اصلاح معاشرہ کا ایک اہم کلیہ یہ ہے کہ ذہانت کے ساتھ ایسی برائی کا انتخاب کیا جائے جس پر ضرب لگانے سے بہت سی دیگر برائیوں کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ کام سنجیدہ ذہن چاہتا ہے کہ ایسی برائیوں کی شناخت کی جائے جو دوسری برائیوں کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
اگر معاشرتی بگاڑ پر نظر ڈالیں تو ہمارا اندازہ یہ ہے کہ معاشرتی برائیوں میں نکاح کا مشکل ہوجانا یا نکاح سے وابستہ تقریبات و فضول خرچیاں ایک بڑی برائی ہے۔ اس برائی کی وجہ سے کئی معاشرتی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل خرابیو ں کی فہرست پیش کی جاسکتی ہے جن کے فروغ میں نکاح کے مشکل ہونے کا بڑا دخل ہے۔
1 لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کی وجہ سے ان کے اندر اخلاقی خرابیاں اور جنسی بے راہ روی پیدا ہورہی ہے
۔
2۔ بین مذہبی اور عدالتی شادیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
3۔ جہیز کی رسم کی وجہ سے وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور اسلام کے قانونِ وراثت بلکہ نظام ِوراثت کی پوری عمارت لڑکھڑا رہی ہے۔
4۔ بہت سے گھرانوں کے لیے شادیاں بڑا معاشی بوجھ بن رہی ہیں اور خطیر سرمایہ مفید کاموں کے بجائے فضول ضائع ہورہا ہے۔
5۔ قرضوں اورخاص طور پر سودی قرضوں کا بھی ایک سبب یا تو راست طور پرشادیوں کی تقریبات ہوتی ہیں۔ یعنی لوگ اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے کے لیےقرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر بالواسطہ طور پر شادیاں اس کے لیے ذمے دار ہوتی ہیں۔ یعنی جمع پونجی تو شادیوں میں خرچ ہوجاتی ہے پھر بیٹے کے کاروبار یا تعلیم کے لیے یا گھر بنانے یا بیماری کی صورت میں علاج کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔
6۔ ماں باپ کے اندر (اورلڑکیوں کے اندر بھی) ذہنی تناو اور نفسیاتی امراض کی نمو ہورہی ہے۔اموات بھی ہونے لگی ہیں، بلکہ خودکشیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔
7۔خوش گوار ازدواجی زندگی میں، یہ مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔میاں بیوی کے درمیان ہی نہیں بلکہ دونوں کے خاندانوں کے درمیان بھی شادی سے متعلق رسوم تنازعات کا سبب بنتی ہیں۔ بعض تنازعات کورٹ کچہری بلکہ قتل و خودکشی پر بھی منتج ہوتے ہیں۔
8 ۔ بہت سی صورتوں میں، لڑکوں پر ان کی بہنوں کی شادیوں کی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے یا شادی کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کی ذمےد اریاں اور حقوق ادا کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس سے بھی ازدواجی تنازعات جنم لیتے ہیں۔
9۔ لڑکیوں کی پیدا ئش، بعض لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہونے لگی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو روکنے یا لڑکی کی پیدائش پر ماں کو تنگ کرنے کے رجحانات،مسلم معاشرے میں نسبتاً کم سہی لیکن بڑھنے ضرور لگے ہیں۔
10۔ خواتین کے حقوق کے اتلاف کی کئی قسمیں اس مسئلے سے وابستہ ہیں۔
11۔ ضیاعِ وقت، رات میں دیر تک جاگنے، نمود و نمائش اور اس جیسی متعدد خرابیوں کا سرچشمہ بھی کئی جگہ شادی کی رسوم ہیں۔
اسلام کی معاشرتی اسکیم میں آسان نکاح کی بڑی مرکزی اہمیت ہے۔عفت و پاکدامنی، عصمت کی حفاظت اور نسل کی حفاظت، اسلام کی ایک اہم قدر ہی نہیں بلکہ ان ’تحفظات خمسہ ‘میں سے ایک ہے جنھیں علمائے دین شریعت اسلامیہ کے مقاصد قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ لوگ مجرد نہ رہیں۔
وَأَنكِحُوا الْأَیامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن یكُونُوا فُقَرَاءَ یغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ
(النور:32)
(تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے) نکاح کا مشکل ہونا، اسلام کے اس اہم حکم کی تعمیل میں رکاوٹ کا باعث ہے اس لیے اسلام کےمزاج سے راست متصادم ہے۔
اس طرح معاشرتی اصلاح کے لیے ہم نے ایک ایسی بڑی برائی کا انتخاب کیا جو بہت سی برائیوں کا، راست یا بالواسطہ طور پر سبب بن رہی ہے اور جس کی اصلاح سے متعدد معاشرتی خرابیوں کی اصلاح میں مدد مل سکتی ہے۔ اس برائی کے سلسلے میں وعظ و نصیحت، تذکیر و تقریراور جلسو ں ومہمات کے سلسلے تو برسوں سے جاری ہیں لیکن اسے سماجی اصلاح کے سنجیدہ منصوبے کا عنوان بنانے کی ضرورت ہے۔
معاملات، اخلاق، سماجی رویوں وغیرہ امور میں غور و فکر کرکے اور سنجیدہ تحقیق کی بنیاد پر ایسی ہی دیگر بڑی برائیوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان کی اصلاح کا ٹھوس منصوبہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اسلام فطرت انسانی مذہب ہے فطرت کو جھٹلا کر سکون نہیں لایا جاسکتا ۔