قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
” گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ” تحصیل بھر کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں نہم کے امتحانات میں بازی لے گیا ۔ سکول کی ہونہار طالبہ لائبہ اعظم نے 550 میں 549 نمبر لیکر میدان مار لیا ۔جبکہ اس سکول کی نمرہ عارف اور اریبہ آفتاب نے بالترتیب 547 اور 546 نمبر کے ساتھ نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔ جبکہ 36 طالبات نے 500 سے زائد نمبر لیکر ادارے کی نیک نامی کو چار چاند لگا دیئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طالبات کی ذاتی کاوش اور محنت کا نتیجہ ہے تاہم اس میں سکول اساتذہ اور سٹاف کی شبانہ روز محنت بھی کارفرما ہے اور سب سے بڑھ کر سکول ھذا کی پرنسپل محترمہ روبینہ تبسم صاحبہ کی انتھک محنت اور بہترین مینجمنٹ بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ جب اس طرح کا محنتی سٹاف اور فرض کی ادائیگی کے لئے دن رات محنت کرنے والی پرنسپل صاحبہ کی ذمہ دارانہ قیادت میسر ہو تو ہر یہاں پیشانی پر کندہ یہ شعر صادق آتا ہے
کہ
قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
کے علم میں یہ بات ہوگی ظفروال تعلیمی اعتبار سے ایک مردم خیز خطہ ہے بڑے بڑے نامور ماہر تعلیم ۔ سیاسی و سماجی زعماء ۔ سائنسدان ۔ صحافی ۔انجینیئرز ۔ ڈاکٹرز ۔ علماء ۔ عسکری اداروں میں قابل آفیسرز ۔ شعراء حضرات حتی کہ زندگی کے تمام شعبوں میں پیدا کئے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ ان شاءاللہ اسی طرح چلتا رہے گا ۔ حالیہ نہم اور دہم کے امتحانات میں گورنمٹ بوائز و گرلز سکولوں کے شاندار رزلٹ نے ماضی کی شاندار روایات کو چار چاند لگائے ہیں اس پر میں اہلیان علاقہ بالخصوص ظفروال کے شہریوں کی طرف سے سکول پرنسپل سٹاف اور مینجمنٹ کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے تعلیمی اداروں کو اسی طرح دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطاء کرے اور ان کے اساتذہ کو پہلے سے زیادہ محنت کرنے کی توفیق بخشے آمین۔قارئین کرام غیر جانبدارانہ غور کیا جائے تو عرصہ دراز سے قائم نجی تعلیمی ادارے جن کے نام بھی بڑے ہیں بڑی بڑی فیسیں بٹورنے میں وہ کمال مہارت رکھتے ہیں کتاب سے لیکر پنسل اور پھر یونیفارم سے لیکر بھاری بھر کم ماہانہ فیس تک وصول کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے ہوئے اپنی پبلسٹی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ان سب کے باوجود خاطر خواہ رزلٹ پیش نہیں کرسکے جو سرکاری ادارے پیش کر رہے ہیں ۔ یہی نجی تعلیمی ادارے یہ تو بتائیں گے کہ ہمارے اتنے بچوں نے زیادہ نمبرز لئے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ ٹوٹل کتنے بچے تھے کتنے پاس ہوئے کتنے فیل ہوئے ؟ شائد اس خوف سے کہ معاشرے میں ہماری کارکردگی کھل کر سامنے نہ آجائے ۔ خیر ان نجی تعلیمی اداروں کی افادیت سے انکار ممکن نہیں یقینا تعلیم کے میدان میں بیش بہا خدمات ہیں لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان اداروں نے تعلیم پر تو جیسی تیسی توجہ دی لیکن طلباء کا اخلاقی کردار اور تربیت روبہ زوال ہے ۔ اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ دیں بھی کیسے ؟ جب سکوں میں ہولی جیسے ہندووانہ تہوار ۔ لڑکے اور لڑکیوں کے مخلوط ڈانس فیئرویل پارٹی کے نام پر بے حیائی کو Promot کیا جائے گا تو وہاں پر Dr. A Q Khan نہیں معاشرے کو تباہ کرنے والے ناسور ہی پیدا ہونگے اور اس تباہی کے ذمہ دار اساتذہ اور سکول مینجمنٹ کوہی گردانا جایے گا۔ بقول شاعر ” اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا ” بدقسمتی سے ظفروال کے چند بڑے نجی تعلیمی اداروں میں طالب علم کم اور گینگ گروپ زیادہ سامنے آرہے ہیں حالیہ چند مہینوں میں دو خوبرو نوجوان انہی گینگوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے اور ان گینگوں کا تعلق ہر بار ایک بڑے نجی تعلیمی ادارے سے ہی نکلا ہے ۔عنقریب مکمل دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ اس ادارے کا نام اور کرداروں کو بھی بے نقاب کرونگا ۔انشاءاللہ ۔ ظفروال کے سنجیدہ حلقوں کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو جہاں تعلیم کے لئے بھیج رہے ہیں وہاں کردار سازی کا کیا معیار ہے ؟ تعلیم تو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن کیا ان اداروں سے فراغت حاصل کرنے والے طلباء معاشرے ملک اور قوم کے مسیحا بن کر نکل رہے ہیں یا مملکت کے لئے ناسور ۔ یہ والدین کو صرور سوچنا ہوگا ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں