تحریر: حکیم شاکر فاروقی
رمضان المبارک اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اس میں اہل اسلام چاند دیکھتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، تراویح پڑھتے ہیں، زیادہ سے زیادہ عبادات کرتے ہیں اور سحر و افطار کے وقت مختلف النوع کھانے کھاتے ہیں۔سحری یا ’’سحور‘‘ کا مطلب صبح کا وقت ہے، جب کہ ’’افطار‘‘ غروب آفتاب کے وقت کو کہتے ہیں۔ ان دونوں اوقات کے درمیان معدے کو خالی رکھنے اور خواہشات نفسانی پر قابو پانے کو ’’روزہ‘‘ یا ’’صوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’سحری کرنے‘‘ کا مطلب ہے،طلوع صبح صادق سے پہلے پہلے کھانا کھا لینا۔ اس کھانے کو ’’سنت‘‘ کا درجہ حاصل ہے یعنی نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو سرانجام دیا ہے، اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اس وقت کھانا کھانےکو باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ ’’افطاری کرنے‘‘ کا مطلب ہے ’’کوئی چیز کھا کر روزہ کھول دینا‘‘۔ اسے بھی سنت کا درجہ حاصل ہے۔ اگرچہ سحر و افطار میں ہلکا پھلکا کھانا کھا لینا بھی درست ہے اور اس سے سنت بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی علاقوں کے اعتبار سے مختلف ممالک میں اس بارے عجیب و غریب رسوم و رواج اور روایات پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے بعض تو بہت ہی عجیب ہیں۔ یاد رہے! اسلام ان رسوم و رواج کی دعوت نہیں دیتا، نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ رسوم مقامی لوگوں کی اپنی روایات سے کشید ہوئے ہیں۔ کچھ چیزیں پوری دنیا کے مسلمانوں میں مشترک بھی ہیں مثلا افطار کے وقت کھجور اور پانی کا استعمال وغیرہ لیکن ذیل میں ہم چند ممالک کی ان روایات کو نقل کر رہے ہیں، جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب بھی ہیں:
برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں سحری کی تیاری عشا کی تراویح پڑھنے کے فورا بعد ہی شروع ہو جاتی ہے۔ رات کے وقت خواتین دودھ سے دہی جماتی ہیں۔ اگر گرمیوں کا موسم ہو تو لسی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ عموما پہلی سحری میں گوشت پکایا جاتا ہے۔ اگر دہی کا انتظام گھر پر نہ ہو سکے تو مرد حضرات سحری کے وقت بازار سے لا کر بھی استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ سحری کے وقت دودھ اور کھجور کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح افطار کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں مثلا میٹھے مشروبات جن میں عام طور پر روح افزا، جام شیریں، خشخاش اور بادام کی سردائی، پکوڑے، سموسے، کباب، چنا چاٹ اور اس طرح کی چٹ پٹی اشیاء اور کھجوریں استعمال کی جاتی ہیں۔ خواتین افطاری کے لیے ظہر کے وقت سے ہی مستعد ہو جاتی ہیں اور مغرب تک اسی کام میں جتی رہتی ہیں۔ سحر و افطار کے لیے مساجد سے اعلان کیے جاتے ہیں، سائرن بجائے جاتے ہیں یا پھر نوجوانوں کی ٹولیاں گلی گلی گھوم کر لوگوں کو سحری میں جگاتی ہیں۔ دیہاتوں میں وقفے وقفے سے سحری کے وقت اعلان ہوتے رہتے ہیں کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے؟ بعض جگہ اس مقصد کے لیے ’’ڈھنڈورا‘‘ بھی پیٹا جاتا ہے۔ بعض مساجد میں افطاری کے وقت لوگ چاولوں کی دیگیں پکا کر لاتے ہیں اور اجتماعی افطاری کی جاتی ہے۔ اب افطار پارٹیوں کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
سعودیہ میں کھجور، لسی اور دہی کے ساتھ ساتھ عربی قہوہ اور ’’جریش‘‘ نامی ڈش سحری و افطاری کا لازمی جزو ہوتی ہے جو پاکستانی ڈش ’’حلیم‘‘ سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں سلاد، چاول اور گندم بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’کبسہ‘‘ ، ’’بلیلہ‘‘، ’’بسبوسہ‘‘ اور بھنی ہوئی کلیجی بھی عرب بڑے شوق سے تناول فرماتے ہیں۔ اہل سعودیہ کی ایک بڑی اچھی عادت مسافروں کو روزہ افطار کروانے کی ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے کھجوروں، دہی، پانی اور دیگر لوازمات سے پُر مہر بند ڈبے راستوں میں یا مساجد میں کھڑے ہو کر مسافروں اور نمازیوں میں تقسیم کرتے ہیں یا پھر لمبے لمبے دسترخوان بچھا کر ہر ایک کو ان پر بیٹھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ تراویح پڑھنے کے بعد یہ لوگ سونے کی بجائے کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ترکی کے لوگ سحر و افطار کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ایک شخص کو بطور منادی رکھتے ہیں جو سلطنت عثمانیہ کا لباس پہن کر ڈرم بجاتا ہے۔ یہاں کی مساجد میں لائٹنگ اور روشنی کا وسیع انتظام کیا جاتا ہے۔ قمقمے ساری رات مساجد میں جگمگاتے رہتے ہیں۔ ایرانی لوگ سحر و افطار میں ایک خاص روٹی ’’نون‘‘ اور کھجوریں وغیرہ کھاتے ہیں۔ ملائیشین لوگ ایک خاص قسم کا پکوان ’’مورے‘‘ اور چائے کا استعمال کرتے ہیں۔اہل مصر رمضان المبارک باقاعدہ مناتے ہیں مثلا سحر و افطار میں توپ کا گولا داغا جاتا ہے، بچے اہل محلہ کے افراد کی فہرستیں جمع کرتے ہیں اور انھیں بروقت جگاتے ہیں۔ ایک عدد منادی ڈرم بجا بجا کر لوگوں کو متنبہ کرتا ہےیا پھر ہاتھوں میں نقارہ اور لالٹین لے کر ہر ایک گھر کے سامنے جا کر نظمیں وغیرہ پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ نقارہ بھی بجاتا ہے۔ یوں سحری کے وقت سارا شہر جاگ اٹھتا ہے۔ مصری لوگ قرآن مجید پڑھنے کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی مساجد رمضان المبارک میں تلاوت سے گونج اٹھتی ہیں۔ یہ لوگ ’’محشی ورق العنب‘‘ نامی ڈش کھاتے ہیں جو انگور کی بیل کے پتوں اور دیگر مسالہ جات کو ملا کر بنائی جاتی ہے۔ اہل عراق ’’تبسی باذنجان‘‘ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اہل فلسطین چاول اور مرغی کے گوشت پر مشتمل ’’مقلوبہ‘‘ خصوصی طور پر بناتے ہیں۔سوڈان والے رمضان المبارک میں ’’عصیدہ‘‘ اور ’’ملاح‘‘ نامی حلوے کا ذوق رکھتے ہیں جو مکھن، شہد اور گندم کے آٹے سے بنتے ہیں۔ تنزانیہ والے ’’قیمات‘‘ بناتے ہیں جس میں زعفران جیسی قیمتی چیز بھی شامل ہوتی ہے۔ یمن کے لوگ ’’فتّہ‘‘ بڑے شوق سے کھاتے ہیں جو شہد، گندم کے آٹے ، مکھن اور گھی وغیرہ سے ملا کر بنائی جاتی ہے۔ اماراتی لوگ ’’ثرید‘‘ بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ شامی لوگ آڑو سے بنے ہوئے پیسٹ ’’کمرالدین‘‘ کو پسند کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں سحری کے وقت دودھ میں بھگوئی ’’پھینیاں‘‘ بھی کھاتے ہیں۔ روس کے مفتی اعظم کے حکم پر سڑکوں پر دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔
اسکینڈے نیوین ممالک، فن لینڈ اور سویڈن کے مسلمان دنیا کا طویل ترین روزہ رکھتے ہیں۔ بعض اوقات روزے کا دورانیہ اکیس گھنٹے تک بھی چلا جاتا ہے۔ ان کے بالمقابل ارجنٹائن اور آسٹریلیا کے لوگ مختصر ترین دورانیے کا روزہ رکھتے ہیں جہاں فقط آٹھ یا نو گھنٹے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ روزہ افطاری کے سلسلے میں سب سے دلچسپ بات دوبئی کی ہے۔ یہاں ایک ہی عمارت میں رہنے والے لوگ الگ الگ اوقات میں روزہ رکھتے اور افطار کرتے ہیں۔ حتی کہ ان کی نمازوں کے اوقات بھی جدا جدا ہیں۔ یہ عمارت ہے ’’برج الخلیفہ‘‘۔ چوں کہ اوپر اور نیچے کی منزلوں میں بہت زیادہ تفاوت ہے، اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے اوقات بھی الگ الگ ہیں۔ اس لیے سحر و افطار کے اوقات بھی ایک جیسے نہیں۔ آپ کو ان میں سے کون سی جگہ جا کر روزہ افطار کرنا زیادہ اچھا لگے گا؟؟
***