تحریر/سعیدہ قمر(گوجرہ)
برصغیر میں مسلمانوں کے دور عروج میں کہاوت مشہور تھی “پڑھے فارسی اور بیچے تیل، دیکھو رے! قسمت کےکھیل” یعنی سرکاری زبان سے واقفیت رکھنے والا چھوٹا موٹا کام کیوں کرے کہ اس کے لئے تو اعلیٰ عہدوں کے دروازے کھلے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حکمرانوں کی صرف زبان ہی نہیں تہذیب و ثقافت بھی جڑ پکڑتی ہے اور برصغیر میں مسلم ثقافت کا اثرو نفوذ اس دور عروج میں واضح دکھائی دیتا تھا ۔
حیا جو حیات کا جزوِ لازم ہے اسے اللہ نے عورت میں سب سے زیادہ رکھا ہے ۔ ارشاد ربانی ” تمشی علی الستحیا ” میں عورت کی خوبصورتی کا بیان اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حیا کے ساتھ کیا ہے۔ ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
” ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے” ۔
” حیا اور ایمان ہمیشہ اکٹھے رہتے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے “.
” جب تم حیا نہ کرو تو جو تمھارا دل چاہے کرو “.
حیا ہے مرضی میرے خدا کی
حیا ہے تعلیم مصطفیٰ کی
نبی کا پیغام عام کرنا
حیا کے کلچر کو عام کرنا
سالگرہ منانے سے شروع ہونے والی ثقافتی یلغار ٹیچرز ڈے ، فادرز ڈے اور مدرز ڈے سے ہوتی ہوئی ویلنٹائن ڈے تک پہنچی کہ عشاق بھی آخر کو مکمل پاکستانی شہری “حقوق ” رکھتے ہیں۔ غیروں کی ثقافت کو بڑھاوا دینے کے لائسنس یافتہ ادارے الیکٹرانک میڈیا نے اس ثقافتی یلغار میں اپنا کردار ” کماحقہ ” نبھایا ۔ اور اس معاملے میں پیچھے تو عوامی حکومت بھی نہ رہی کہ تہذیبی یلغار کی اس قدر عوامی “پذیرائی ” نے انھیں مملکت پاکستان میں LGBTQ کی “کمی” کو پر کرنے کے اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا کہ زبان اور ثقافت ہمیشہ قوانین کو ہی آواز دیتے۔
غلام قادر روہیلہ نے تیموریوں کی بچی کھچی حمیت کو جانچنے کے لیے شاہی خاندان کی عورتوں کو رقص کا حکم دیا اور خود خنجر سامنے رکھ کر سوتا بن گیا۔ بزبان اقبال رحمۃ اللہ:
پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے
مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی تکلف تھا
کہ غفلت دور ہے شان صف آرایان لشکر سے
یہ مقصد تھا میرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کرمار ڈالے میرے خنجر سے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اور اس ثقافتی یلغار کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہماری نوجوان بچیوں کے رقص کی ویڈیوز وائرل ہو رہیں اور ملکی میڈیا اس کو تھپکی دے کر مزید حوصلہ بڑھا رہا۔ ان حالات میں ہمیں متحد ہو کر حیا اور اسلامی ثقافت کو پھیلانا ہوگا۔
یہ کام ہے صبح وشام کرنا
حیا کے کلچر کو عام کرنا
حیا سے پہچان ہے ہماری
حیا سے ہی آن ہے ہماری
حیا کا ہے اہتمام کرنا
حیا کے کلچر کو عام کرنا
آج کا روہیلہ بھی تیموری حرم کا امتحان لے رہا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ اس جگہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے اور پھر سننے کو ملے:
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
ان حالات میں ہمیں اپنے آپ کو پہچان کر اپنی شناخت پا کر نہ صرف خود کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس پیغام کو آگے بھی پہچانا ہے کیونکہ اللہ نے بھی ہمیں یہی مقصد دیا کہ:
لیظھرہ علی الدین کلہ
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
بلغوا عنی و لو آیه