“پاکستان اسی روز قائم ہوگیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا اور یہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ایک بھی مسلمان یہاں موجود ہے”۔
انسان جب کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے تو اس کی تعبیر پانے کے لیے کوشش اور محنت بھی کرتا ہے۔ اس کے دل کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کو حقیقت میں بدل سکے۔ اصل میں ہمارے ذہن میں بسنے والے خیالات ہی ہمارے خواب آنے کی وجہ ہوتے ہیں۔ خواب ہم بند آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کچھ خواب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ کچھ خواب پورے کرنے کے لیے ہم بہت کوشش اور محنت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان خوابوں کی تعبیر مل جائے اور ہمارے خوبصورت خواب حقیقت ہو جائیں اور اگر جب ایسے خواب ہم اپنے ملک کے لیے دیکھتے ہیں تو اس کے خوابوں کی تعبیر کو جیسے مرضی کر کے ہم پورا کرنا چاہتے ہیں۔
درحقیقت آج ان خوابوں کی بدولت ہی دنیا نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اور یہاں تک پہنچی ہیں۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا جو خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کو پورا ہوتے دیکھنا ان کی خواہش تھی اور جب اس کا پوری قوم کو 23 مارچ 1940 کو بتایا تو اس خواب کی اہمیت نے اس دن کو تاریخ ساز بنا دیا جس کو آج تک ہم پاکستانی اس دن کو رہتی دنیا تک مناتے رہیں گے۔ یہ وہ دن ہے جب ہر پاکستانی کے دل میں ایک الگ ملک کی امنگ پیدا ہوئی تھی۔ ایک نیا جذبہ، نئی امیدیں اجاگر ہوئی تھیں۔
اسی طرح جب سرسید احمد خان نے “دو قومی نظریہ” کی بنیاد رکھی اور ان پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ ان سب کو ہندستان میں ہندوؤں کے ساتھ اب رہنے نہیں دیا جائے گا۔ سرسید احمد خان کے “دو قومی نظریہ” کو قائداعظم نے پیش کیا اور اس کی بنیاد پر علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور اس خواب کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنے جان و مال کی قربانی دی اور پاکستان کے وجود کو جنم دیا۔
قائداعظم کے الفاظ تھے:
“مسلمانوں ! میں نے دنیا کو قریب سے دیکھا ہے۔ دولت، شہرت، عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علم اسلام کو سر بلند رکھتے ہوئے مرے۔”
لیکن اکثریت میں آج کل ہم پاکستانیوں کی زندگیوں سے سکون ہی ختم ہوگیا ہے۔ ہم کیا خواب دیکھ سکتے ہیں اور اس کو پورا کرنے کی سوچ سکتے ہیں؟ ہم نے تو اقبال کے ہی خواب کو بھلا دیا ہے جس نے پاکستان کو اپنا الگ ملک بنانے کے لیے خواب دیکھا تھا۔ ہم نے تو ان سب باتوں کو ہی نظر انداز کیا ہوا ہے اور کبھی اپنی نوجوان نسل تک کو یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ ہم “یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں؟ پاکستان میں اس دن کی کیا اہمیت ہے؟
اب یہ کسر ہمارے تعلیمی اداروں نے بھی پوری کر دی ہے جو نصاب سے یہ باب ہی ختم کر دیا ہوا ہے جس کی بدولت یہ پیغام، یہ معلومات ہماری نوجوان نسل تک پہنچائی جا رہی تھی۔ ہمیں ہماری آنے والی نسلوں کو ان باتوں کی آگاہی دینی چاہیے۔ ان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کی اس محنت، کاوش اور لگن کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہیے تاکہ ہماری ہر آنے والی نسل میں یہ جذبہ، شوق اور اپنے ہر خواب کو پورا کرنے کی چاہ ہو۔
جیسے ہم اپنا ہر خواب پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے ملک پاکستان کی حفاظت، ترقی کے لیے بھی خواب کو پورا کرنے کی جدوجہد ہونی چاہیے۔
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں میں یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ اپنے ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لیے محنت، کوشش اور لگن سے ہمیشہ اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کرنی ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے لیے جو بھی خواب دیکھنے ہیں تو ان کی تعبیر کے لیے ہمیں کسی بھی حد سے گزرنا پڑے تو گزر جائیں گے۔ اپنا تن، من، دھن لگا کر کام کریں گے اور دنیا کو اپنے زندہ قوم ہونے کا پیغام دیں گے اور اس وطن عزیز پر کوئی مشکل، پریشانی نہیں آنے دیں گے۔
” پاکستان زندہ باد”.