لیکن قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ وہ زلزلہ پورے کرہ ارض کو ہلا کر رکھ دے گا۔ سورہ زلزال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی“ اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہے، جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانہ حیات چل رہا ہے، ان کا وضع کرنے والا اللہ ہی ہے، انسان تو بس ان کا علم ہی حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشش ثقل کے باعث ہر چیز زمین پر ہی گرتی ہے اور انسان اسے اڑنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔خدا بیزار زندگی گزارنے کے نتیجے میں انسان طرح طرح کی برائیوں میں ملوّث ہوجاتا ہے، بعض اخلاقی برائیاں ایسی ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتی ہیں، یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ یکلخت نیست ونابود نہیں کرتا بلکہ پہلے وارننگ دیتا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے اور اپنا طرز زندگی درست کرلے۔
سورہ سجدہ میں ا للہ رب العزت کا ارشاد ہے ”اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزہ چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ اپنی (باغیانہ روش سے) باز آجائیں“ (سورہ سجدہ: آیت: ۳۱) اس آیت کریمہ کی تشریح میں سید ابوالاعلی مودودیؒرقم طراز ہیں ”عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر اور فسق کی پاداش میں دیا جائے گا، اس کے مقابلے میں عذاب ادنی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد وہ تکلیفیں، مصیبتیں اور آفتیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں، مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکروعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ بالکل آرام اور سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو “ (تلخیص تفہیم القرآن، صفحہ ۶۵۳ حاشیہ ۳۳)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں