171

سرِّ حادثہ کربلا

حکیم االامت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے اشعار کی دل نشین تشریح

از قلم: مولانا محمد ابوبکر عبداللہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ


اشعار!
ہر کہ پیماں با ھوالموجود بست,
گردنش از بند ہر معبود رست.
مؤمن از عشق است و عشق از مؤمنست,
عشق را ناممکن ما ممکن است.
عقل سفاک است و او سفاک تر,
پاک تر چالاک تر بیباک تر.
عقل در پیچاک اسباب و علل,
عشق چوگان باز میدان عمل.

ترجمہ:-جس نے بھی اللہ تعالی کی موجوگی کاعہدباندھا,اس کی گردن ہر باطل معبود سے آزاد ہوگئی.
مومن عشق سے اور عشق مومن سے ہے,عشق کے ہاں ناممکن بھی ممکن ہے.
عقل خون بہا دینےوالی ہے جبکہ عشق بے حد پاک,چالاک اور جری ہے.
عقل اسباب و علت کے پیچ و خم میں الجھی ہے اور عشق میدانِ عمل کا شہسوار ہے.

تشریح:-فرمایا جس شخص میں بعد از ایمان ذاتِ حق کی موجودگی کا احساس و تیقّن پیدا ہوگیا وہ تمام معبودانِ باطِلہ سے آزاد و بیزار ہوجاتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات سے بندگی و احتیاج کا تعلق ماسوا سے مستغنی کردیتا ہے
عرفانِ حق کے بعد ایک ہی ذات کا ہوجاناجو معبودِ برحق,خالق ومالک و رازقِ حقیقی ہے
اور اختراعی اصنام کی پرستش سے آزاد ہوجانا ہی اصل آزادی اور اسلامی حریت ہے
پھر فرمایا مومن کی اصل متاع عشق ہے نہ کہ عقل
عشق ہی وہ جذبہ ہےجو عمل پر ابھارتے ہوئے باری تعالی کی بارگاہ میں سرخروئی فراہم کرتا ہے
پس عشق پاکیزگی,چستی اور بےباکی لاتا ہے جبکہ عقل نری سفاکیت ہے جو مراد پانے تک یونہی بے مراد بنادیتی ہے
وجہ یہ ہے کہ عقل ہر بات پر علت و سبب کا تقاضا کرتی ہےتب تلک عشق اپنا کام کرگزرتا ہے
کیونکہ عشق میدان عمل کا شہسوار ہےجبکہ عقل “کیا” اور “کیوں” کے پیچ و خم میں الجھی پڑی ہے.


اشعار!
عشق صید از زور بازو افکند,
عقل مکار است و دامی میزند.
عقل را سرمایہ از بیم و شک است,
عشق را عزم و یقین لاینفک است.
آن کند تعمیر تا ویران کند,
این کند ویران کہ آبادان کند.
عقل چون باد است ارزان در جہان,
عشق کمیاب و بہای او گران.
عقل محکم از اساس چون و چند,
عشق عریان از لباس چون و چند.

ترجمہ:-عشق اپنی قوتِ بازو سے ہی شکار مارگراتاہے, عقل تو مکار ہے جوجال بچھاتی ہے.
خوف اور شک عقل کی متاع ہے,جبکہ عزم و یقین عشق کا لازمی جزو ہے.
عقل کی تعمیر نری ویرانی ہے,عشق کی ویرانی بھی تعمیر ہے.
عقل ہوا کی مانند ہے اورجہان میں بہت سستی ہے,عشق کمیاب اور بہت مہنگا ہے.
عقل “کیوں” اور “کتنا”کی بنیاد پہ کھڑی ہے,جبکہ عشق لباسِ چون وچند سے بے نیاز ہے.

تشریح:-فرمایا عشق میں روحانی تاثیر اس قدر مضبوط ومستحکم اور تیر بہدف ہوتی ہے کہ اپنی منزل ومراد کے لیے کسی دوسری قوت کی احتیاج نہیں رکھتا,
اور عقل کی گھٹی میں مکاری ہے جو نت نئے جال بچھا کر شکار کو حاصل کرتی ہے.
عقل کے دامن میں خوف اور شک کا سرمایہ ہے یہی کل پونجی ہے (عقل کے پرستار بھی خائف ومبہوت رہتے ہوئے شکوک و شبہات کے حصار میں مقید ہوتے ہیں نتیجتًا بے چینی و ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے)
اس کے برعکس عشق کے جمع پونجی عزم و یقین ہے جو تھکن کے باوجود عاشق کو نصف شب مُصلّے پہ لے آتی ہے,اور تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے.
فرمایا عقل کی حیثیت کو جان کر بھی اس کی تعمیر میں لگے رہنا اپنے لیے ایسی ویرانیاں جمع کرنا ہےجہاں کسی سرسبزے کی توقع نہیں,لیکن عشق صفتِ خضری سےمتصف ہےجہاں ہوگا شادابیاں لے آئے گاپس عشق کی ہمنیشی سودمند ہے,عشق آباد اور عقل برباد ہے
فرمایا عقل سستی ہے عشق مہنگا ہے یہی وجہ ہے کہ عشق (اور عاشقِ صادق) کمیاب ہے
عقل کی بنیاد میں “کیوں” اور “کتنا” کی بحث چلتی ہے جبکہ عشق ان سوالات سے ماورا ہوکرکے اطاعت کی منزل طے کرتا ہے


اشعار!
عقل می گوید کہ خود را پیش کن,
عشق گوید امتحان خویش کن.
عقل با غیر آشنا از اکتساب,
عشق از فضل است و با خود در حساب.
عقل گوید شاد شو آباد شو,
عشق گوید بندہ شو آزاد شو.
عشق را آرام جان حریت است,
ناقہ اش را ساربان حریت است.

ترجمہ:-عقل کہتی ہے “خود کو پیش کیجیے”
عشق کہتا ہے “اپنا امتحان لیجیے”
عقل کسب کے ذریعہ سے غیروں سے شناسائی پیداکرتی ہے,
عشق فضل ہے خود اپنا احتساب کرتاہے.
عقل کہتی ہے”شاد و آباد رہو”
عشق کہتا ہے”غلام بن کر آزادرہو”
عشق کی جان کے لیے آرام حُرّیّت ہے,
حرّیّت ہی عشق کی اونٹنی کی مُہارداں ہے.

تشریح:-فرمایا عقل کامزاج ہتھیار ڈال کر خود کو پیش کردینا ہے,حالات سے سہم کراپنے آپ کو زیر کرنا عقل کی عادت ہے,
عشق ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ خود کو امتحان کےلیے آمادہ کرتا ہے اور اپنی قوت کا لوہامنواتا ہے,نمرود کی آتش کے روبرو عقل ہوتی تو جھک جاتی,سمجھوتہ کرلیتی لیکن وہاں بصورت ابراھیم علیہ والصلوۃ والسلام عشق سینہ تانے کھڑا تھا,عقل نے ایسا کچھ سوچا بھی نہیں کہ عشق اپنا کام کرگیا اور سرفرازو سربلند ہوا,
پھر فرمایا عقل اپنا آپ ظاہر کرنے کے لیےمختلف عوامل اور حیلوں بہانوں سے غیروں کا سہارا لےکر شناسائی پیدا کرتی ہے,
عشق اللہ کا فضل ہے اپنی پہچان آپ رکھتاہےماوراء سے بے نیاز و بے احتیاج ہوکرکے اپنی باز پرس و احتساب خود کرتا ہے.
فرمایا عقل کی پکارہے “شاد رہو آباد رہو” عشق کا نعرہ ہے بندہ ہوکر آزاد رہو یعنی اللہ تعالی کی بندگی اور غلامی ہی اصل آزادی ہے یہ بات عقل کی عقل میں کہاں آسکتی ہے عقل تو کہتی ہے غلامی غلامی ہے آزادی آزادی ہے
عشق کہتا ہے حق تعالی کی اطاعت و احکام براداری اور حصار وہ قفس ہے کہ جس کا قیدی اصل حریت یعنی آزادی کو پالیتا ہے اور زمانے بھرکے باطل خداؤں سے چھٹکار حاصل کرتا ہے,
فرمایا حریت (غیروں سے بے نیاز ہوکر ایک اللہ کے ہوجانا) ہی عشق کی روح کا سکون ہے ورنہ عشق بے چین و بے آرام رہےگا
عشق کو ایک اونٹنی سے مشابہت دیتے ہوئے فرمایا!حریت عشق کی اونٹنی کی مہار اور شتربان ہےیعنی حریت حقیقی عشق حقیقی کے جال میں مقید ہے عشق نہ ہوا تو حریت نصیب نہ ہووے گی.


اشعار!
آں شنیدستی کہ ہنگامِ نبرد،
عقل باعقلِ ہوس پرور چہ کرد.
آں امامِ عاشقاں پورِبتول،
سروِ آزادِ زبستانِ رسول.
اللہ اللہ باٸے بسم اللہ پدر،
معنٸِ ”ذبحِِ عظیم“آمدپسر.
بہرِآں شہزادہِ خیرالمِلَل،
دوشِ ختمُ المُرسَلِیں نِعمَ الجَمَل.

ترجمہ:-کیاتم نےسناہے کہ جنگ میں عشق نے ہوس پَروَر عقل کے ساتھ کیاکیا.
وہ (عقل کوزیرکردینےوالے)عاشقوں کے امام سیدہ فاطمة الزہراؓ کےفرزندتھے اور رسول اللہﷺکے گلستاں کے آزاد “سرو” تھے.
اللہ اللہ!آپ کےوالدِگرامی کا مرتبہ بسم اللہ میں ”ب“ کاساہے اور بیٹا ”ذبحٍ عظیم“کےمعنی کامظہر ہے.
وہ ملت کے بہترین شہزادے ہیں جن کے واسطے ختم المرسلیںﷺکےکندھے بہترین اونٹ(سواری)کی حیثیت رکھتےتھے.

تشریح:-فرمایاجنگ کےایک موقع پر عشق نے ہوس کا خاصہ رکھنےوالی عقل کوشکستِ فاش دی اور عشق ہمیشہ کےلیےسرفرازوسربلندہوا
وہ عقل کو زیر کرنےوالے عاشقوں کےامام سیدةفاطمة الزہراؓ کے لختِ جگر اورسروَرِدوجہاں ﷺکےگلستان کے”سرو“یعنی انتہاٸی قدآور درخت امام حسین ابن علی المرتضٰی سلام اللہ علیہ ورضوانہ ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کےسامنےاپنےدل کےٹکڑوں کوبھوک اور پیاس کی شدت سےتڑپتےدیکھاپھران سب کےمقدس اجساد کوخاک وخون سے لت پت دیکھالیکن ایک جمعیت قلیلہ کے ساتھ قہروجبر،توپ وتفنگ،اور تخت وسلطنت کےسامنے سیسہ پلاٸی دیوار بن گٸےاور زمانےکوسبق دیاکہ جس نظام کی بنیاد ظلم وجبر پرہو اس کی اطاعت کا اعلانیہ انکار کرو،جونظام انسانی حریت وحقوق کا غارت گرہو اس کے خلاف عَلَم جہادِحق بلندکردو پھریہ ضروری نہیں کہ تمہارے پاس مادی قوت و شوکت کاوہ تمام سازوسامان بھی ہو جوظالموں کےپاس ہے کیونکہ حق وصداقت کی راہ نتاٸج سے بےپرواہ ہوتی ہےاورعشقِ حقیقی کی قوتِ قاہرہ باوجود ضعف وفقدانِ انصار کے بامراد وسرفراز کردیتی ہے اور ظلم کوباوجود عظمتِ دنیوی اور مادی کرّوفر کے ناکام بنادیتی ہے
فرمایا اللہ کی شان کریمی ہے کہ سیدناعلی المرتضٰی کا مقام بسم اللہ میں “ب”کی طرح ہےجیسے بسم اللہ کی ب پورےتسمیہ کامطلب سمجھادیتی ہےاسی طرح مولا علی سلام اللہ علیہ کی پاکیزہ زندگی بھی شجاعت،حریت اور غیرت واستقامت کے معنی سمجھادیتی ہے اسی طرح امام حسین سلام اللہ علیہ قرآن کی آیت کریمہ ذبحِِ عظیم کا معنوی مظہر ہیں جنہوں نے اللہ کے ذبیح سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے اسوة کو زندہ رکھتے ہوٸے گردن راہِ حق میں پیش کردی۔
فرمایا نبی مکرم ختم المرسلیں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں ملت کے بہترین شہزادےامام حسین سلام اللہ علیہ کا مقام یہ ہے کہ آپﷺ کے مبارک کندھےان کی سواری ہوتےتھے اور آپﷺنے فرمایا نعم الجمل جملکماونعم العدلان انتما
(المعجم الکبیرللطبرانی)


اشعار!
سرخ رو عشقِ غیوراز خون اُو,
شوخئِ ایں مصرع از مضمون او.

درمیان امت آں کیواں جنا
ہمچو حرفِ قل ھواللہ درکتاب.

موسی او فرعون شبیرویزید,
ایں دو قوت از حیات آید پدید.

زندہ حق از قوتِ شبیری است,
باطل آخرداغِ حسرت میری است.

ترجمہ:-غیرت مند عشق آپ کے خون سے سرخ رُو ہوا,
عشق کےمصرعے کی شوخی اسی مضمون سے ہے.
وہ ساتویں آسمان پر چمکنے والے ستارے کا مقام رکھنے والے امت کے درمیان ایسے ہیں جیسے قرآن مجید میں سورۃ الاخلاص ہے.
سیدناموسٰی علیہ السلام اور فرعون,سیدنا شبیر علیہ السلام اور یزید
حق وباطل کی یہ قوتیں حیات ہی سے ہیں.
قوتِ شبیری سے حق زندہ ہےاور باطل کا انجام حسرت کی بدترین موت ہے.

تشریح:-فرمایا عشق کا خاصہ غیرت مندی ہے امام حسین سلام اللہ علیہ کے مقدس خون کے سبب عشق کو سرخروئی و سرفرازی اور جہان میں اعلی و ارفع درجے کی قدرومنزلت ملی
اور اگر عشق ایک کلام ہوتو ہر کلام میں ایک شعر پورے کلام کی جان و روح ہوا کرتا ہے پس عشق کے مضمون کا تڑپا دینے والا مصرع (قصہ کربلا)ہے
فرمایا ساتویں آسمان پر چمکنے والے ستارے کامقام رکھنے والے امام حسین سلام اللہ علیہ کا مقام امت میں ایسا ہے جیسے قرآن میں قل ھواللہ(سورةاخلاص) کا مقام ہے
سورہ اخلاص کا مضمون پوری شریعت کی روح ہے مقام حسین سلام اللہ علیہ بھی امت کی جان،بنیاد اور روح ہیں قل ھواللہ میں بیان کردہ مضمون سے روگردانی کرنے والا ایمان باللہ کا عرفان حاصل نہیں کرسکتا اسی طرح امام حسین سے دوری غیرت و حریت کی بو سےبھی محروم کردیتی ہے
فرمایا حیات ہی سے ظہور پذیر ہوجانے والی دو قوتوں کا ہمیں سامنا ہے بطل کو دیکھیں تو فرعون ویزید ہیں جبکہ حق کو دیکھیں تو موسی علیہ السلام وامام حسین ہیں
حق قوت شبیری سے ہی زندہ و جاوید ہے شبیر کی قوت معبودانِ باطلہ سے بےپرواہی اور حق و صداقت سے شناسائی ہے،اسی قوت سے فقیری،قلندری و درویشی نصیب ہوتی ہے باقی رہا باطل سو اسکا مقدر ہی داغ حسرت لے کےنابود ہوجانا ہے لہذا اس کا نام تک باقی نہ رہے گا


اشعار!
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت،
حریت را زہر اندر کام ریخت.

خاست آں بر جلوہ خیر الامم،
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم.

برزمین کربلا بارید و رفت،
لالہ در ویرانہ ہا کارید ورفت.

تاقیامت قطع استبداد کرد،
موج خون او چمن ایجاد کرد۔

ترجمه:-جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو حریت کے حلق میں زہر انڈیل دیا،
تب بہترین امت کا بہترین جلوہ (امام حسین سلام اللہ علیہ)جیسے قبلہ کی طرف سے بارش کا بھرا ہوا بادل اُٹھتا(جلوہ گر ہوتا)ہے،
وہ بادل کربلا کی سر زمین پہ برسا اور آگے چل نکلا،ویرانے میں گلہائے لالہ کی کاشت کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا،
آپ نے قیامت تک ظلم جبر کی جڑیں کاٹ ڈالیں،اور آپ کے مقدس خون سے نیاچمن ایجاد ہوا۔

تشریح:-فرمایاخلافت نے قرآن سے اعراض کرلیا یعنی خلافت راشدہ اپنی مدت پوری کرچکی تھی اب رونقیں اور ایمان کی بہاریں اس درجہ نہ رہیں جس میں اصحاب محمد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے وجود مسعود سے خیر کے چشمے پھوٹتے تھے اور ایمان والے غیرت و حریت کے ساتھ جی رہے تھے،بلکہ اب مسند پر متمکن رہنے والےقرآن کے حکموں سے روگردانی اور سنت کے احیاء سے بے پرواہی برتنے لگے اسی فسق و ظلمت کی انتہانے حریت کو بھی پابند سلاسل کرلیا بلکہ اس کے حلق میں زہر انڈیل دیا اب دم توڑتی خلافت اور خونچکاں حریت کو نئی زندگی کی ضرورت تھی
ایسے تشویشناک حالات میں بہترین امت کے بہترین فرد امام حسین بن علی المرتضی سلام اللہ علیہ ایسے جلوہ گر ہوتے ہیں جیسے پانی سے بھرا ہوا بادل قبلہ کی جانب سے خیر کی بارش برسنے کی نوید لے کر آتا ہےوہ خیر،غیرت اور پیغام حریت لے کے آنے والا بادل امام حسین سلام اللہ علیہ کربلا کی سر زمین پہ کرب و بلا کی حالت میں خوب برسا اور عزیمت،ہدایت،خلافت و حریت کے گلہائے رنگا رنگ کا بیج بوتا چلاگیا،بظاہر حضرت امام سلام اللہ علیہ منصب خلافت پہ متمکن نہ ہوئے لیکن خلافت و حریت کی بنیاد امت کو سمجھا گئے جس کا فیض آج تک امت حاصل کررہی ہے
فرمایا آپ کے مقدس خون نے تاصبح قیامت قہر و جبر اور ظلم و ستم کی جڑیں کاٹ دیں
امت مسلمہ نے اپنی ڈیڑھ ہزار سالہ عمر میں جب بھی اسوہ حسینی اپنایا خیر ہی خیر پائی اور زمانے میں عروج حاصل کیا


اشعار!
بہرحق در خاک و خوں غلطیدہ است،
پس بنائے لا الہ گردیدہ است۔
مدعایش سلطنت بودے اگر،
خود نکردے باچنیں سامان سفر۔
دشمناں چوں ریگ صحرا لاتعد
دوستان او بہ یزداں ہم عدد۔
سر ابراھیم و اسماعیل بود،
یعنی آں اجمال را تفصیل بود۔
عزم او چوں کوہساراں استوار،
پائدار و تند و تیز وکامگار۔

ترجمہ:-حق کی خاطر آپ خون میں لت پت ہوگئے،(یوں ایک طرح سے) لاالہ الااللہ کی بنیاد بن گئے۔
اگر آپ کا مقصد اقتدار حاصل کرنا تھا تو اس قدر تھوڑے سامان کے ساتھ نہ جاتے۔
آپ کے دشمن صحرا کی ریت کی مانند لاتعداد تھے اور آپ کے دوست یزداں کے اعداد کے برابر تھے۔
آپ ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام کا بھید ہیں،یعنی آپ ان کے اجمال کی تفصیل ہیں۔
آپ کے ارادے پہاڑوں کی طرح مضبوط،پائیدار،تیزتر اور بامراد تھے۔

تشریح:-فرمایادین متین کی آبیاری کے سبب امام حسین سلام اللہ علیہ خاک و خون میں لت پت ہوگئے وہی روایت قائم رکھی جو ان کے نانا،امت کے قلب و جگر محمد مصطفی،احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی،معطرو منور دور سے چلتی آرہی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مبارک اصحاب نے جس جانفشانی سے دین احمدسے وفانبھائی، اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے امام حسین سلام اللہ علیہ نے بھی لاالہ الااللہ کی بنیادوں میں اپنا خون شامل کیا،
بد قسمتی سے بعض سگندل و ستم پروروں نے نے کہہ رکھا ہے امام عالی مقام سلطنت کے حصول کے لیے وہاں گئے ذرہ بھر عقلی طور بھی دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے
اگر نکلنے کا مقصد سلطنت کا حصول ہوتا تو اس قدر کم سامانی اور زن و طفلاں کے ساتھ کاہے کو جاتے،
جبکہ آپ کے دشمنوں کی تعداد ہزاروں میں تھی اور آپ کے انصار باوفا کی تعداد تو یزداں(بمعنی خدا)کے اعداد کے بقدر تھی،یعنی اصحاب کرب و بلا “72” تھے اعداد یوں ہیں
لفظ “یزداں”
ی=10
ز=7
د=4
ا=1
ن=50
پس جمع کرنے پر کل تعداد 72ہوگئی۔
فرمایاکہ حضرت امام عالی مقام اللہ کے خلیل ابراھیم علیہ السلام کا بھید ہیں جس سے ابراھیمی مزاج کے اسرار اہل بصیرت پر کھلتے ہیں
ابراھیم علیہ السلام کابے خطر آزمائشوں کو گلے لگالینا،آتش نمرود میں کود جانا،ودای غیر ذی زرع میں بال بچوں کو چھوڑ آنا،اپنے لخت جگر کو بحکم الٰہی ذبح کرنےپر بے دھڑک آمادہ ہو جانا یہ سب قربانیاں ایک ایسا متن اور اجمال ہے جس کی معنوی تشریح و تفصیل امام حسین سلام اللہ علیہ ہے کیونکہ دونوں کے ہاں مقصود احقاق حق اور رضائے الٰہی تھا،
اور اس کے پس پردہ امام سلام اللہ علیہ کےوہ ارادے جو پہاڑوں کی مثل مضبوط اور تیز تر تھے بالآخر آپ کے ارادے کامیاب ہوئے،یوں دین کی سربلندی اور فیضان نبوت کے پھیلاؤ کا سبب بن کر امت کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔


اشعار!
تیغ بہر عزت دین است و بست،
مقصد اوحفظ آئین است وبست۔
ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نیست،
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست۔
خون او تفسیر ایں اسرارکرد،
ملت خوابیدہ را بیدار کرد۔
تیغ لا چوں از میاں بیروں کشید،
از رگ ارباب باطل خوں کشید۔
نقش الااللہ بر صحرا نوشت،
سطر عنوان نجات مانوشت۔

ترجمہ :-تلوار دین کی ناموس کی حفاظت کرتی ہے اس کا مقصد فقط آئین اسلام کا تحفظ ہے،
مسلمان اللہ کے سوا کسی کی بندگی اختیار نہیں کرتا،اس کا سر کسی فرعون کے آگے نہیں جھکتا۔
آپ (امام حسین سلام اللہ علیہ) کے خون نے انہیں رازوں سے پردہ اٹھایا کر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا ہے۔
حضرت امام نے ” لا “کی تلوار میان سے نکال کر باطل کی رگوں سے خون بہادیا۔
الااللہکا نقش صحرا کی سرزمین پر تحریر فرماکرہماری نجات کے عنوان کی سطر رقم کردی۔

تشریح :-فرمایا تلوار سے تو فقط اسلامی آئین کے تحفظ کا کام لیا گیا،اسی سے دینی ساخت مامون و محفوظ ہوئی،
“باقی رہا تلوار کی بابت تشدد کا تصور تو یہ بات عیاں ہے ایسی فکر اعداء دین ہی نے قائم کی ہےکبھی جہاد بارے ہفوات تو کبھی حدود اسلامی پر تنقید،جبکہ تلوار کا استعمال اگرجہادکےلیے کیا گیا تو فقط اسلامی تصورات و احکامات کی پہراداری کی گئی،اور یہ انتہائی منصفانہ بات ہے،دنیا میں بھی ہر آئین کے تحفظ کی کچھ صورتیں ہواکرتی ہیں،اور تلواراگر بطور حدود و قصاص استعمال ہو تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بدن پر کسی بیماری کے سبب زخم آجائے پھر خراب اس قدر ہو کہ کیڑے پڑ جائے اور خدشہ ہو کہ زخم زدہ حصہ صحت مند وجود کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے تو معالج فوری طور خراب حصے کو کاٹنے کی تجویز دے گا اب یہاں معالج کو کوئی بھی سنگدل،ستمگر یا متشدد نہیں بولے گا بلکہ اس کا احسان مند ہوگا،پس خوب سمجھ لو کہ اسلامی حدودوقیود کا بھی یہی حال ہے،جن کے ذریعے معاشرے کے ننانوے اعشاریہ نو فیصد حصے کو پاک صاف اور پر امن بنایا جاتا ہے،اسی بنا پر اقوام عالم کو اسلامی نصاب و نظام کا شکرگزار و احسان مند ہونا چاہئے”
ایمان باللہ وبالاسلام مضبوط ہونے پر مومن اللہ کے سوا کسی اور نظام کی بندگی یا ماسوا اللہ کی حاکمیت قطعی طور قبول نہیں کرتا ہزارابلیس و فروعون آجائیں اور ہزار طور آزمائشیں کرلیں لیکن مومن کےاندر بلالی روح،صہیبی جذبے،فاروقی ترجیح اور حیدری ضرب اپنی شان و شوکت سے قائم ہے جو بأذن اللہ کبھی ماند نہ پڑے گی،
یہی وہ اسرار ہیں جن کی تشریح و توضیح امام حسین سلام اللہ علیہ کی شہادت نے کی اور سوئی ملت کو بیدار کردیا آپ نے لاکی تلوار سے ایسی کاری ضرب لگائی کہ باطل رگوں کا لہونچوڑ کر رکھ دیا اور ماسوا اللہ کسی کی حاکمیت قبول نہ کی،آپ نے کرب و بلاکی صحرائی سرزمین پہ اثباتِ حاکمِ برحق یعنی الااللہکا ایسا نقش قائم کیاکہ امت کو نجات کانسخہ عطا کردیا وہ یہ کہ اگر اللہ کی زمین پر کسی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھنا ہے تو فقط اس شرط پر کہ!
“کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کولوح و قلم تیرے ہیں”
جو حاکمِ حقیقی و برحق کا وفادار نہیں ہم اس کے وفادار نہیں،
یہی وہ آفرینی سطور ہے ہیں جو حضرت امام نے کرب و بلامیں نقش کرکے امت کو نجات کی راہ دکھائی۔


اشعار!
رمزِ قرآں از حسین آموختیم،
زآتشِ او شعلہ ہا اندوختیم۔
شوکتِ شام و فرِ بغداد رفت،
سطوتِ غرناطہ ہم از یاد رفت۔
تارِ مااز زخمہ اش لرزاں ہنوز،
تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز۔
اے صبا اے پیک دور افتادگاں،
اشکِ ما برخاکِ پاکِ او رساں۔

ترجمہ :-ہم نے رموزِقران امام حسین سلام اللہ علیہ سے سیکھے ہیں،ہم نے ان کی بھڑکتی ہوئی آگ سے شعلے اکھٹے کیے،
شام کی شان و شوکت اور بغداد کا رعب جاتا رہا،غرناطہ کی عظمت بھی یادوں سے جاتی رہی،
ابھی تک ہماری زندگی کا مضراب ان کے ساز سے لرزاں ہے،حضرت امام سلام اللہ علیہ کی تکبیر ہمارے ایمان کی تازگی ہے،
اے بادِ صبا اور اے دور بسنے والوں کی پیغام رساں ہمارے اشکوں کو حضرت امام سلام اللہ علیہ کی پاک تربت پر پہنچادے۔

تشریح :-فرمایا ہم نے قرآنی رموز حضرت امام سلام اللہ علیہ سے سیکھے،ہم نے سیکھا جب نظام میں حق تعالیٰ کی خوشنودی مقدم نہ ہو اور ایسے لوگ تخت سلطنت پر متمکن ہوں جن کی ترجیحات میں احیاء دین متین غالب نہ ہو پس ایسے نظام کو قبول نہ کیا جائے،کم سے کم ایک ایسی دیوار بناجائے جو بعد والوں کے حجت و سند ہوسکے،قرآن ہمیں یہ رمز سکھاتا ہے کہ “أَنَّ الاَرضَ یُورِثُھا عِبادِیَ الصٰلِحُون”یعنی زمین کے وارث میرے صالح بندے ہی ہوسکتے ہیں، حضرت امام نے یہی سکھایا اگر اقتدار کی زمامِ کار صالح شخص کے ہاتھ نہ ہو اسے قبول نہ کیا جائے،تاکہ زمین پر اعلاء کلمةاللہ اور دین کے احیاء کی ترجیحات غالب رہیں، یہی حضرت امام کی سکھائی ہوئی “اسلامی حریت” ہے کہ جس کی آگ سے ہم نے بھی کچھ شعلے جمع کیے اور آج ہمارے اہداف میں اعلاء کلمة اللہ شامل ہے،
یہی حریت جب کمزور پڑی تو اِس کے بھیانک نتائج کچھ یوں ہمیں بھگتنا پڑے کہ اب ملکِ شام جو کہ انبیاء کی سرزمین ہے جس کے فیض نے عالم انسانیت کی رگوں میں لاالہ کی دھاک بٹھائی کا کوئی کروفر باقی نہ رہا،
بغداد جو خصوصًا عباسی دور میں اسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت عالمی مرکز رہا کا دبدبہ بھی جاتا رہا،
غرناطہ جہاں ہسپانیہ کی آخری امارت اسلامیہ قائم تھی کی عظمتیں بھی جاتی رہیں اور تاریخ نے دیکھا کس طرح ابو عبداللہ نے ازابیلا اور فرڈینینڈ کے سامنے ہتھیار ڈالے جو اس امت کا عظیم سانحہ ہے جس نے برسوں سے ملت کو بے چین کررکھا ہے اور آج الحمراء کی چیخیں اہل فکر کوجھنجھوڑ کر امام حسین سلام اللہ علیہ کی سکھائی ہوئی اسلامی حریت کو دہرانے کا تقاضا کررہی ہیں،
بہر حال آج بھی ملت کا تذبذب اور حریت کی فکر اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شورش و ہنگامہ اورسوزو سازآپ سلام اللہ علیہ ہی کے مضراب سے چھڑا ہوا ہے،
پس اے صبح کی ہوا! اور اے دور بسنے والوں کے پیغام کو لے جانے والی! آج ہمارے اشکوں کو لے جا اور حضرت امام کی پاک تربت پر پہنچادے اور بتادے کہ ہم ان عقیدت مند ان کی محبت کو اپنے لیے ذخیرہ آخرت اور ذریعہ نجات سمجھتے ہیں یقینا آپ امت کے عظیم محسن اور ملت کے شہزادے ہیں،آپ کا ذکر تاقیامِ قیامت گونجتا رہے گا


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں