123

جُنْدُبْ بن جُنادہ ؄  !تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اور تنہا اٹھیں گے/تحریر/اعجاز خاں میو

جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو اس کرنیں ودّان نامی بستی میںمقیم بنو غفار کے ایک نوجوان تک بھی پہنچی جس کی رنگت سرمئی غالب ، بلند ترین قد و قامت ، دبلے اور پھرتیلے جسم کے مالک کردار میں سادہ مزاجی اقوال میں بے باکی ان کی شخصیت کو ایک خاص پہچان دیتی تھی ۔ آپ زمانہ جاہلیت ہی سے موحد تھے، خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتے تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھےاوران کی خدا پرستی عام طورپر لوگوں میں مشہور تھی۔چنانچہ جس شخص نے اس نوجوان کو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کے ظہور کی اطلاع دی۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ مکہ میں تمہاری طرح ایک شخص لا الہ الا اللہ کہتا ہے ۔
اس نوجوان کا اصل نام حضرت جُنْدُبْ بن جُنادہ ؄ تھا اور آپ اپنی کنیت حضرت ابوذر غِفَارِی ؄ کے نام سے مشہور ہوئے ۔حضرت ابوذر ؄ کا قبیلہ بنو غفار رہزنی کیا کرتا تھا۔ جاہلیت میں حضرت ابوذر ؄ کا بھی یہی پیشہ تھا اورآپ نہایت مشہور راہزن تھے۔تن تنہا نہایت جرأت اور دلیری سے قبائل کو لوٹتے تھےلیکن کچھ دنوں کے بعد ان کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا کہ یک لخت رہزنی ترک کرکے ہمہ تن خدا پرستی کی طرف مائل ہوگئے ۔ جب حضور ﷺ کی بعثت کی خبر سنی تو مکہ آکر اسلام قبول کر لیا ۔ اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔
حضرت ابوذر غِفَارِی ؄ کے اسلام کا واقعہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے یہ دلچسپ داستان خود ان کی زبان سے مروی ہے۔ان کا بیان ہے کہ جب میں قبیلہ غفار میں تھا تو مجھ کو معلوم ہوا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔میں نے اپنے بھائی( انیس) کو واقعہ کی تحقیق کے لیے بھیجا وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا:’’ کہو کیا خبر لائے؟ ‘‘
انہوں نے کہا:’’ خدا کی قسم یہ شخص نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے۔‘‘
اس بیان سے میری تشفی نہ ہوئی اور میں خود سفر کا مختصر سامان لے کر مکہ کی طرف چل کھڑا ہوا۔ وہاں پہنچا تو یہ دقت پیش آئی کہ میں رسول اکرم ﷺ کو پہچانتا نہ تھا اورکسی سے پوچھنا بھی مصلحت نہ تھی۔اس لیے خانۂ کعبہ میں جاکر ٹھہر گیا اور زمزم کے پانی پر بسر کرنے لگا۔اتفاق سے ایک دن سیدنا علی المرتضیٰ ؄ گذرے۔ انہوں نے پوچھا:’’ تم مسافر معلوم ہوتے ہو؟‘‘
میں نے کہا:’’ ہاں۔‘‘
وہ مجھے اپنے گھر لے گئے لیکن مجھ سے ان کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ صبح اٹھ کر میں پھر کعبہ گیا کہ لوگوں سے اپنے مقصود کا پتہ دریافت کروں کیوں کہ ابھی تک آنحضرت ﷺ کے حالات سے بے خبر تھا۔ اتفاق سے پھر سیدنا علی المرتضیٰ ؄ گذرے اور پوچھا :’’ ابھی تک آپکو اپنا ٹھکانہ نہیں معلوم ہوا۔‘‘
میں نے کہا : ’’نہیں۔‘‘
وہ پھر دوبارہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس مرتبہ انہوں نے پوچھا:’’کیسے آنا ہوا؟ ‘‘ 
میں نے کہا: ’’ اگر اس کو راز میں رکھیں تو عرض کروں۔‘‘
فرمایا: ’’ مطمئن رہو۔‘‘
میں نے کہا : ’’میں نے سنا تھا کہ یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ پہلے اس خبر کی تصدیق اوراس شخص کے حالات دریافت کرنے کے لیے میں نے اپنے بھائی کو بھیجامگر وہ کوئی تشفی بخش خبر نہ لایا اس لیے اب میں خود ان سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ ؄ نے فرمایا :
’’ تم نے نیکی کا راستہ پالیا، سیدھے میرے ساتھ چلے آؤجس مکان میں میں جاؤں تم بھی میرے ساتھ چلے آنا۔راستہ میں اگر کوئی خطرہ پیش آئے گا تو میں جوتا درست کرنے کے بہانے سے دیوار کی طرف ہٹ جاؤں گا اور تم بڑھے چلے جانا۔‘‘
چنانچہ میں حسب ہدایت ان کے ساتھ ہولیا اورآنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:
السلام علیک یا رسول اللہ !
آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا:
وعلیک سلام اللہ و رحمۃ وبرکتہ
تاریخ اسلام میں حضرت ابو ذر غفاری ؄ کوسب سے پہلے یہ شرف حاصل ہو اکہ انہوں نے مذکورہ الفاظ میں رسول اکرم ﷺ کو سلام کیا اور سلام کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا ۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری ؄ کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید سنایا ۔ آپ ؄ نے اسی مجلس میں اسلام قبول کر لیا ۔
قبول اسلام کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’ ابوذر !ابھی تم اس کو پوشیدہ رکھو اوراپنے گھر لوٹ جاؤ۔ میرے ظہور کے بعد واپس آنا۔‘‘
میں نے قسم کھا کر کہا:’’ میں اسلام کو چھپا نہیں سکتا ابھی لوگوں کے سامنے پکار کر اعلان کروں گا۔‘‘
یہ کہہ کر مسجد میں آیا۔یہاں قریش کا مجمع تھا کہ میں نے سب کو مخاطب کرکے کہا :
’’ قریشیو! میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد اس کے بندہ اور رسول ہیں۔‘‘
یہ سن کر ان لوگوں نے للکاراکہ اس بے دین کو لینا۔ اس آواز کے ساتھ ہی چاروں طرف سے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مارتے مارتے بے دم کردیا۔ یہ درد ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عباس ؄ سے ضبط نہ ہوسکا وہ مجھ کو بچانے کے لیے میرے اوپر گرپڑے اوران لوگوں سے کہا :
’’ تم لوگ ایک غفاری کی جان لینا چاہتے ہو حالانکہ یہ قبیلہ تمہاری تجارت کا گذرگاہ ہے۔‘‘
یہ سن کر سب ہٹ گئےلیکن اسلام کا وہ نشہ نہ تھا جس کا خمار قریش کے غیظ و غضب کی ترشی سے اتر جاتا۔ دوسرے دن پھر اس حق گو کی زبان پر یہ نعرہ مستانہ تھا۔
حضرت ابو ذر غفاری ؄ کی دعوت پر ان کے دونوں بھائی اور آدھا قبیلہ تو اسی وقت مسلمان ہوگیا اورآدھا ہجرت کے بعد مسلمان ہوا۔
مدینہ کے قیام میں ان کا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گذرتا تھا اوران کا محبوب مشغلہ آنحضرت ﷺ کی خدمت تھی۔خود فرماتے ہیں کہ میں پہلے آنحضرت ﷺ کی خدمت کرتا تھا۔اس سے فراغت کے بعد پھر آکر مسجد میں آرام کرتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعو د ؄ روایت کرتے ہیں :
’’جب رسول اللہ ﷺ تبوک کے لیے نکلے تو بہت سے لوگ بچھڑنے لگے (کیونکہ یہ قحط سالی کا زمانہ تھا) جب کوئی شخص بچھڑ تا تو لوگ آنحضرت ﷺ کو بتاتے کہ یا رسول اللہ ﷺ فلاں شخص نہیں آیا۔آپﷺ فرماتے جانے دو اگر اس کی نیت اچھی ہے تو عنقریب اللہ اس کو تم سے ملادے گا ورنہ اللہ نے اس کو تم سے چھڑا کر اس کی طرف سے راحت دیدی۔یہاں تک کہ ابوذرؓ کا نام لیا گیاکہ وہ بھی بچھڑ گئے۔ واقعہ یہ تھا کہ ان کا اونٹ سست ہوگیا تھا اس کو پہلے چلانے کی کوشش کی جب نہ چلا تو اس پر سے سازوسامان اتار کر پیٹھ پر لادا اورپاپیادہ آنحضرت ﷺ کے عقب میں روانہ ہوگئے اوراگلی منزل پر جاکر مل گئے۔ ایک شخص نے دور سے آتا دیکھ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ راستہ پر کوئی شخص آرہا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایاکہ ابوذر ؄ ہوں گے۔ لوگوں نے بغور دیکھ کر پہچانا اورعرض کیا یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم! ابوذر ؄ ہیں۔آپ ﷺنے فرمایا :
’’اللہ ! ابوذر ؄ پر رحم کرے ! وہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اورقیامت کے دن تنہا اٹھیں گے۔‘‘
آنحضرتﷺ کی یہ پیشین گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی۔
ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا :
’’ جب تمہارے اوپر ایسے امراء حکمران ہوں گے جو اپنا حصہ زیادہ لیں گے اس وقت تم کیا کروگے؟‘‘
عرض کیا : ’’تلوار سے کام لوں گا۔‘‘
آنحضرت ﷺ نےفرمایا: میں تم کو اس سے بہتر مشورہ دیتا ہوں۔ ایسے وقت صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے مل جاؤ۔‘‘
حضرت ابوذر ؄ فطر تاً فقیر منش، زہد پیشہ، تارک الدنیا اورعزلت پسند تھے۔اسی لیےآنحضرتﷺ نے ان کو ’’ مسیح الاسلام ‘‘ کا لقب دیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد انہوں نے دنیا سے ہی قطع تعلق کرلیالیکن قیام دیار محبوب ہی میں رہا۔وفات نبوی سے دل ٹوٹ چکا تھااس لیے عہدصدیقی میں کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا۔حضرت ابوبکر ؄ کی وفات نے اور بھی شکستہ خاطر کردیا۔ گلشن مدینہ ویرانہ نظر آنے لگا اس لیے مدینہ چھوڑ کر شام کی غربت اختیار کرلی۔
حضرت زید بن وہب ؄ فرماتےہیںکہ میں ربذہ (مدینہ سے 200 کلو میٹر مشرق میں واقع)سے گزر رہا تھا کہ حضرت ابوذر ؄ دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آ گئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو حضرت معاویہ ؄ سے میرا اختلاف قرآن کی اس آیت کے متعلق ہو گیا
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ: ’’جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو۔‘‘
اس آیت پاک سے پہلے یہود و نصاری کا ذکر ہے۔ حضرت معاویہ ؄ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہو گئی۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان ؄ (جو ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے) کو لکھ بھیجا۔ سیدنا عثمان ؄ نے مجھے مدینہ بلا لیا ۔
مدینہ میں ایک دن سیدنا ابوذر ؄ نے مشہور صحابی حضرت کعب ؄ جو پہلے یہودی ہوا کرتے تھے اور بعد میں اسلام لے آئے سے پوچھا کہ ان کی سورہ توبہ کی مذکورہ آیت سے متعلق کیا رائے ہے؟حضرت کعب ؄ نے کہا :
’’ایسا شخص جو زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے اور اس کے پاس مال بھی جمع ہے۔اس کےبارے میں مجھے بھلائی کی امید ہے!‘‘
حضرت ابوذر ؄ یہ سن کر بہت غصے میں آگئے اور بولے :
’’ اے یہودی عورت کے بیٹے!قیامت کے دن ایسے شخص کے دل کو بچھو ڈنک ماریں گے! ‘‘
حضرت کعب ؄ کو بہت غصہ آ یا مگر ضبط کر گئے۔
حضرت ابوذر ؄ فرماتے ہیںکہ مدینہ میں لوگوں کا ان کے گرد اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق حضرت عثمان ؄ سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کر لو۔ (بعض روایات کے مطابق خود ابوذ ر؄ نے ربذہ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔)یہی بات ہے جو مجھے یہاں (ربذہ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
حضرت ابوذر غفاری ؄ کی وفات31 ہجری کا واقعہ بھی نہایت حسرت انگیز ہے۔ ان کی حرم محترم وفات کے حالات بیان کرتی ہیں کہ جب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں رونے لگی۔ پوچھا کیوں روتی ہو؟میں نے کہا کہ تم ایک صحرا میں سفر آخرت کررہے ہویہاں میرے اور تمہارے استعمالی کپڑوں کے علاوہ کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو تمہارے کفن کے کام آئے۔فرمایا رونا موقوف کرو۔میں تم کو ایک خوشخبری سناتا ہوں۔میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے دو یا تین لڑکے مرچکےہوں وہ آگ سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔ آپ ﷺ نے چند آدمیوں کے سامنے جن میں ایک میں بھی تھا۔یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں مریگا اوراس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی۔ میرے علاوہ سب مرچکے ہیںاوراب صر ف میں باقی رہ گیا ہوں۔ اس لیے وہ شخص یقینا ًمیں ہی ہوں۔
آخری وقت میں اپنی بیوی اور خادم دونوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد غسل دے کر اور کفنا کر جنازہ شارع عام پر رکھ دینا اور جو کوئی یہاں سے گذرے ان سے کہنا یہ ابوذرؓ صحابیِ رسول اللہ کا جنازہ ہے۔آپ تدفین میں ہماری مدد کریں یہ کہہ کر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اس کہ بعد آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا اور آپ کے جنازے کو تیار کر کے راستہ کے کنارے پر رکھ دیا گیا اتفاقاً کچھ ہی دیر بعد وہاں سے حضرت عبدالله بن مسعود ؄ اہل عراق کی ایک جماعت کو لے کر عمرہ کے ارادہ سے مکہ کے لیے اسی راستے سے گذر رہے تھے انھوں نے اچانک جنازہ دیکھا۔ اسی وقت حضرت ابوذر ؄ کا خادم قافلے کے قریب آیا اور کہا یہ حضرت ابوذر ؄ صحابی رسول اللہ ﷺ کا جنازہ ہے آپ تدفین میں ہماری مدد کریں۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؄ زار وقطار رونے لگے پھر حضرت عبداللہ بن مسعود ؄ نے واقعہ تبوک کا ذکر کیا رسول اللہ ﷺ کی بات حضرت ابوذر ؄ کے متعلق آج بالکل سچ ہو گئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھایا او ر ان کے جسد خاکی کو صحرا میں ہی دفن کر دیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں