عم زادِ محمد الرسول اللہﷺ، خاتونِ جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر، حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد محترم، غازئ غزوۂ بدر، فاتح خیبر، صاحبِ عشرہ مبشرہ، کاتبِ وحی، سیدنا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیکرِ عجزو انکسار، فیاض و دریا دل، زاہد و عابد، بالغ نظر عالم دور اندیش مدبر اور جرات و شجاعت کا کردارِ لازوال تھے۔
٣٥ ہجری ١٨ ذوالحجہ بروز جمعہ کے دن جب دین حق سے یکسر خارج باغی اور فسادی گروہ نے خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بےبنیاد الزامات، دغا بازی اور ظلم وجبر کی بنیاد پر شہید کر دیا۔ تو اصحابِ مدینہ میں جو معتبر شخصیات موجود تھیں ان سب نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلوم شہادت کے بعد کسی نے بھی اپنی آپ کو مسند امامت و خلافت پر براجمان ہونے کے قابل نہیں سمجھا۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس منصب خلافت کے ہرگز متمنی نہیں تھے۔ تاہم مدینہ کے جلیل القدر صحابہ کرام کے بارہا اصرار پر بالآخر مسندِ خلافت سنبھالنے پر اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ اس خوف کے پیشِ نظر کہ کہیں امت میں فتنہ و انتشار پیدا نہ ہو جائے، اسی لیے فلاح و یک جہتی امت کے لیے خلافتِ راشدہ کی باگ ڈور سنبھال لی۔
رسولِ اکرمﷺ کے عہد مبارک میں اور بالخصوص آپﷺ کی وفات مبارکہ کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے سے پیش رَو خلفائے ثلاثہ (سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کے ساتھ برادرانہ برتاؤ اور مذہبی و سیاسی امور میں محبت و معاونت کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اہلِ اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔
دشمنان دین اسلام خواہ کسی بھی بہروپ میں ہو (کافر، مشرک، بت پرست، یہودی، عیسائی، خوارج، سبائی) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کرم اللہ وجہہ اپنی حکمت و بصیرت اور معاملہ فہمی اور دانائی کی ایسی مثالیں چھوڑ گئے کہ اگر امتِ محمدیہ کو کبھی باہمی انتشار کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ کیا کرے؟ جنگ جمل و صفین کے حالات میں آپ کرم اللہ وجہہ کے بصیرت افروز فیصلے؛ اہل اسلام کے آپسی معاملات کے حل اور باہمی اعزازو تکریم میں امت کی رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ چنانچہ مناقب ابی حنیفہ میں امام موفق مکی رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے: جس نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اس میں حق پر حضرت علی ہی تھے (غیر مسلموں کے بارے میں حق بمقابلہ باطل ہے اور اہل اسلام کے بارے میں حق بمقابلہ اجتہادی خطاء ہے) اگر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا طرز عمل موجود نہ ہوتا تو کسی کو بھی معلوم نہ ہوتا کہ جب مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس وقت کیا کیا جائے؟
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے بچپن ہی عملی زندگی میں رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل درآمد کرتے ہوئے صبرو تحمل کو اپنا لیا تھا۔ نوجوانوں میں سب سے پہلے اسلام قبول لانے کے وقت، اور مختلف جنگی محاذوں میں بے جگری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی جواں مردی اور استقامت کا ثبوت دیا۔ اپنے دورِ خلافت میں بھی آپ کو بڑے بڑے فتنوں اور حادثات کا سامنا کرنا پڑا مگر اللہ کا ولی علی ہر محاذ پر ڈٹ کر کھڑا رہا حتیٰ کہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا۔
جنگ نہروان کی وجہ سے خوارج ( اسلام میں پہلا مذہبی فرقہ جس نے شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ گروہ بنایا۔) کے دل ودماغ پر بڑی کاری ضرب لگی تھی وہ زخمی کتے کی طرح باؤلے ہوئے تھے۔ ہر آنے والا دن ان کے رنج و صدمے اور حسرت میں اضافے ہی کرتا جا رہا تھا۔ ان میں سے ایک سفاک اور بے رحم گروہ جو کہتا تھا کہ ہمارے جو بھائی معرکۂ نہروان میں مارے گئے ہیں، علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ان کا بدلہ لیا جائے۔ اور اسی دشمنی کے تحت یہ شقی القلب گروہ سیدنا علی المرتضیٰ کی جان لینے کے درپے ہو گیا تھا۔
امام ابن کثیر نے البدایہ میں لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الکندی، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے قتل کی مذموم سازش ترتیب دی۔ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے سترہ رمضان ٤٠ ہجری کا دن متعین کیا۔ مقرر کردہ تاریخ اور منصوبے کے مطابق ابنِ ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھ گیا، جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ آپ نمازِ فجر کے لیے گھر سے نکلے دیگر لوگ بھی نماز کے لیے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر آ رہے تھے۔
جنابِ علی ولی اللہ حسبِ معمول صدا بلند کرتے ہوئے مسجد کی جانب رواں دواں تھے: “اے لوگو! آؤ نماز کی طرف، آؤ نماز کی طرف۔” جونہی آپ مسجد کے دروازے پر پہنچے آپ کی راہ میں گھات لگائے بیٹھے ملعون ابنِ ملجم نے عقب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر مبارک کے اگلے حصے پر تلوار سے ضرب لگائی ، خون کی ایک دھار داڑھی مبارک تک آ پہنچی اس شقی القلب انسان نے وار کرتے وقت یہ نعرہ بھی لگایا: لا حکم الا اللہ لیس لک ولا صحابک یا علی۔ اے علی! حکومت صرف اللہ کی ہے تمہاری یا تمہارے ساتھیوں کی نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آواز دی کہ اس کو پکڑو، ابنِ ملجم کو فوراً ہی دھر لیا گیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ فرمانے لگے: “جان کے بدلے جان! اگر میں انتقال کر جاؤں تو اسے اسی طرح قتل کر دیا جائے جس طرح اس نے مجھے قتل کیا ہے، اور اگر میں زندہ رہو تو اس معاملے سے خود نبٹ لوں گا۔”
اسی اضطراری کیفیت میں حضرت جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، بعد از نماز حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو شدید زخمی حالت میں گھر لایا گیا۔
جس دن حضرت علی ابنِ ملجم کے وار سے زخمی ہوئے، بہت سے اطباء کرام جمع ہوئے۔ ایک ماہر طبیب اثیر بن عَمر والسکونی نے بکری کا تازہ پھیپھڑا لے کر اس میں سے ایک رگ نکالی، اسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کے زخم کی جگہ داخل کیا، پھر اس رگ میں پھونک ماری اور باہر نکال لی۔ دیکھا تو اس رگ میں دماغ کی سفیدی بھی لگی ہوئی تھی۔ واضح تھا کہ دماغی ضرب اندر تک اثر انداز ہوئی ہے۔ طبیب کا فق چہرہ دیکھ کر سب کو معلوم ہو گیا کہ اس طبیب کے تجربے کے مطابق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت یقینی ہے۔
اس نازک اور تشویشناک حالت میں امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جگر گوشوں حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قریب بلا کر آخری ہدایات دیں۔ پھر بحثیت خلیفۂ چہارم امت مسلمہ کو کئی وصیتیں کیں۔ اس کے بعد شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔ ایک روایت کے مطابق بدبخت اور ملعون ابنِ ملجم کے حملے کے بعد شیر خدا تین دن تک زندہ رہے۔ اور بالآخر حملے کی کاری ضربات سے آپ جاں بر نہ ہو سکے۔
٤٠ ہجری ماہِ رمضان المبارک کی ٢١ تاریخ کو حق کے ولی نے جام شہادت نوش کر لیا۔
بوقتِ شہادت تلاوتِ قرآن:
آپ نے کل چار سال نو ماہ چھ دن تک خلافت کے امور سر بخوبی انجام دیے، 21رمضان المبارک کو جان جان آفریں کے سپرد کی۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرت سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو خشیت الہٰی اور حسن عمل کی وصیت کی اور سورۃ الزلزال کی آخری دو آیاتِ کریمہ کی تلاوت فرمائی۔ فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خیرً یَرہO وَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَرہO
شیر خدا، حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جناب حسنین کریمین اور حضرت عبداللہ بن جعفر نے غسل دیا۔ نمازِ جنازہ حضرت حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
ان کی قبر مبارک کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد انہیں کوفہ کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا اور آپ کی قبر کو مخفی رکھا گیا تاکہ خوارج اس کی بےحرمتی نہ کریں، کوفہ میں بعض مؤرخین کے بقول دارالامارۃ میں اور بعض کے نزدیک کوفہ کی جامع مسجد کے پاس اور بعض کے نزدیک عام قبرستان میں آپ مدفون ہیں، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں، البتہ کسی خاص جگہ کا تعین نہیں ہے۔ البداية والنهاية ط إحياء التراث (7/ 365)
وقتِ شہادت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمر بعض مؤرخین کے مطابق تریسٹھ سال تھی۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ علیہ اپنے فارسی کلام اسرار خودی میں فرماتے ہیں۔
مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب
ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
رضی اللہ تعالیٰ عنہ