خلافت میں جتنی شہرت حجاج بن یوسف کو ملی شاید ہی کسی اور کی ملی ہولیکن یہ شہرت نیکی و بھلائی کی نہیں بلکہ سیاست و قہر کی تھی ۔ تاریخ اسلام میں حجاج بن یوسف کا قہر ضرب المثل ہو گیا ۔ حجاج وہی شخص تھا جس نے یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد اموی سلطنت کی کھوکھلی بنیا دوں کو اپنی بے پناہ تلوار اور بے روک سفاکی سے از سر نو مستحکم کیا ۔کہتے ہیں کہ عراق شروع ہی سے شورش پسند قبائل کا مرکز تھا ۔ یہاں کی سیاسی بے چینی کسی طرح ختم نہ ہوتی تھی ۔حتیٰ کہ ایک حکمران کے بعد دوسرا حکمران بھی تبدیل کیا جاتا رہا لیکن وہ بےبس ہو کر لوٹ جا تاجبکہ حجاج کی تلوار نے ایک ہی وار میں ساری شورش ختم کردی ۔ یہاں تک کہ اس دور کے لوگوں کو بھی اس بات پر تعجب ہوا ۔ اس سلسلہ میں قاسم بن سلام کہا کرتے تھے :’’کوفہ والوں کی خود داری اور نخوت اب کیا ہو گئی ؟ انہوں نے امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا ،حضرت حسین بن علی کا سر کاٹا ،مختار جیسا صاحب جبروت ہلاک کر ڈالا ۔مگر اس بد صورت ملعون ! (حجاج) کے سامنے بالکل ذلیل ہو کر رہ گئے ۔ کوفہ میں ایک لاکھ عرب موجود ہیں مگر یہ خبیث بارہ سوار لے کر آ یا اور سب کو غلام بنا ڈالا ۔ ‘‘حجاج کی تلوار جس درجہ سفاک تھی ،اتنی ہی اس کی زبان بلیغ تھی ۔ ان کا یہ خطبہ خطیبانہ بلاغت اور عربی اد ب کا بے نظیر نمونہ ہے ۔’’ میں دیکھتا ہوں کہ نظریں اٹھی ہوئی ہیں ،گردنیں اونچی ہو رہی ہیں ، سروں کی فصلیں پک چکی ہیں اور کٹائی کا وقت آ گیا ہے۔میری نظریں وہ خون دیکھ رہی ہیں جو پگڑیوں اور داڑھیوں کے درمیان بہہ رہا ہے ۔ ‘‘امت مسلمہ کے اس ظالم وفاسق حجاج بن یوسف ثقفی نے جیسا کہا تھا ویسا ہی کردکھایا ۔اس نے اپنی شقاوت قلبی سے امت کے جلیل القدر مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کروایا۔ بڑے بڑے اکابر صحابہ جیسے عبداللہ بن زبیر ، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کو جہاں شہید کروایا وہیں اس ظالم نے حضرت سعید بن جبیر جیسے عظیم فقیہ مدینہ کو بھی شہید کروادیا۔ان کے علاوہ بے شمار صحابہ رضوان اللہ عنہم کے ہاتھوں پر سیسے کی مہریں لگا دیں ۔اس وقت بنی امیہ کے لئے سب سے زیادہ خطرہ سیدنا عبداللہ بن زبیر تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر کی حکومت کا مر کز مکہ مکرمہ تھا اور اس کی سرحدو ںکا دائرہ کار شام کی سرحدوں تک پھیل چکا تھا ۔حجاج بن یوسف نے انہیں شہید کرنے کے لئے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کیا۔خانہ کعبہ پر منجنیقوں سے حملہ کیا یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ آگ لگادی ۔ شہادت کے بعدحضرت عبداللہ بن زبیر کی لاش تین دن تک ایک چوک میں لٹکتی رہی ۔ابن ابی ملکیہ کا بیان ہے کہ دوارن غسل دیکھا گیا کہ لاش کا ایک ایک جوڑ الگ ہو چکا تھا ۔ہم ایک حصہ ٔ بدن کو غسل دے کر کفن میں لپیٹتے جاتے تھے ۔جب سارے اعضاء کا غسل ہو چکا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے لخت جگر کے لئے دعائے مغفرت کی ۔پھر ہم نے جنازہ پڑھ کر حضرت ابن زبیر کو مقام حجون میں سپرد خاک کردیا ۔ایک دفعہ بیت اللہ میں ظالم حجاج خطبہ دے رہا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ دشمن خدا نے حرام کو حلال بنالیا، خانہ خدا کو برباد کیا اور اولیاء اللہ کو شہید کیا۔ حجاج نے اپنے خطبے میں یہ بھی کہا تھا کہ عبداللہ بن زبیر نے کلام اللہ کو تبدیل کردیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس کے جواب میں فرمایا توجھوٹ بکتا ہے نہ ابن زبیر کلام اللہ کو بدل سکتا ہے اور نہ تُو۔ حجاج نے کہا تُو بوڑھا کھوسٹ ہےحضرت عبداللہ نے فرمایا اگر تو لوٹ کر جوان بن جائے تو بھی میں اسی طرح رہوں گا۔ اس واقعے کے بعد حجاج بن یوسف نے ایک آدمی کو آپؓ کو شہید کرنے کے لیے تیار کیا۔ اس نے زہرمِلا تیر عین اس وقت آپ کے پاؤں کے آخری حصے میں مارا جب آپؓ طواف بیت اللہ میں مصروف تھے۔ چنانچہ اس تیر کے زہر سے آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔حجاج اور حضرت سعید بن جبیر کے درمیان ایک مکالمہ ملاحظہ کریں جو حضرت سعید بن جبیر کی شہادت سے پہلے ہوا تھا۔طبقات ابن سعد اور تاریخ ابن خلکان وغیرہ میں یہ لکھا ہے حجاج نے حضرت سعید بن جبیر سے یہ پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟سعید بن جبیر نے جواب دیا۔ ’’سعید بن جبیر۔‘‘حجاج نے کہا: ’’نہیں نہیں بلکہ اس کے برعکس تمہارا نام شقی بن کسیر ہے۔‘‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’میری ماں نے میرا نام سعید رکھا اور میری ماں تم سے زیادہ میرے نام سے واقف تھی۔‘‘حجاج نے کہا۔ ’’تیری ماں بھی بدبخت اور تو بھی بدبخت ہے۔‘ ‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’غیب کا جاننے والا اللہ ہے اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘حجاج نے کہا۔ ’’میں تمہاری دنیا کو دہکتی ہوئی آگ سے بدل دوں گا ۔‘‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’اگر مجھ کو یقین ہوتا کہ یہ تیرے اختیار میں ہے تو میں تجھ کو معبود بنالیتا۔‘‘اس قسم کے اور سوالات کے بعد حجاج نے کہا۔ ’’میں تمہیں قتل کروں گا تو تم کس طرح قتل ہونا پسند کرتے ہو؟‘‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’اگر تو مجھے بغیر خطا اور قصور کے قتل کرے گا تو جس طرح مجھے قتل کرے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ تجھے آخرت میں قتل کرے گا۔‘‘حجاج نے کہا۔ ’’اگر تم چاہو تو میں تمہارے قتل کو معاف کردوں۔‘‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’اگر تم معاف کرو گے تو وہ خدا کی طرف سے ہوگا تمہارا احسان نہیں ہوگا۔ ‘‘حجاج نے کہا۔ ’’میں قتل کروں گا۔‘‘سیدنا سعید بن جبیر نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرا ایک وقت مقرر کردیا ہے اس وقت تک پہنچنا ضروری ہے اس کے بعد اگر میرا وقت آگیا ہے تو پھر وہ ایک فیصل شدہ امر ہے، اس سے مفر نہیں ہے اور اگر عافیت مقدر ہے تو وہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘اس گفتگو کے بعد حجاج نے جلاد کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم سُن کر حاضرین میں سے ایک شخص رونے لگا۔ حضرت ابن جبیر نے اس سے پوچھا تم روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا آپ کے قتل پر۔فرمایا: اس کے لیے رونے کی ضرورت نہیں۔ یہ واقعہ تو خدا کے علم میں پہلے سے موجود تھا۔ پھر یہ آیت تلاوت کی:’’زمین میں جو مصیبتیں آتی ہیں یا تمہارے نفسوں کو پہنچتی ہیں قبل اس کے کہ ہم ان کو پیدا کریں کتاب میں لکھی ہیں۔‘‘(الحدید: ۲۲)مقتل میں لے جانے سے پہلے اپنے صاحب زادے کو دیکھنے کے لیے بلایا وہ آئے تو وہ بھی رونے لگے۔ آپ نے ان سے فرمایا تم روتے کیوں ہو، ستاون (۵۷) سال کے بعد تمہارے باپ کی زندگی تھی ہی نہیں پھر رونے کا کون سا مقام ہے۔غرض نہایت صبر و استقلال کے ساتھ مقتل کی طرف چلے۔ حجاج کو اطلاع دی گئی کہ اس وقت بھی حضرت سعید بن جبیر کے لبوں پر ہنسی ہے۔ اس نے واپس بُلا کر پوچھا کہ تم کس بات پر ہنس رہے ہو؟ فرمایا: ’’اللہ کے مقابلے میں تمہاری جرأتوں پر اور تمہارے مقابلے میں اس کے حلم پر۔‘‘یہ سُن کر حجاج نے اپنے سامنے ہی قتل کا چمڑا بچھانے کا حکم دیا۔ چمڑا بچھائے جانے کے بعد حجاج نے قتل کا اشارہ کیا۔ اس وقت سعید بن جبیر نے کہا کہ اتنی مہلت دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ حجاج نے حکم دیا کہ سر کے بل جھکادو۔ یہ سُن کر حضرت سعید بن جبیر نے راہ تسلیم و رضا میں خود سر کو خم کردیا اور یہ آیت پڑھی:’’ اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور پھر اسی میں سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘(طٰہٰ:۵۵)اور کلمۂ شہادت پڑھ کر بارگاہ ایزدی میں دعا کی کہ الہی! میرے قتل کے بعد پھر اس کو کسی کے قتل پر قادر نہ کرنا اور اسی طرح اس کو کسی پر مسلّط نہ کرنا۔جلاد شمشیر برہنہ لیے موجود تھا۔ حجاج کے حکم سے دفعتاً تلوار چمکی اور کشتۂ حق کا سر زمین پر تڑپنے لگا۔ زمین پر گرنے کے بعد آخری کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ منہ سے نکلا۔اس سلسلہ میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم سے عام قتل ہونے والوں کے جسم سے زیادہ خون نکلا تھا۔ حجاج نے اطباء کو بلا کر اس کا سبب دریافت کیا کہ اور مقتولوں کے جسم سے خون بہت کم نکلتا ہے اور ان کے جسم سے خون کے فوارے سے رواں تھے۔ اطباء نے جواب دیا کہ خون روح کے تابع ہے، جن لوگوں کو پہلے قتل کیا گیا ان کی روح ان کے قتل سے پہلے ہی اس کے حکم ہی سے تحلیل ہوچکی تھی اور سیدنا سعید بن جبیر کی روح پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔سیدنا سعید بن جبیر کی آخری دعا بے اثر نہ رہی، ان کا خونِ ناحق رنگ لایا چنانچہ ان کے شہید ہوجانے کے بعد ہی حجاج سخت دماغی امراض اور توہم میں مبتلا ہوکر چند دنوں کے بعد بستر مرگ پر جا پہنچا۔ بیماری کی حالت میں اسے نظر آتا تھا کہ سیدنا سعید بن جبیر اپنے کپڑے سمیٹے ہوئے ان سے پوچھ رہے ہیں کہ اللہ کے دشمن! تو نے مجھے کس جرم میں قتل کیا۔ یہ خواب پریشاں دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھتا تھا اور کہتا تھا مجھے سعید سے کیا واسطہ ۔ اسی مجنونانہ حالت میں فوت ہوگیا۔ اس طرح حضرت سعید بن جبیر کے قتل کے بعد اسے دوسرے آدمیوں کے قتل کا موقع نہ مل سکا۔ اس عہد کے عرفاء و صلحاء حجاج کو خدا کا قہر و عذاب خیال کرتے تھے ۔ کہتے ہیں جنگوں کے علاوہ حالت امن میں اس نے ایک لاکھ پچیس ہزار آ دمی قتل کئے تھے ۔( عقد الفرید ،البیان والتین وغیرہ )حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ خدا سے تضرع و زاری کرو ۔ یہی سبب ہے کہ جوں ہی اس کی موت کی خبر سنی گئی ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سجدے میں گر پڑے ۔ بے اختیار ان کی زبانوں سے نکل گیا کہ اس امت کا فرعون مر گیا ۔اب دیکھنا ہے کہ اس جابر و قہرمان انسان نے موت کا مقابلہ کیسے کیا ۔ جس نے ہزاروں کی تعداد میں انسانوں کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارا تھا وہ خود کیسے اترا ؟ عراق پر 20 برس حکومت کرنے کے بعد 54برس کی عمر میں حجاج بیمار ہوا ۔ اس کے معدے میں بے شمار کیڑے پیدا ہو گئے تھے اور جسم کو اتنی سخت سردی لگتی تھی کہ آ گ کی بہت سے انگیٹھیاں بدن سے لگا کر رکھ دی جاتی تھیں پھر بھی سردی میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی ۔جب زندگی سے نا امیدی ہو گئی تو حجاج نے گھر والوں سے کہاکہ مجھے بٹھا دو اور لوگوں کو جمع کرو۔لوگ آ ئے تو اس نے حسب عادت ایک بلیغ تقریر کی ۔ موت اور سختیوں کاذکر کیا۔ قبر اور اس کی تنہائی کا بیان کیا ۔ دنیا اور اس کی بے ثباتی یا د کی ۔آخرت اور اس کی ہو لناکیوں کی تشریح کی ۔اپنے گناہوں اور ظلموں کا اعتراف کیا ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ موقع اس قدر عبرت انگیز تھا کہ مجلس میں کوئی بھی اپنے آنسو روک نہ سکا ۔ اس کے بعد اسنے اپنا کاتب طلب کیا اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کو حسب ذیل خط لکھوا یا:’’اما بعد ! میں تمہاری بکریاں چراتا تھا ،ایک خیر خواہ گلہ بان کی طرح اپنے آقا کے گلے کی حفاظت کرتا تھا ،اچانک شیر آیا ۔ گلہ بان کو طمانچہ مارااور چراگاہ خراب کر ڈالی ۔ آج تیرے غلام پر وہ مصیبت نازل ہوئی ہے جو ایوب صابر علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ۔ مجھے امید ہے کہ جبار و قہار اس طرح اپنے بندے کی خطائیں بخشنا اور گناہ دھونا چاہتے ہیں ۔ ‘‘حضرت حسن بصری ؒ عیادت کو آئے تو حجاج نے ان سے اپنی تکلیفوں کا شکوہ کیا۔ حضرت حسن بصری ؒ نے کہا کہ میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوں کاروں کو نہ ستا ،مگر افسوس تو نے نہیں سنا ۔ حجاج نے خفا ہو کر جواب دیا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ اس مصیبت کے دور کرنے کی دعا کرو ۔ میں تجھ سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ خدا جلد میری روح قبض کرلے اور اب زیادہ عذاب نہ دے ۔اسی اثنا ء میں حضرت ابو منذر ؒ مزاج پرسی کو پہنچے ۔ حجاج ! موت کے سکرات اور سختیوں میں تیرا کیا حال ہے ؟ حجاج ے ٹھنڈی سانس لے کر کہا: کیا پوچھتے ہو ؟ شدید مصیبت ،سخت تکلیف،ناقابل بیان الم ،ناقابل برداشت درد ،سفر دراز،توشہ قلیل،میری ہلاکت، اگر اس جبار و قہار نےمجھ پر رحم نہ کھایا ! ابو منذر ؒ نےکہا کہ اے حجاج ! خدا اپنے ہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں ۔ اس کی مخلوق سے بھلائی کرتے ہیں ،محبت کرتے ہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون و ہامان کا ساتھی تھا۔ کیونکہ کہ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی ۔ تو نے اپنی ملت ترک کردی تھی ، راہ حق سے کٹ گیا تھا ۔ صالحین کے طور طریقہ سے دور ہو گیا تھا،تو نے نیک انسان قتل کرکے ان کی جماعت فنا کر ڈالی ۔ تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا ۔ افسوس تو نے خالق کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت ۔ تو نے خون کی ندیاں بہادیں ، جانیں لیں، آبروئیں برباد کیں ،قہر و جبر کی روش اختیار کی ، تو نے نہ اپنا دین بچایا ، نہ ہی دنیا پائی تو نے خاندان مروان کو عزت دی ۔ مگر اپنا نفس ذلیل کیا ،ان کا گھر آباد کیا ، مگر اپنا گھر ویران کر لیا ، آج تیرے لئے نہ نجات ہے نہ داد فریاد ۔کیونکہ تو آج کے دن اور اس کے بعد سے غافل تھا ۔تو اس امت کے لئے مصیبت اور قہر تھا ۔ اللہ کا ہزار ہزار شکر کہ اس نے تیری موت سے امت کو راحت بخشی اور تجھے مغلوب کرکے اس کی آرزو پوری کردی ۔ راوی کہتا ہے کہ حجاج یہ سن کر مبہوت ہو گیا۔ دیر تک سناٹے میں رہا ۔ پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآئے اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہاکہ الٰہی ! مجھے بخش دے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ تو مجھے نہیں بخشے گا ۔ پھر یہ شعر پڑھا :ترجمہ:’’ الٰہی ! بندوں نے مجھے نا امید کرڈالا حالانکہ میں تجھ سے بڑی ہی امید رکھتا ہوں ۔یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل