قرآن مجید چونکہ کلام الہی ہے۔ اس لیے اس کلام کا معلم اور متعلم سب سے بہتر ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ
ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
مشہور جلیل القدر تابعی عبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لیکر حجاج کے زمانے تک قرآن کی تعلیم دیتے رہے اور فرماتے تھے کہ مجھے اس حدیث نے (جامع مسجد کوفہ کے) اس مقام پر تعلیم قرآن کےلیے بٹھا رکھا ہے۔
حافظ قرآن کی فضیلت کے بارے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن مجید پڑھتا رہتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے تو اس کا مقام خدائی ہدایت پہنچانے والے مکرم فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اسکو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کو سخت دشواری آتی ہے تو اس کےلیے دہرا اجر ہے۔
ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے قرآن کریم پڑھ لیا ( حفظ کرلیا) تو اس نے( علوم) نبوت کو اپنی دونوں پسلیوں کے درمیان (یعنی دل میں) لےلیا۔ مگر اس کی طرف وحی نہیں کی جاتی۔ حافظ قرآن کےلیے زیبا نہیں کہ سختی کرنے والوں کے ساتھ سختی کرے اور جاہلوں کے ساتھ جہالت والا برتاو کرے جبکہ اس کے پیٹ (دل) میں اللہ تعالی کا کلام ( محفوظ) ہے۔
اس حدیث مبارک میں حافظ قرآن کے بلند مقام سے روشناس کرایا گیا ہے کہ اس نے سینے میں علوم نبوت کو سمولیا ہے۔ حافظ قرآن اسلام کا علمبردار ہوتا ہے قرآن کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لغو کاموں میں مشغول نہ ہو۔ قرآن مجید میں زندگی گزارنے کے تمام ضابطے اور اصول ہیں اگر ان کے مطابق زندگی گزاری جائیگی تو آخرت میں نجات اور فلاح حاصل ہوگی۔ اگر قرآن کے احکامات کے مطابق کوئی زندگی بسر نہ کریگا تو اسے آخرت میں سزا ملےگی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حفاظ قرآن کےلیے یہ نصیحت کی کہ:
اے قراء کے گروہ! اپنے سروں کو اٹھاو تمہارے سامنے دین کا راستہ واضح ہوچکا ہے، لہذا خیر کی باتوں میں سبقت لے جاو، اور لوگوں پر بوجھ نہ بنو۔
حفاظ قرآن اللہ تعالی کے ولی اور اسکے خاص بندے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں اللہ تعالی کے کچھ خاص بندے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں وہ حضرات ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل قرآن ہی اللہ تعالی کے اولیاء اور اس کے خاص بندے ہیں۔ اور قرآن کریم میں اولیاء کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
ترجمہ: یاد رکھو جو اللہ تعالی کے ولی ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اسی طرح قرآن مجید یاد کرکے بھول جانے پر بھی حدیث میں وعید آئی ہے۔ قرآن جب ایک مرتبہ یاد کرلیا خواہ ناظرہ پڑھا ہو یا حفظ کیا ہو اسے قائم رکھنا چاہئیے یاد کئے ہوئے قرآن پاک کی حفاظت کرنی چاہئیے تاکہ وہ بھول نہ جائے کیونکہ شیطان کا زور اس بات پر بڑا شدید ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو قرآن پاک سے غافل کردیا جائے جنہوں نے قرآن کو یاد کیا ہو۔ اس طرح قرآن مجید بھول جانا گناہ کے زمرے میں شمار ہوگا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بالکل ناپسند کیا ہے۔ قرآن کی بدولت ہی دل آباد ہوتا ہے۔ جس دل میں اللہ تعالی کا کلام ہوگا وہ دل شاداں ہے ورنہ دل ویرانے کی مانند ہے۔ انسان کا دل ایمان و قرآن کے نور سے خالی ہو تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جس دل میں قرآن نہیں اس دل میں شیطان کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔
چنانچہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن شریف کو پڑھے اور پھر اس کو بھول جائے قیامت کے دن وہ اللہ تعالی کے دربار میں کوڑھی ہو کرحاضر ہوگا( کوڑھ وہ بیماری ہے جس سے ہاتھ پیر وغیرہ اعضاءگل سڑ جاتے ہیں اور انسانی بدن کا گوشت سڑ کر گر جاتا ہے) ۔
شرح احیاءالعلوم میں ہے کہ سال میں دو مرتبہ ختم قرآن شریف کا حق ہے۔ اب وہ حافظ قرآن جو قرآن یاد کر کے بھول گئے یا بھول کر بھی قرآن نہیں کھولتے ذرا غور فرمالیں کہ اس قوی مقابل کے سامنے کیا جواب دہی کریں گے۔
قرآن مجید کو ترتیل و تجوید سے پڑھنا بھی بہت ضروری ہے۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“قرآن کریم کے پڑھنے کا طریقہ بھی سیکھو جیسے اس کے حفظ کو سیکھا کرتے ہو”
امام ابوداود نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کی صفت یہ بیان کی ہے کہ آپ کی عادت ایک ایک حروف کو واضح پڑھنے کی تھی۔ترتیل کے متعلق شاہ عبدالعزیز صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ ترتیل لغت میں صاف اور واضح طور سے پڑھنے کو کہتے ہیں۔
قرآن پاک پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہے کہ صرف اس کا پڑھنے والا ہی فیضیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کے والدین کے لیے بھی اجر و ثواب اور انعام ہے۔ جن کی اولاد قرآن کی تعلیم حاصل کرتی اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے ان کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ وہ تاج اگر دنیا میں نمودار ہو جائے تو ہماری آنکھیں اس کی تاب نہ لا سکیں، اور ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جو قیمت میں پوری دنیا سے بھی بڑھ کر ہوں گے ان کے اگلے پچھلے گناہ بھی بخش دئے جائیں گے اور وہ کل قیامت کے دن چودھویں کے چاند کی شکل میں اٹھائے جائیں گے اور ہر آیت کے ساتھ ان کے درجے بلند ہوں گے۔ حضرت معاذ جہنی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ “جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائےگا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو پس کیا گمان ہے تمھارا اس شخص کے متعلق جو خود عامل ہے۔”
قرآن پاک کا عالم اور حافظ ہونا بڑا ہی عظیم وصف ہے جو انسانوں کو دوسروں سے ممتاز کردیتا ہے۔ قرآن کا علم عزت اور احترام کا باعث بنتا ہے اور انسان کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچاتا ہے علماء اور حفاظ صاحبان کو قرآن کی بدولت ہی معاشرے میں اعلی مقام حاصل ہے قرآن کا علم انسانی سوچ میں پرواز پیدا کرتا ہے اور ذہنی فکر کو عروج دیتا ہے کیونکہ جس شخص کے پاس قرآن پاک کا علم ہوگا لامحالہ اسکی سوچ اور فکر دوسروں سے بڑھ جاتی ہے اور وہ اس بات کا اہل ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی رہنمائی کرے۔ حامل قرآن کی ہمیں عزت کرنی چاہئیے کیونکہ حامل قرآن، قرآن کو پڑھتا ہے اور مضبوطی سے اس کے احکام پر عمل پیرا ہوتا ہے اس لئے وہ معاشرے میں ہر لحاظ سے معزز ہوتا ہے۔ اللہ تعالی حامل قرآن کی ہر جائز دعا قبول فرماتا ہے چونکہ حامل قرآن اکثر قرآن پڑھتا اور پڑھاتا ہے جس کی بناء پر وہ مستجاب الدعوات بن جاتا ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب غنیة الطالبین میں ارشاد فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ کوفہ کے نواح میں جارہے تھے کہ ایک جگہ فساق کا مجمع ایک گھر میں جمع تھا۔ ایک گوِیّا جس کا نام زاذان تھا گارہا تھا اور سارنگی بجا رہا تھا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےاس کی آواز سن کر ارشاد فرمایا۔ کیا ہی اچھی آواز تھی اگر قرآن شریف کی تلاوت میں ہوتی اور اپنے سر پر کپڑا ڈالتے ہوئے چلے گئے۔ زاذان نے ان کو بولتے ہوئے دیکھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور یہ ارشاد فرماگئے۔ اس پر اس مقولہ کی کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ حد نہیں اور قصہ مختصر کہ وہ اپنے سب آلات توڑ کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہو لئے اور علامہ وقت ہوئے۔
ایسے ہی ایک اور بات یہ بھی کہ حفاظ و علماء کو تکلیف پہنچانے کی بھی ممانعت ہے۔ اگرچہ ہر مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے لیکن حفاظ و علماء کو تکلیف بدرجہ اولٰی ممنوع ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر مااکتسبو فقد احتملوا بھتانا واثما مبینا۔
ترجمہ: یعنی جو لوگ اذیت پہنچاتے ہیں مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو بغیر گناہ کئے تو اٹھایا انہوں نے بوجھ جھوٹ کا اور صریح گناہ کا۔
اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لا ضرر ولا ضرار
ترجمہ: نہ نقصان اٹھاو اور نہ نقصان پہنچاو۔
حافظ قرآن بننا کوئی اتنا آسان نہیں ہوتا ہے بلکہ بہت محنت سے قرآن حفظ ہوتا ہے۔ اسی لیے حافظ قرآن کے والدین کےلیے بھی بہت اجر ہے کیونکہ جب بچہ حفظ کررہا ہوتا ہے تو ان کو بھی اپنے نظام الاوقات کو مدرسے کے مطابق کرنا ہوتا ہے تاکہ بچہ بہتر انداز میں اور آسانی کے ساتھ پڑھ سکے۔ ذیل میں حفظ قرآن کے چند سنہری اصول بیان کیے جارہے ہیں:
(١) تعلیم و تعلم قرآن کےلیے مسجد کا ماحول بہتر ہے کیونکہ مسجد کے ماحول میں اجر و ثواب زیادہ ہے۔
(٢) حفظ قرآن میں استاد کی بہت اہمیت ہے۔ کیونکہ استاد کے بغیر قرآن پڑھنے میں سنگین غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے۔
(٣) حفظ میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ اپنی طاقت اور برداشت سے زیادہ مقدار سبق یاد نہ کیا جائے۔ ابوالعالیہ کا قول ہے :
تم قرآن کریم کو پانچ پانچ آیتیں کر کے سیکھو کیونکہ جبریل امین سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ پانچ آیتیں کر کے ہی قرآن سیکھا ہے۔
(۴) تکرار اور سبق کا بار بار دہرانا حفظ کی بنیاد ہے
(۵) حفظ کےلیے بڑی عمر کی نسبت چھوٹی عمر میں حفظ کرنا زیادہ پائیدار ومستحکم ہے۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ:
علم سیکھو! کیونکہ اگر تم آج کے اصاغر ہو تو کل کے اکابر ہو اور جو حفظ نہ کرسکے وہ تحریر کرے۔
چھ سال کی عمر سے تئیس سال کی عمر تک کا اٹھارہ سال تک کا عرصہ حفظ کےلیے بےحد سنہری اور بہترین زمانہ ہے۔ اس عمر کو بہت غنیمت سمجھنا چاہئیےکیونکہ اس عمر میں انسان کا حافظہ ایسا تازہ اور مضبوط ہوتا ہے کہ جو چیز بھی یاد کرنا چاہے بہت جلد یاد ہو جاتی ہےاور پھر بہت دیر سے بھولتی ہے۔
حافظ قرآن کو چاہئیے کہ دوزخ کے اور عذاب کے خوف کی اور جنت اور اس کی نعمتوں کے شوق کی آیتیں پڑھے یا سنے تو وہاں ذرا ٹھہرے۔ دوزخ سے پناہ مانگے اور جنت کا سوال کرے۔ ہر خطاب اور قصے میں سمجھے کہ یہ حکم مجھ کو ہو رہا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بہت ہی اچھی تحریر ہے اللّہ پاک برکت دے آمین
اللّہ پاک حفاظ سے محبت قبول کرے امین