85

سب سے پہلااستقبال کس نے کیا؟/تحریر/علامہ ڈاکٹر مولانا محمدجہان یعقوب

شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے پوتے،شیخ عارف ملتانیؒ کے صاحب زادے وجانشین شیخ رکن الدینؒ المعروف شیخ رکن عالم ملتانیؒ کے عوام کے علاوہ بادشاہوں سے بھی تعلقات تھے اور امرا بھی آپ کے معتقد اور غلام تھے۔
1۔شیخ رکن الدین کے دور میں سلطان علاؤ الدین خلجی، دہلی کے تخت پر متمکن تھے۔ شیخ رکن الدین ایک مرتبہ ملتان سے دہلی تشریف لے گئے تو سلطان نے شایانِ شان آپ کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنےمحل میں لے گیا ، بہت سا روپیہ نذر کیا، رخصت کے وقت مزید رقم پیش کی۔ شیخ نے رقم قبول تو فرما لی مگر ساری ہی فقرا میں تقسیم کر دی اور ساتھ کچھ نہ لائے۔
2۔علاؤ الدین خلجی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہندوستان کے تخت و تاج کا مالک بنا اور قطب الدین خلجی کے نام سے مشہور ہوا۔ قطب الدین خلجی کے تخت نشین ہوتے ہی درباری خوشامدیوں نے اسے یوں گھیرے میں لے لیا کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو گیااور بس جو درباریوں نے کان میں ڈالا آنکھ بند کر کے اس کی حقیقت یہ ایمان لے آیا۔ شاہی درباریوں نے دلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء کی شہرت و دبدبہ دیکھا تو آپ پر لوٹنے لگے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ہم شاہی دربار سے وابستہ ہیں، لہٰذا عوام ہماری زیادہ عزت کریں گے اور اپنی مشکلات و مصائب ہمارے آگے آ کر بیان کریں گے، تا کہ ہم اسے شہنشاہ ہند تک پہنچا سکیں یا اپنے اختیارات سے کام لے کر انہیں دور کر دیں؛ لیکن یہ لوگ تو بھولے سے بھی ہمارے پاس نہیں آتے اور خواجہ صاحب کے گرد گھیر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں تو انہوں نے بادشاہ کو خواجہ کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ چنانچہ قطب الدین بھی اب خواجہ سے عناد رکھنے لگا اور ان کا وجود اپنی اور اپنی سلطنت کی سالمیت کے لیے حد درجہ خطرناک سمجھنے لگا۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح خواجہ نظام الدین کو زک پہنچا کر دلی سے نکلوا دے لیکن پھر ان کی درویشی و عظمت کے آگے بے بس ہو جاتا اور سوچتا کہ کہیں یہ میرے حق میں ایسی بدعا نہ کر دیں کہ مجھ ہی کو دلی کی مسند چھوڑنی پڑ جائے۔ چالاک اور مفسد درباریوں نے جب بادشاہ کو اس کشمکش میں دیکھا تو اسے کہنے لگے: اگر آپ ملتان سے شاہ رکن عالم کو دہلی بلائیں تو وہی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہیں۔
بادشاہ نے سوالیہ انداز میں درباریوں کی طرف دیکھ کر پوچھا :وہ کیسے؟
مفسد درباریوں نے عیاری سے کہا: شاہ رکن عالم اور خواجہ نظام الدین اولیاء کی آپس میں بہت کم بنتی ہے۔ اس طرح جب ایک شہر میں دونوں یکجا ہو جائیں گے تو دونوں میں رنجش بڑھے گی اور پھر ہم اسی رنجش سے بھرپور فائدہ اٹھا لیں گے۔
بادشاہ کو یہ تجویز بڑی بھائی،اس نے فوراً شاہ رکن عالم کی طرف ایک دعوت نامہ بھیجا اور دلی آنے کے لیے پر زور اصرار کیا۔ شیخ رکن عالم کو اچھی طرح علم تھا کہ اس وقت دعوت نامہ بھیجنے کے پس پردہ کیا عوامل ہیں؟ آپ بادشاہ کی عیاری کو بھی سمجھتے تھے، لیکن اس کے باوجود دلی جانا بھی ضروری خیال کیا۔ چنانچہ آپ نے فوراً اپنے عقیدت مندوں اور ارادت مندوں کو ساتھ لیا اور دلی کا سفر شروع کر دیا۔ ادھر نظام الدین اولیاء کو معلوم ہو چکا تھا کہ بادشاہ اور اس کے خوشامد پسنددرباری کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انہوں نے اس کے توڑ کا یہی حل نکالا کہ پہلے خود شاہ رکن عالم کے استقبال کے لیے جائیں، اس لیے انھیں جیسے ہی اطلاع ملی ہے کہ شاہ رکن عالم دہلی کے نزدیک پہنچ چکے ہیں تو آپ بھی اپنے ارادت مندوں ، عقیدت مندوں اور مریدوں کے ساتھ دلی شہر سے نکل کر ذرا آگے جا کر رکن عالم کے استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے اور جیسے ہی شاہ رکن عالم دلی کے نزدیک پہنچے آپ کا انہوں نے پرجوش خیرمقدم کیا۔ رات بھر دونوں بزرگ ایک خیمے میں بیٹھے، شرعی مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ صبح ہوئی تو نظام الدین اولیاء نے شاہ رکن عالم سے الودعی مصافحہ کیا اور پھر اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ دہلی واپس کوچ کر گئے۔ شاہ رکن عالم نے بھی نظام الدین اولیاء کے جاتے ہی دلی شہر کی طرف کوچ کرنے کا حکم صادر کیا۔ بادشاہ شہر کی فصیل کے پاس شاہی افراد کے ساتھ کھڑا آپ کے استقبال کے لیے تیار تھا۔ چنانچہ جیسے ہی اسے شاہ رکن عالم کی آمد کی اطلاع ملی، وہ آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کرنے والوں میں شامل ہو گیا اور آپ کے گھوڑے کی لگام تھام کر کچھ فاصلہ آگے بڑھنے کے بعد آپ کو گھوڑے سے اتار کر ایک دوسری آرام دہ سواری پر بٹھایا گیا۔ پھر یہ قافلہ شاہی محل کی طرف روانہ ہوا۔ شاہی محل کے پھاٹک پر پہنچ کر بادشاہ نے جو پیچھے نظر دوڑائی تو اسے انسانوں کے سروں کا ازدہام نظر آیا جو شاہ رکن عالم کے استقبال کی خاطر ان کے پیچھے چلا آیا تھا۔ بادشاہ نے یہ موقع مناسب گردانا اور شیخ رکن عالم کو وہیں ٹھہرا کر آپ سے عوام کے سامنے مخاطب ہوا :
حضرت! آپ کا دلی شہر میں سب سے پہلے کس نے استقبال کیا؟
شیخ رکن الدین ملتانی بھی دلی کے تاج دار کی بات خوب سمجھ رہے تھے، لہٰذا انھوں نے بلند آواز سے مجمع کی طرف دیکھ کر کہا : لوگو !تمھارے اس شہر میں مجھ ملتانی درویش کا سب سے پہلے استقبال اس نے کیا جو تمھارے شہر کا سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار انسان ہے، جو خدا کا محبوب بندہ ہے۔
بادشاہ جو اپنی دانست میں آپ کا استقبال کرنے والوں میں سب سے آگے تھا ،یہ سن کر پھولا نہ سما رہا تھا کہ ایک ولی کامل کی زبان سے اس کے لیے یہ تعریفی وتوصیفی کلمات ادا ہورہے ہیں۔اس نے پھر بھی مزید تصدیق کے لیے آپ سے کہا: حضرت! وہ خوش نصیب کون تھا، اس کے نام سے بھی تو مطلع فرمائیں ،تا کہ دلی کے لوگ جان لیں کہ ان کے شہر کا سب سے پرہیزگار اور عبادت گزار انسان کون ہے؟
یہ سن کر شاہ رکن عالم ملتانی نے مجمع عام کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا: لوگو! تمھارے شہر میں داخل ہونے سے پہلے میرا جس شخص نے سب سے پہلے استقبال کیا، وہ محبوبِ الہٰی خواجہ نظام الدین بدایونی تھے اور تم لوگ اچھی طرح سے جان لو کہ وہ دلی کے سب سے اچھے بندے اور خدا کے نزدیک محبوب ترین بشر ہیں۔
شاہ رکن عالم کا معمول تھا کہ جب کبھی بھی بادشاہ کے ہاں جاتے تو راستے میں اپنی سواری ٹھہراتے جاتے تھے، تا کہ جو لوگ بادشاہ کی خدمت میں عرضیاں دینا چاہتے ہیں، وہ ان کے حوالے کر دیں۔ بعض کی معروضات زبانی بھی سنتے اور بادشاہ سے بیان کردیتے۔ شاہی محل کے پاس پہنچ کر دو دروازوں تک سوار ہی چلے جاتے اور تیسرے دروازے پر سلطان بڑی عزت کے ساتھ انھیں دربار میں لے جاتا اور مؤدب دوزانو ہو کر بیٹھ جاتا ،پھر شیخ ان کے سامنے لوگوں کی درخواستیں پیش کرتے۔ بادشاہ ہر درخواست کو غور سے پڑھتا ، سنتا اور اس کے اوپر اسی وقت حکم لکھ دیتا۔ واپسی پر شیخ ان تمام درخواستوں کو ساتھ لے جاتا اور راستے میں درخواست دینے والوں کو دیتے جاتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں