166

سیدنا فاروق اعظمؓ کی سیدنا حسینؓ سے محبت/تحریر/وسیم الحسن

وسیم الحسن

اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں حضور خاتم النبّیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت صحابہ کرام اور آپ کی آل و اولاد پر جنہوں نے امتِ محمدیہ کو اپنے عمل سے اسلامی زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سمجھایا ،
آئیے ان کے باہمی طرز زندگی کو حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنے کا عزم ِمصمم کرتے ہیں ، یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کا عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے لیکن ماہ ذوالحج کے اختتام اور ماہ محرم الحرام کے آغاز کی مناسبت سے شہیدِ مصلیٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلیفۂِ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اورنواسۂِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہید ِکربلا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے آپسی حُسنِ تعلقات، باہمی اعتماد، قلبی محبت ، دلی اُلفت ، اتحاد و یگانگت،اتفاق و ہم آہنگی اور بہترین سلوک کے حوالے سے چند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں ۔
یہ واقعات برائے واقعات نہیں کہ جنہیں محض واقعہ سمجھ کر ہی ذکر کیا جائے بلکہ ان واقعات میں ہمارے لیے زندگی گزارنے کے روشن اصول موجود ہیں جن کی روشنی سے تاریکیاں ختم ہوں گی ۔

ام کلثوم بنت فاطمہ کا نکاح
رشتے وہاں لیے اور دیے جاتے ہیں جہاں باہمی اعتماد اور پیار و محبت ہوچنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا ۔
حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کیں تو ایک قیمتی چادر بچ گئی۔،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا امیرالمؤمنین!یہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی)نواسی( کو دے دیں جو کہ آپ کی زوجہ ہے ان کی مراد سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما تھی۔
صحیح البخاری ، رقم الحدیث:2881

کاشانہ فاروقی میں آمد ورفت
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ محترمہ حضرت ام کلثوم الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں اس لیے یہ دونوں شہزادے اپنی ہمشیرہ سے ملنے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گھر میں آتے جاتے رہتے تھے ۔
حضرت ابو صالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں اپنی ہمشیرہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتے تھے بعض اوقات وہ اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی ہوتی تھیں ۔
المصنف لابن ابی شیبۃ، رقم الحدیث:17280

حسنین کریمین کی عزت و توقیر
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ طیبہ میں شاہ ایران کے خزانے )بطور مال غنیمت( پیش کیے گئے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے ؟ یعنی کسی پیمانے سے ماپ کر یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اندازہ کر کے تقسیم کیا جائے؟ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاتھوں کی ہتھیلی سے دینا زیادہ بہتر ہے۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اسی طرح دیا اور اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسی طرح سے عنایت فرمایااور اس کے بعد لوگوں کو بلا بلا کر دینا شروع کیا ۔
الجامع لمعمر بن راشد الازدی ،م :153ھ

حسین سگی اولاد سے زیادہ عزیز

بارگاہِ فاروقی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت بہت زیادہ تھی یہاں تک کہ اپنی سگی اولاد سے بھی زیادہ ۔
حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو فرمایا:آپ کبھی ہمارے ہاں )گھر) تشریف لائیں !چنانچہ )کچھ عرصے بعد(حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنےاِن کے گھر تشریف لائے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ )حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مصروف ہیں (مجھے بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ )ملاقات کیے بغیر ہی (واپس تشریف لے گئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حسین!کیا بات ہے آپ ہمارے ہاں تشریف کیوں نہیں لائے؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں آپ سے ملنے آپ کے ہاں گیا تھا لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ آپ بہت مصروف تھے یہاں تک کہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو بھی آپ سے ملنے کی اجازت نہیں تھی تو میں واپس آگیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہاں میرا بیٹا عبداللہ اور کہاں آپ کا مقام و مرتبہ !یعنی جب آپ تشریف لائے تھے تو مجھے اطلاع بھیج دیتے میں اپنا کام موخر کر لیتا اور آپ سے ملاقات کرتا۔ اس کےبعد فرمایاکہ ہمیں جو عزت ملی ہے وہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے ملی ہے۔
تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر ،ج: 14، ص 175

مذکورہ بالا واقعات ان کے باہمی پیار ومحبت کی ہلکی سی جھلک کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ورنہ تاریخ اسلام کا ایک ایک ورق ان کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کے درمیان ہمیشہاخوت کا رشتہ اعتماد کا تعلق رہاحسن سلوک کا معاملہ رہاعزت و تکریم کا برتاؤ رہا،
انہوں نے پوری امت مسلمہ کو عملی طورپراسی محبت اور اعتماد کا درس دیا ،
آج بھی ان کے اسی باہمی پیار و محبت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جو ان میں آخر دم تک قائم و دائم رہا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ اور آل پیغمبر کی دل و جان سے قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

سیدنا فاروق اعظمؓ کی سیدنا حسینؓ سے محبت/تحریر/وسیم الحسن“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں