112

سوشل میڈیا وار/تحریر/مفتی امیر معاویہ

آج میں سوشل میڈیا کے متعلق سوچ رہا تھا ، تنہائی تھی اور میں تھا ، کئی پرت کھلتے چلے گئے نہ جانے میں غلط ہوں یا صحیح آپ ہی بتائیے گا ۔۔ اگر غلط ہوں تو اصلاح کیجئے گا اور صحیح ہو ں تو رائے دیجئے گا ۔۔
فیس بک ہو ٹویٹر ہو لنکڈ ان یا کوئی اور سوشل سائٹس ۔۔ یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت کام کر رہے ہیں ۔۔ اگر آپ دس سال پیچھے جائیں تو یہاں صرف لڑکے اور لڑکی کی باہمی دوستی کا Concept تھا اسی لئے آپسی تصویروں کا تبادلہ ہوتا اور لطائف شئیر ہوتے ۔۔ ایک دوسرے کو Greeting بھیجی جاتیں پھر دھیرے دھیرے دور بدلا ۔۔ لوگوں نے اسے بھی تعلق برائے تعلق کے تحت استعمال کرنا شروع کردیا ، ان جان لوگوں سے تعلق کے واقعات نے نت نئی دنیا کو جنم دیا جہاں رابطے بڑھے ، کاروبار نے عروج پکڑا اور آہستہ آہستہ یہ سوشل سائٹس گلیوں سے نکلتے ہوئے سیاسی راہداریوں تک جا پہنچیں ۔۔ سب سے پہلے سپر سٹارز ، فلم سٹارز اور پھر سیاستدان ۔۔ کھیلوں کے فروغ سے فلم بینی تک سیاست سے مذہب تک لبرل ازم سے قدامت پرستی تک ان سائٹس نے ہر موضوع ، شخصیت ، عنوان اور ماحول کا احاطہ کرلیا ۔۔ مزاج ، رنگ ، جنس ، شوق ، پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے تمام رجحانات کو محفوظ رکھتے ہوئے عام آدمی سے خاص آدمی تک نفسیات کی ایک ایسی گیم رچادی گئی جس میں سبھی الجھ گئے ۔۔
کچھ بھی پرسنل نہ رہا ۔۔ اپنا ایک ذاتی پلیٹ فارم جسے ٹائم لائن کا نام دیا گیا مہیا کرکے اظہار کی آزادی کا چورن تھما دیا گیا ۔۔ جو چاہو لکھو ، جو چاہو بھیجو ، جو چاہو شئیر کرو ۔۔ تبھی اس نفسیاتی انقلاب نے ہمارے ذہنوں کو تسخیر کر لیا ۔۔ معاشرتی اثرات ، گھروں کے جھگڑے ، دوستی ، تعلق سب کچھ ہماری انگلی کی پوروں سے نکل کر ٹیکنالوجی کے اس پلیٹ فارم پہ بکھرتا چلا گیا ۔
انسانی جبلت نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ، کلاس روم سے بیڈ روم تک ہر کہانی پبلک میں عام ہونے لگی ، کیمرے نے کام دکھایا اور سب کچھ سامنے آگیا ۔۔
فلم سٹارز نے اپنے پیجز کو فروغ دیا ، کھلاڑیوں نے فین جمع کئے ، سیاستدانوں نے اکاؤنٹ بنائے اور دھیرے دھیرے دماغوں پہ قبضہ ہوتا چلا گیا ۔۔
اور آج ہمارے ذہن ، سوچ ، فکر ، دین ، سیاست اور زندگی کے ہر شعبے پہ ان سوشل سائٹس کا کنٹرول ہے ۔ ایک طرح سے ہم اس کے حصار میں قید ہیں ، بغیر سوشل میڈیا کے ہم خود کو نامکمل سمجھتے ہیں اور اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایک سوشل وار چھڑ چکی ہے ۔۔ دنیا کے کسی کونے سے چھوٹا سا ٹویٹ آتا ہے اور گھنٹوں موضوع بحث رہتا ہے ، ایک پوسٹ آتی ہے اور منٹوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔۔ سوشل میڈیائی ہتھیار کے ذریعے ہماری سوچ کو رخ دیا جاتا ہے ہمیں مختلف ذرائع سے اکسا کر شہہ دی جاتی ہے ، مخالفت یا موافقت کے لئے رائے عامہ تیار ہوتی ہے اور باہمی تنازعات میں الجھا کر آن لائن ہمارا تماشا دیکھا جارہا ہوتا ہے ۔۔ مولوی سے مولوی لڑتا ہے ، سیاسی حریف ایک دوسرے کے گریبان کھینچتے ہیں ، لبرل قدامت کو لتاڑتا ہے اور پھر یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔ ہمیں ایکٹو رکھنے کے لئے ایشو اٹھائے جاتے ہیں، موضوع سخن دیا جاتا ہے ، پرکشش عنوانات اچھا لے جاتے ہیں اور ہم کچھ دن اسی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں جب معاملہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے نیا موضوع تیار ہوتا ہے ۔۔ کسی کی شرٹ کو کسی کی نیلی آنکھوں کو کسی چائے والے کو اور کسی منفرد واقعہ کو بنیاد بنا کر ہمیں پھر ایک نئے موضوع میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔۔
مشاہدہ سے ثابت ہے کہ ان سوشل سائٹس پہ تصویر امیج اور فوٹیج میں ایڈیٹنگ شروع کیا ہوئی بڑھتی چلی گئی ، عزت دار فیملیز کی خواتین کو بے عزت کیا جانے لگا ، تصویر سے کپڑے ہٹا کر برہنہ پا دکھا دینا معمول بن گیا ، اپنے مخالف کو کیا سے کیا کہا جانے لگا۔۔
اور یہی وجہ ہے کہ آج کل‘ چوتیاپا‘ کتے خوانی ‘ بوسڑی کے ‘ فلاں کے بچے ‘ چکلہ ‘ حرام زادہ ۔۔ گویا وہ تمام گالیاں جو ایک باشعور کبھی بھی نہ سننا چاہے گا سوشل میڈیا پہ وائرل ہوگئی ہیں ۔۔اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب اور خطرناک ہوتا جارہا ہے ، یہ میٹھا زہر ہماری نس نس میں پھیل چکا ہے اور کچھ عرصے سے اس کا رخ بدل چکا ہے ، فحش لطائف کو ترویج مل رہی ہے گالی کو مزاج کا حصہ بنایا جارہا ہے ، اچھے بھلے دین دار قسم کے لوگ فحاشی کی طرف جانے لگے ہیں ، ذہن بدلا جارہا ہے اور سوچ سے گناہ کے تصور تک کو کھرچنے کی کوششیں جاری و ساری ہیں ۔۔
میں مانتا ہوں سوشل دنیا سے جڑ کر ہم نے واقعی ترقی کی ہے ، کاروبار کے نت نئے زاوئیے سامنے آئے ہیں ، سپلائیر کو گاہک ملا ہے اور گاہک کو معیاری پروڈکٹ ۔۔ مڈل مین کے کردار کو محدود کرتے ہوئے سوشل میڈیا نے فیکٹری سے ڈائریکٹ ورکر کو جوڑ دیا ہے ۔۔ لیکن دیکھا جائے تو کچھ نقصان بھی ہوئے ہیں ۔۔قوت خرید سے بڑھ کر خریداری ہونے لگی ہے، بغیر ضرورت اشیاء نظر آتی ہیں تو چکا چوند سے شوق بڑھتا ہے اور جائز ناجائز ذرائع استعمال کرکے خریدنے کی لت لگنے لگی ہے۔
شرم وحیا جاتا رہا ہے لفظ Friend کو اتنا عام کردیا گیا ہے کہ بیٹی مما سے کہتی ہے “ امی آج میرے پانچ ہزار فرینڈ پورے ہوگئے “ ہر ایک سے بات معمول بن گیا ہے۔۔
ماحول مخلوط دیر سے بنتا مگر سوشل میڈیا نے اختلاط مرد وزن کا نظریہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔۔ آپس میں گھلنے ملنے لگ گئے ہیں۔۔
اسی دوران کئی برے واقعات بھی رونما ہوئے ، Scammers نے بھی اودھم مچایا ، کئی لوگوں کی کروڑوں کی انویسٹمنٹ ہاتھوں سے یوں گئی کہ سر پیٹتے رہ گئے ۔۔لکھا ہوا کس قدر صحیح ہے کوئی Check & Balance نہیں ، کہیں یہ افواہ نہ ہو ، ناپنے کا کوئی آلہ نہیں ، کوئی مانیٹرنگ نہیں ۔۔ ماں نے کچن سے بیٹی نے کالج سے بیٹے نے نیٹ کیفے سے بابا نے فیکٹری سے ورکر نے اپنے پوائنٹ سے تبصرہ کیا ، گالی دی ہو ، بہتان باندھا ہو ، کسی کی پگڑی اچھا لی ہو کوئی پرواہ نہیں ۔۔ رپورٹ کا ہلکا سا سسٹم بنایا سوشل کرائم کا قانون بھی کاغذی حد تک برقرار رہا مگر اس سے بدلا کچھ نہیں ۔
تمام فوائد اپنی جگہ مگر سوچنے کی بات ہے کہ لکھنے والا گالی کو گالی نہیں سمجھ رہا ، بولنے والے نے گالی کو آسان بنا دیا ہے ، چار حرف ‘ ل ‘ سے گندی گالی ، باتوں باتوں میں فحش قسم کا مذاق اچھے بھلے دیندار لوگوں میں نظر آنے لگ گیا ہے یہ سب کیا ہے ؟؟
ایک ایسا نشہ جس کے ہم دیوانے بن چکے اور آب لائیو سیشن کے ذریعے ہماری پرائیویسی کو بھی ہم سے چھینا جارہا ہے ، ہمارے اہداف محفوظ ہو رہے ہیں ،، ساری تاریخ مرتب ہو رہی ہے اور لڑھکتے ہوئے اس میں دھنستے چلے جارہے ہیں “ کھوتی کے بچو “ کو گالی ہی نہیں سمجھا جاتا ، پین دی سری کو فروغ دیا پیش ٹیگ سے باقاعدہ پروموٹ کرکے ہمیں کس خطرناک وار کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں