79

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت ، اوصاف اور کارنامے/تحریر/پروفیسرمحمد اطہر اعوان

مجموعی اعتبار سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ عظیم الشان شخصیات ہیں کہ کائنات انسانیت میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے انتہائی اختصار کےساتھ ایک ہی جملہ میں اس کو اگر کہ دیاجائے تو کافی ہوگا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآنی شخصیات و اسلام کے مقدسات میں سے ہیں جن کی لازوال بےمثال قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ آج دین محمدی کی بہاروں سے ہمارے قلوب و اذہان گھر اور معاشرے مزین ہیں
حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کے اس پہلے دستہ کے فضائل و مناقب مقام و مرتبہ شان و رفعت پر جو بھی کہا جائے وہ کم ہے مگر جتنا بھی کہا جائے وہ باعث رحمت ہے
اسی نسبت سے آج ہم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جانثار و وفا شعار مریدین میں ایک ایسی شخصیت پر چند سطور پیش کررہے ہیں جو اپنے شخصی اوصاف میں اس مقام پر فائز ہیں کہ ملائک بھی ان کے احترام کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں اور کائنات کے تاجدار فخرالرسل صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس شخصیت کے معمولی بغض کو اتنا بڑا جرم تصور کرتے ہیں کہ بغض رکھنے والے کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرمادیتے ہیں
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کا نسب پانچویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتا ہے
سابقین اولین اسلام قبول کرنے والوں میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ اسلام کےلیے دومرتبہ ہجرت بھی کرتے ہیں یوں آپ کو ذوالہجرتین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے
اسلام قبول کرنے کےبعد آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ قربت حاصل کرجاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی و پیاری بیٹیاں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا اور اس سے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت سے یوں نوازا کہ ’’ اے عثمان اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے تیرے نکاح میں دے دیتا ٬٬
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی قدم قدم اپنی محبتیں پاک پیغمبر علیہ السلام پر یوں نچھاور کیں کہ چشم فلک نے دیکھا لسان نبوت سے جنت کی بشارت جاری ہوتی عثمان آگے بڑھ کر جنت کے پہلے خریدار نظرآتے
**مسلمانوں کے میٹھے پانی کی ضرورت پر امت کے غمخوار نبی فکرمند ہوں
**نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی توسیع کے خواہش مند ہوں
**غزوات میں قافلہ اسلام کو مال و متاع کی ضرورت ہو
مدینۃ الرسول کے باسیوں کو کسی قحط کے ماحول کا سامنا ہو
حضور خاتم النبیین کی جودوسخا کے اس امین کو امت نے پہلی صف میں کھڑا پایا اور اپنے مال کو اسلام ، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کےلیے پانی کی طرح یوں بہایا کہ محبوب کبریا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس سے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو وہ بشارت نامہ میسر آیا جو کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا کہ کائنات کے تاجدار نے ارشاد فرمایا ’’ عثمان آج کےبعد تیرا کوئی عمل تجھے نقصان نہیں دے گا ٬٬
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل خود ان کو نقصان تو نہیں دےگا لیکن عثمان غنی رضی اللہ عنہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ اور اللہ کے رسول کے نزدیک وہ مقام محبوبیت حاصل کرچکے تھے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر سفیر رسول بننے کا اعزاز ہی نہیں پایا بلکہ اسی موقع پر سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ 1400 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےلیے رضائےربوببیت کی وجہ بن جاتے ہیں اور ابدالآباد تک قرآن مجید کی آیات بینات آپ کے اس اعزاز پر تابندہ برھان بن کر آپ کے سرکا تاج بنی ہوئی ہیں
((سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے اوصاف))
سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت شرافت ، سخاوت ، حلم و حکمت جیسے اوصاف جمیلہ سے آراستہ تھی مگر چند اوصاف و خصائل آپ کی ذات گرامی قدر کی خصوصی پہچان بنے
آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں پائے جانے والے ان امتیازی اوصاف کا ذکر کیاجائے تو بالترتیب وہ حسب ذیل نظر آئیں گے

ہوئے غنی کیسے فدا پوچھا کسی نے جو کبھی
محو ِتلاوت تھے غنی بتلا دیا قرآن نے

تقوی و عبادات

حیا و عفت

محبت رسول و خاندان رسول

تحمل ، حلم و متانت

شجاعت و استقامت
((تقوی))
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے آپ رضی اللہ عنہ پر خشیت الٰہی کس درجہ غالب تھی فضائل اعمال میں حضرت اقدس حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللّٰہ نے بھی تحریر فرمایا کہ آپ رضی اللہ عنہ جب کبھی قبرستان جاتے تو آپ پر عجیب رقت طاری ہو جاتی اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے بھیگ جاتی اور اس قدر رونے کی وجہ سے چہرہ پر نشان پڑ چکے تھے جس طرح مستقل کسی جگہ پانی بہنے سے وہاں راستہ نقش ہوجاتا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سورہ زمر کی آیت نمبر 9 سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مصداق سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں
اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَۃَ وَ یَرۡجُوۡا رَحۡمَۃَ رَبِّہٖ ؕ
بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے، اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا
’’ اےلوگوں تقوی اختیار کرو تقوی غنیمت ہے عقل مند ہے وہ انسان جس نے اپنے نفس کو کنٹرول کیا موت کی بعد والی زندگی کےلیے عمل اللہ کے نور سے اپنی قبر کےلیے نور حاصل کیااور اس بات سے خوفزدہ ہوا کہ کہیں اللہ اسے قیامت کے دن اندھا کرکے نہ اٹھائیں حالانکہ وہ دنیا میں بینا تھا
قبر کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ !
(( واللہ مارائت منظرا الا والقبر افظع منہ ))
اللہ کی قسم میں نے قبر سے بدترین منظر نہیں دیکھا
((حیاوعفت))
آپ رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت اور سلیم الطبع شخصیت ہیں کہ زمانہ قبل از اسلام عرب کے منتشر ، متعفن ، اور بدترین ماحول میں بھی اپنے دامن کو ہر قسم کی غیراخلاقی حرکنات و سکنات ، عادات و اطوار سے پاکیزہ رکھا کبھی شراب ، زنا ، موسیقی ، گانا بجانا جیسی لہب و لعب میں ملوث نہ ہوئے اور بعد از اسلام پھر اس میں مزید ایسا نکھار پیدا ہو گیا کہ آپ کی سیرت میں یہاں تک تذکرہ ملتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کبھی تنہائی میں بھی خود کو مکمل برہنہ نہیں کرتے اور اس حیا کا آپ پر اس قدر غلبہ تھا کہ جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر قبول اسلام کیا اور بیعت کی پھر زندگی بھر اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا یہی وہ مقام تھا کہ خود زبان نبوت سے ایک موقع پر یہ فرمان عالی شان ارشاد ہوا جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حاضر ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹھنے و استراحت فرمانے کی ہیئت تبدیل فرمالی اور بعدازاں فرمایا ’’ میں اس شخص کا حیا کیوں نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ٬٬
((محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور محبت خاندان رسول))
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی باہمی محبت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سفیر کےلیے آپ کا انتخاب فرمایا اور مکہ بھیجا تاکہ کفار مکہ سے مذاکرات کئے جائیں تو اس موقع پر ایک افواہ پھیلی گئی کہ مکہ والوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حاضرین سے اس وقت بیعت علی الموت لی کہ جب تک ہم عثمان کا قصاص نہیں لیتے واپس نہیں جائیں گے اس مرحلہ میں ہمیں خود کی جانیں نچھاور کرنی پڑی اس سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا
ایک موقع پر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (( لِکُلِّ نَبِیِّ رَفِیْقٌ وَ رَفِیْقِیْ یَعْنِی فِی الْجَنَّةِ عُثْمَانُ.))
ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے جنت میں میرا رفیق عثمان ہوں گے
یہ اعزاز عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی قدر کےلیے کیوں نہ ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اتباع رسول میں خود کو فنا کررکھا تھا جیسا کہ حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاتہبند نصف پنڈلی تک ہوا کرتا اوراس کی وجہ آپ ارشادفرمایا کرتے کہ’’هٰكَذَا كَانَتْ اِزْرَةُ صَاحِبِيْ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تہبند بھی اسی طرح(یعنی نصف پنڈلی تک ) ہوتا تھا۔‘‘
اور یہ محبت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تک محدود نہ تھی بلکہ آپ کے اہلخانہ تک کو آپ بہت عزت کا مقام دیتے تھے جس روشن مثال سیدنا علی المرتضیٰ اور سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نکاح ہے آپ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر ایسے خوبصورت انداز کو اختیار فرمایا کہ تمام بوجھ بھی خود برداشت کرلیا اور کسی کو محسوس تک ہونے نہیں دیا اور اپنے زمانہ خلافت میں بھی خاندان نبوت کی خدمت کےلیے اپنا مال و متاع اور اپنی صلاحیتیں پیش کرتے رہے
((تحمل ، حلم ومتانت))
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں ایک اور عظیم وصف جو پایا جاتا تھا اور تمام لوگ اس کو محسوس بھی کرتے تھے وہ آپ رضی اللہ عنہ کا اپنی طبیعت میں حلیم و بردبار ہونا تھا
آپ رضی اللہ عنہ عجزوانکسار کے پیکر تھے لوگوں کی سہولت کےلیے ہمیشہ فکر مند رہتے اپنے دور خلافت میں رعایا کی خبر گیری پر انتہائی حساسیت کا مظاہرہ فرماتے اور شفقت و مہربانی آپ کی طبیعت میں راسخ ہوچکی تھی
حضرت عبداللہ رومی روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ جب تہجد کےلیے بیدار ہوتے تو وضو کا پانی خود لیتے آپ سے کہا گیا کہ آپ اپنے خادم کو آواز دےلیاکریں تو فرماتے یہ وقت ان کے آرام کا ہے ’’ رات ان کی ہے اور ان کے آرام کےلیے ہے ٬٬
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حلم و بردباری ، عجز و انکسار ، اور رقیق القلب ہونے میں کس عظیم مرتبہ پر فائز تھے
((استقامت وشجاعت))
سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی شجاعت و استقامت پر اگر بات کی جائے تو دو مواقع کی مثال انتہائی بلیغ ہے
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار کی طرف ہر طرح کی پیش کش کی عمرہ و طواف کی مکمل اجازت دی گئی مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک لمحہ کو پیغمبر اسلام علیہ السلام و اہل ایمان کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ واضح اور دو ٹوک بیان دیاکہ میں واپس تو جاسکتا ہوں مگر اپنے نبی کو چھوڑ کر عمرہ و طواف ادا نہیں کرسکتا
دوسری مثال اس وقت کی جب بلوائیوں اور باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور آپ کو محصور کردیا تب ان کو واحد مطالبہ تھا کہ آپ خلافت سے دستبردار ہوجائیں مگر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس وقت انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا حالانکہ آپ کو 40 روز تک بھوک و پیاس میں دھکیلا گیا مگر آپ کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آئی بلکہ آپ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پہرہ دیتے ہوئے اپنی جان قربان کردی
((کارنامے))
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ امت کو ایک قرات پر جمع کرنا اور قرآن مجید کی تحریری و کتابی صورت میں عالم اسلام میں اشاعت کرنا ہے اسی نسبت سے آپ کو جامع القرآن و ناشر القرآن کے القاب سے یاد کیاجاتا ہے
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تب اسلامی سلطنت 22 لاکھ مربع میل کے رقبہ پر محیط تھی آپ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتوحات کے تسلسل کا جاری رہنا تھا کہ یہ رقبہ دوگنا ہوکر 44 لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا
آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں طرابلس ، رقہ ، مراکش ، افریقہ ، تے ، اسکندریہ ، قبرص فتح ہوئے اسی طرح فتح ایران کی تکمیل ہوئی اور متصلہ علاقے افغانستان ، ترکستان ،خراسان تک نہ صرف فتوحات کا دائرہ پھیل گیا بلکہ آرمینیہ اور آذربائجان تک بھی فتح ہوگئے
((شہادت))
آپ رضی اللہ عنہ نے 82 سال کی عمر دراز پائی اور ایک عظیم الشان زندگی بسر کرنے کے بعد جب آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تھے باغی آپ کے قتل کا ارادہ کرچکے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مدینۃ الرسول کو میدان جنگ بنانے سے گریزاں تھے
بنت الغرافصہ کہتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے آخری رات کچھ دیر نیند میں گزاری اور پھر جب بیدار ہوئے تو فرمایا کہ یہ لوگ مجھے قتل کریں گے ہم نے کہا امیر المومنین ایسا نہیں کہیں تو فرمایا ابھی مجھے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی ہے جو فرمارہے تھے کہ آج شب روزی ہمارے ساتھ افطار کرنا یا تم روزہ ہمارے ساتھ جنت میں افطار کرو گے
بالآخر 12سال شاندار طریقے سے پیغمبر علیہ السلام کے دئیے گئے نظام کو نافذ کرتے ہوئے اور حضرات شیخین کی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا یہاں بھی اللہ پاک نے سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو ایسی شہادت نصیب فرمائی کہ آپ تلاوت قرآن مجید فرمارہے تھے کہ باغیوں نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کے وجود اقدس سے نکلنے والے خون کے چھینٹے قرآن مجید پر بھی پڑے اور یوں 18 ذوالحجہ کو قرآن کا عاشق قرآن کی گواہی کو سینے سے لگائے بارگاہ ایزدی میں اپنی قربانی لیے پیش ہوگیا
اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے حضور ہدیہ منقبت میں سے ایک منتخب کلام کے کچھ کلمات پیش ہیں
۔
راہِ خدا میں مال وزر لٹوا دیا عثمان نے
جودو سخا کیا چیز ہے سمجھا دیا عثمان نے

دولت بھلا کیا چیز ہے شئے ہے بہت یہ بعد کی
عشق نبی میں سر تلک کٹوا دیا عثمان نے

اسلام پر عثمان کے احسان ہی احسان ہیں
اسلام کی خاطر نہیں کیا کچھ کیا عثمان نے

مظلوم تو یوں لاکھ ہیں عثمان سا نہیں
پیاسے رہے چالیس دن اف نہ کہا عثمان نے

مومن کے دل کا چین ہے عثمان ذو النورین ہے
عثمان کو اونچا کر دیا عثماں غنی کی شان نے

وہ جامع القرآن ہیں عثمان بس عثمان ہے
لکھوا کے قرآں دنیا میں پھیلا دیا عثمان نے

نوری بھی کرتے ہیں حیا ارشد غنی عثمان سے
کتنا بلند عثمان کو فرما دیا رحمان نے
۔
رب العالمین ہمیں بھی سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ ، خصائل جمیلہ کا فیضان وافر نصیب فرمائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت ، اوصاف اور کارنامے/تحریر/پروفیسرمحمد اطہر اعوان“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں