184

تعلیم یافتہ جاہل/تحریر/عبدالرؤف ملک/کمالیہ

انسان ایک حیوان ہے جو دوسرے حیوانوں کی طرح کھاتا پیتا اور اپنی دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرتا ہے جو چیز اسکو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اسکی تعلیم و تربیت، عقل و فہم شعور اور ادراک۔
تعلیم کی اہمیت ایک مسلّم حقیقت ہے تعلیم و تربیت کا سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ انسانیت خود۔ تعلیم اور تربیت ایک دوسرے کیلیے لازم و ملزوم ہیں تربیت کا تعلیم سے وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے جس طرح روح کے بغیر جسم محض گوشت کا ایک ڈھیر ہے بالکل اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم سوائے کتابوں اور سرٹیفکیٹس کے ڈھیر کے کچھ بھی نہیں ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم محض گدھے پہ کتابیں لادنے کے مترادف ہے کیونکہ تربیت ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو حیوانیت کے دائرے سے نکال کر انسانیت کے درجے پر فائز کرتا ہے اور پھر اپنے اخلاقِ حسنہ کے بل بوتے پر انسان “مسجودِ ملائکہ” کے مقام و مرتبے سے سرفراز ہوتا ہے۔
آج ہم اپنے اس معاشرے میں جو نفرت، تعصب، انتشار، بدامنی، بدعنوانی، عدل و انصاف کا فقدان اور روز بروز بڑھتے ہوئے انسانیت سوز واقعات اور مظالم سنتے اور پڑھتے ہیں اسکے پیچھے اصل محرکّ تربیت کا نہ ہونا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہورہا ہے جہالت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جارہی ہے، والدین، اساتذہ، علمائے کرام اور میڈیا سب اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل ہوچکے ہیں والدین اپنے بچوں کی صرف ضروریات زندگی پوری کرنے اور بھاری فیسیں ادا کرنے کو ہی اپنا فرض سمجھ بیٹھے ہیں اور اساتذہ کرام صرف دیے گئے سلیبس کو پڑھا کر اپنے تئیں مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا علمائے کرام چند رٹے رٹائے موضوعات پر تقریریں کرکے لوگوں کی طرف سے دادِ تحسین وصول کرکے اپنی کامیابی پر اِترانے لگتے ہیں اس سارے عمل میں تعلیم تو ہے لیکن تربیت کہاں ہے؟
اس تعلیم یافتہ دور سے بہتر دور تو ہمارے والدین کا دور تھا جس میں لوگ اگرچہ کم پڑھے لکھے تھے اور خواندہ، ناخواندہ کی ڈگری سے آگے نہیں بڑھے تھے لیکن تربیت کی کمی نہیں تھی اس وقت کے بچے کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے بچوں کی تربیت میں گھر کی خواتین، مرد حتیٰ کہ گلی محلے کے بزرگ بھی اپنا کردار ادا کرتے تھے اگر کسی بچی سے غلطی ہوجاتی تو ماں اور گھر کی دیگر خواتین اس بچی کو دن رات سمجھاتیں اور اگر کوئی غلطی کسی لڑکے سے ہوجاتی تو باپ، چچا تایا اس کیلیے بہترین اتالیق کا کردار ادا کرتے گھر کے بڑے بچوں کی انگلیاں پکڑ کر انہیں مسجد لے کر جاتے بچوں کو ہمیشہ یہی ڈر رہتا کہ اگر کسی نے مجھے کچھ غلط کرتے دیکھ لیا تو گلی محلے کے بزرگ خود بھی سرزنش کریں گے اور شام کو پھر والدین کی عدالت میں بھی خوب آؤ بھگت ہوگی۔ بچوں کے کردار اور انکی نظر میں شرم و حیا تھا ہر لڑکی انکی نظر میں بہن یا بیٹی کے سوا کچھ نہ تھی محلے میں کسی ایک گھر پہ کوئی مصیبت آتی تو پورا محلہ اس گھر کا سہارا بنتا کسی ایک گھر میں شادی ہوتی تو محلے کا ہر فرد اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان گھروالوں کا ہاتھ بٹاتا حتٰی کہ چھوٹے بچوں کو بھی کسی کی بارات کیلیے چارپایاں بچھانے اور مہمانوں کی تواضع کرنے کا کام سونپا جاتا اور وہ اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا بھی کرتے۔
پھر معاشرے میں تعلیم، شعور، آگہی اور جدت پسندی کا انقلاب آگیا لوگ اپنے سے پہلے کے دور کو جہالت سمجھنے لگے والدین کو بھی پتا چل گیا کہ یہ ساری دنیا انکی اولاد کی دشمن ہے کسی کے کام میں ہاتھ بٹانا اپنی عزت نفس اور انا کو مجروح کرنے کے مترادف ہے کوئی رشتہ دار یا گلی محلے کا بزرگ بچوں کی کسی غلط حرکت کی نشاندہی کرتا ہے تو بجائے بچوں کی اصلاح کے ہم انہی کے درپے ہوجاتے ہیں اساتذہ اگر بچوں کی غلطی پہ انکی سرزنش کردیں تو انکے خلاف ذاتی عناد، زدوکوب اور جسمانی تشدد کے مقدمے درج ہوجاتے ہیں باقی رہی سہی کسر ہمارے میڈیا نے پوری کردی ہے جس نے بےحیائی کی تمام حدیں پار کردی ہیں آپ کسی بھی پاکستانی چینل کے کسی بھی ڈرامے کو دیکھ لیں اس میں آپکو دیور بھابھی، سوتیلے والدین یا، سوتیلی اولاد یا پھر سوتیلے بہن بھائیوں کے معاشقے کی کہانیاں ملیں گی میاں بیوی کے بیڈروم اور انکی پرائیویسی کو بڑے بے ڈھنگے انداز میں یوں اجاگر کیاجاتا ہے جیسے ان مناظر کے بغیر ڈرامے کا مقصد پورا ہی نہیں ہوتا ابھی حال ہی میں “جیو انٹرٹینمنٹ” پر چلنے والے ڈرامہ “صرف تم” کے مناظر ہمارے اداروں اور معاشرے کے منہ پر طمانچہ اور ہماری عوام، مقتدر حلقوں اور علمائے کرام کی مجرمانہ خاموشی پہ سوالیہ نشان ہے جس میں “اَمَل” نامی ایک لڑکی کو ہمیشہ شراب کے نشہ میں دھت ،سگار کے دھویں اڑاتے ہوئے ڈانس کلبوں میں منڈلاتے دکھایا جاتا ہے اور پھر شادی کی پہلی رات وہی لڑکی دلہن کی صورت میں دلہا کے ساتھ بیڈ پہ بیٹھی ہوتی ہے اور اسکے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس شراب سے بھرا ہوتا ہے۔ یہاں PEMRA کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ہمارے اداروں کو خیال آجاتا ہے کہ یہ منظر بچوں کے کردار کو متاثر کرسکتا ہے فوراََ سکرین پہ لکھا آجاتا ہے کہ “شراب نوشی حرام ہے” اس جملے کو پڑھ کر میں دم بخود رہ گیا کہ میرے جیسے فرسودہ خیالات کے مالک جو یہ سمجھ رہے تھے کہ دلہن کے ہاتھ میں کوئی جوس یا مشروب ہے ان پر بھی واضح ہوگیا کہ غلط فہمی میں مت رہنا یہ کوئی جوس نہیں بلکہ شراب ہے۔ مجھے اس مضحکہ خیز انداز پہ حیرت ہوئی کہ یہ تو بالکل وہی بات ہوگئی کہ کوئی شخص زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کوئی خزانہ چھپا دے اور اس کے اوپر ایک بورڈ لگادے کہ “میں نے یہاں کوئی خزانہ دفن نہیں کیا” ذرا سوچیے کہ یہ میڈیا ہماری نسلوں کو کیا پیغام دے رہا ہے اور ہماری کونسی معاشرتی اقدار کی عکاسی کررہا ہے؟
بے حیائی پہ مبنی لباس کو فیشن کے نام پہ فروغ دیا جارہا ہے جس میں دوپٹے کا تصور تو فرسودہ خیال بن چکا ہے ایسے ہی بہت سے مناظر اور واقعات ہیں جو بچوں کے ذہنوں میں منفی رجحانات کو پروان چڑھارہے ہیں جسکی تسکین کیلیے وہ ہر جائز وناجائز ذرائع کا استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اسلامیہ یونیورسٹی میں ہونے والے بلیک میلنگ جیسے واقعات اور زینب اور اس طرح کی سینکڑوں معصوم بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعات جنم لیتے ہیں۔
جب ہماری نوجوان نسل کی تربیت اس بےڈھنگے انداز سے ہوگی تو انکے باکردار ہونے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے
یہ سب محض اتفاق نہیں ہے بلکہ باضابطہ طور پر بےحیائی،بدکرداری تعیش پرستی اور بدعنوانی کو ہماری قوم کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جارہا ہےجس کے نتیجے میں آج ہماری قوم کے نوجوان ڈگریوں سے لدے ہونے کے باوجود چوری، رہزنی، رشوت خوری، بدعنوانی،انسانیت سوز مظالم اور دوسروں کی حق تلفی میں ملوث ہیں ہم لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوکر بھی جہالت کی پستیوں میں گرے ہوئے ہیں۔ قومیں ایسے ہی برباد نہیں ہوتیں بلکہ معاشرے کے تمام ذرائع انکی بربادی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں انکی رگوں میں بےحیائی، خودغرضی، بداخلاقی اور حق تلفی کو میٹھے زہر کی صورت میں انجیکٹ کیا جاتا ہے اور جب یہ تمام منفی رجحانات کسی قوم میں سرایت کرجاتے ہیں تو پھر وہ قوم قوم نہیں رہتی بلکہ صرف ایک ہجوم بن جاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں