ماہ رمضان المبارک ہمیشہ کی طرح اب بھی رمضان کریم آخری ساعتوں کا مہمان ہے اور جاتے جاتے ایک ایسا تحفہ بندگان خدا کی جھولی میں ڈال کر جا رہا ہے جسے اسلامی دنیامیں’’ شب قدر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔جی ہاں ! وہی ’’شب قدر‘‘جس کی عظمت سے فکر انسانی کو واقف کروانے کیلئے اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ: شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(القرآن)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ؐ نے بنی اسرائیل کے چار حضرات ، حضرت ایوبؑ ، حضرت زکریا ؑ ، حضرت حزقیل ؑ ، حضرت یوشع بن نوعؑ کا ذکر فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی برس اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اس کی نافرمانی نہیں کی ، اس پر صحابہ کرامؓ کو تعجب ہوا۔ فورا ہی حضرت جبرائیل ؑ حضورؐ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کی امت کو ان حضرات کے اسی اسی برس عبادت کرنے پر تعجب ہو رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز بھیجی ہے۔چنانچہ آپ نے سورء القدرپڑھ کر سنائی اور فرمایا یہ اس سے بہتر ہے جس پر آپؐ اور آپ کی امت کو تعجب ہورہا ہے۔یہ سن کر نبیؐ اور صحابہؓ کرام خوش ہو گئے۔(درمنثور)
یعنی ایک ہزار سال تک کی عبادت سے بھی اس ایک رات کی عبادت کی برابری نہیں ہو سکتی۔اگر مسلمان تھوڑی سی بھی کوشش کر لیںتو اس رات انکی مغفرت کا، بخشش کا سامان بھی ہوجاتا ہے اور دنیا اور آخرت بھی درست ہو جاتی ہے۔ یہی وہ رات ہے جب ہم اپنے رب کو منا بھی سکتے ہیں اور منوا بھی سکتے ہیں۔
یہی وہ رات ہے جب لوح محفوظ سے قرآن کریم کو روئے زمین پر اتارا گیا۔یہی وہ رات ہے کہ جب حضرت آدم ؑکا مادہ جمع ہونا شروع ہوا۔یہی وہ رات ہے جب حضرت عیسٰی ؑ آسمان پر اٹھائے گئے۔ اسی رات کو بنی اسرائیل کی توبہ قبول کی گئی۔اسی رات میں آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔اسی رات کو آسمان سے فرشتے اتر کر اللہ کے نیک بندوں (مومنین)کو سلام پیش کرتے ہیں، ان سے مصافحہ کرتے ہیں، ان کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں اور انکی دعائوں پر آمین کہتے ہیں اور یہی اس رات کی افضلیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اس مبارک رات کو پانے کیلئے آقا دو جہاں ؐ خود آخری عشرے میں تندہی سے عبادت میں مشغول رہتے تھے بلکہ اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی اس کیلئے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ روایت فرماتی ہیں کہ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہؐ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعاء میں مشغول رہتے۔چنانچہ اسی سلسلہ میںسیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں۔‘‘(بخاری)
جہاں امت محمدیہ پر اماں عائشہؓ کے جہاں اور بہت سے احسانات ہیں وہیں آپ نے ایک یہ احسان بھی فرما یاکہ حضورنبی کریم سے پوچھ لیا کہ اس رات (یعنی شب قدر کی رات) میں کون سی دعاء مانگیں۔؟ رسول اللہؐ نے سیدہ عائشہ ؓکے استفسار پر پوری امت کو دعائ بتائی جو آج بھی امت مسلمہ کے لئے انمول تحفہ ہے۔ جسے امام ترمذی کچھ یوںروایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ میںنے رسول اللہ ؐسے عرض کیا مجھے بتایئے کہ اگر میں معلوم کر لوں کونسی رات شب قدر ہے، تو میں اس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعاء مانگوں۔ آپ ؐنے فرمایا یہ عرض کرو۔!’’اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘ ترجمہ: اے میرے اللہ تو بہت معاف فرمانے والا ہے،اور بڑا کرم فرما ہے،اور مجھے معاف کردینا تجھے پسند ہے،پس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔‘‘(ترمذی) اس لئے تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شب قدر کی مبارک رات کو تلاش کریں۔طاق راتوں میں جس قدر ہو سکے نفل نماز ، تلاوت قرآن، ذکر و تسبیح میں مشغول رہیں۔ التجا کرتے ہوئے اللہ رب العزت سے نیک اعمال کرنیکی ہمت و طاقت طلب فرمائیں، اپنے گناہوں کی بخشش طلب فرمائیںاور اپنے لئے اپنے عزیز و اقارب،دوست احباب کیلئے دعاء خیر کریں۔اور تمام مرحومین کیلئے دعائے مغفرت کریں۔پور ے عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔اور خصوصا ملک پاکستان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ رب العزت ہمارے ملک کی اندرونی و بیرونی ،نظریاتی ، فکری و جغرافیائی سرحدوں کی ہر قسم کے شر و فتنہ سے حفاظت فرمائیں۔ اور اسے ہمیشہ قائم دائم رکھیں۔ یقینا وہ ذا ت ر حمان و رحیم ہے ، گناہ گاروں کو بخشنے والی ہے،اور ہرکلمہ گو کی حاجات کو سن کے پورا فرمانے والی ہے۔۔۔!