ضیاء الحق پاکستان کے وہ پہلے حکمران ہیں جو کہ ایک غریب کسان کے بیٹے تھے۔ طالب علمی کے دور میں وہ بہت ذہین مانے جاتے تھے اور سکول خچر پر بیٹھ کر جایا کرتے تھے۔ وہ پاکستان کے منفرد ترین حکمران تھے جو شریعت کے نفاذ کو اپنا مقصد حیات سمجھتے تھے۔ ہمیشہ سادہ زندگی گزارنے والے جنرل ضیاء الحق جب بھٹو کے آرمی چیف ہوتے تھے تو ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے یہاں تک کہ ایک دفعہ بھٹو صاحب ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ سیکرٹ جلا چکے تھے پینے کے لیے لیکن ان کو دیکھتے ہی وہ جلا ہوا سگریٹ انہوں نے اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا اور جب جلن محسوس ہوئی تو بھٹو صاحب نے انہیں دیکھ کر قہقہے لگائے۔ بھٹو صاحب انہیں اکثر میرا منکی آرمی چیف کہا کرتے تھے یعنی کہ ان کی شباہت کو ایک بندر سے ملاتے تھے۔ پانچ جولائی 1977 کے رات جب ضیاء الحق بھٹو صاحب سے ملے تو انہیں کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ اس امن کے معاہدے پر دستخط کر لیں اور آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا ہماری طرف سے بے فکر رہیں ہم نے اپنے ہاتھ سینے پہ رکھے ہوئے ہیں اور آپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ لیکن اس من کی آرمی چیف نے راتوں رات وہی کام کیا جو بندر کو ناخن ملنے پہ وہ کر سکتا ہے، انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کر دی، انتظامیہ کو گھر بھیج دیا مارشل لاء نافذ کر دیا اور اعلان کیا کہ میرے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ہیں میں صرف ایک شفاف الیکشن کرانا چاہتا ہوں اور بھٹو کا معاملہ تو مجھے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ خود اپنی کسی کاروائی کے نتیجے میں ہی مارے جائیں گے۔ اور پھر یہی ہوا کہ عدالتی قانون اور تاریخ میں پہلی بار کسی کو قتل کی سازش کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ شریعہ شریعت کا راگ الاپنے والے جنرل نے ایک بیٹی کو اپنے باپ کا آخری دیدار تک کرنے کی اجازت نہیں دی_
ایرانی اسلامی انقلاب سے بہت متاثر تھے ایک بار آیت اللہ خمینی سے ملاقات میں کہنے لگے کہ میں اپنی قوم کے ساتھ ایسا کیا کروں کہ ان سب کے دل اسلام کی طرف راغب ہو جائیں اور میرے ملک میں شریعت نافذ ہو سکے تو آیت اللہ خمینی نے پوچھا اپ کا ملک کتنے رقبے پہ محیط ہے فرمانے لگے 796096مربع کلومیٹر تو خمینی صاحب نے پوچھا کہ آپ کا اپنا قد کتنا ہے تو فرمانے لگے پانچ فٹ 10 انچ تو آیت اللہ خمینی نے تاریخی الفاظ کہے جو آج کل کے ہر شدت پسند مولوی کے لیے مشعل راہ ہونے چاہیے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اپنے اس پانچ فٹ 10 انچ پر اسلام نافذ کر لیں باقی یہ تقریبا آٹھ لاکھ کلومیٹر مربع پہ اللہ تعالی خود ہی اسلام نافذ کر دیں گے ۔ان کے دور میں احترام رمضان، حدود لا، پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962، مسلم فیملی لا 1964 اور دیگر آرڈیننس کی قانون سازی کی گئی۔ اسی طرح پہلی مرتبہ ملٹری کورٹس کا انعقاد کیا گیا۔ فیڈرل شریعت کورٹ بنائی گئی وفاقی محتسب کا دفتر کھولا گیا اور ایک اور متنازعہ ریفرنڈم 1984 کروایا گیا کہ اگر آپ اسلامی قوانین چاہتے ہیں تو صدر ضیاء الحق مزید پانچ سال کے لیے اقتدار میں رہیں گے۔ انہوں نے لا اف ایویڈنس کو بھی قانون شہادت آرڈیننس میں تبدیل کیا یہاں ایک قانونی نقطہ بہت پیچیدگیاں لے کر آیا جب انہوں نے زنا بالجبر کی شکار لڑکی کے لیے بھی اصلی زنا بالرضا کی سزا قرار دی۔ اس پر بہت قانونی بحثیں ہوئیں لیکن عاصمہ جیلانی اور دیگر خواتین کے قانونی خدمات کی بدولت یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔ اسی طرح خواتین کو ٹیلی ویژن پر دوپٹہ سر پر رکھ کر ہی آنے کی اجازت تھی جسے بہت سی ایکٹیوسٹ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک طرف وہ خود اقتدار چھین کر مطلق العنان بادشاہ بن کر بیٹھ گئے تھے دوسری طرف انہوں نے افغان مجاہدین کی بے دریغ مدد بہم پہنچائی اور بدلے میں پاک فوج کے لیے بہت سی امداد بٹوری۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کے مسئلے میں ایسا گھرا کہ اگلی نصف صدی تک پاکستان کی معیشت، سیاست، خارجہ پالیسی افغانستان کے آس پاس ہی منڈلاتی رہتی تھی۔
وہ اتنے ذہین اور عمیق النظر تھے کہ ایک طرف امریکہ کو افغان وار میں قابو کیا ہوا تھا دوسری طرف روس کو آنکھیں دکھا رہے تھے تیسری طرف انڈیا کے خلاف بہت سا اسلحہ سٹرنگر میزائل جمع کر رکھے تھے اور کرکٹ ڈپلومیسی کرتے ہوئے خود ہی میچ دیکھنے انڈیا پہنچ گئے۔ گاندھی جی کی وفات کے بعد آنے والے حکمران نے ان کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اکھ وی مار دی اے تے گند وی کٹدی اے۔ یعنی ہمیں آنکھ بھی مار تی ہے اور ہم سے گھونگھٹ بھی نکالا ہوا ہے
ان کے دور میں بھی نیوکلیئر پروگرام وہی آب و تاب سے جاری رہا لیکن جب امریکی صدر جیمی کارٹر نے ان سے پوچھا کہ اپ کا جوہری پروگرام تو جاری ہے اس کو چھوڑیں اور 400 ملین ڈالر لے لیں تو جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا کہ آپ یہ اپنے مونگ پھلی کے دانے اپنے پاس ہی رکھیں اور جہاں تک تعلق ہے جوہری پروگرام کا تو ہم پاکستانی تو ایک سائیکل بھی خود نہیں بنا سکتے ہم ایٹم بم کیا بنائیں گے؟؟؟
اسی طرح جب خانہ کعبہ کے اوپر دہشت گردوں نے قبضہ کیا تو حرمت حرمین شریفین کو بچانے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے وہ خدمت کی ہے جو شاید ان کی آخرت سنوارنے کے لیے کافی ہو ۔جب ان کا 12 اگست کو
جہاز کریک کیا تو ان کی لاش کی نشاندہی بھی اس قرآن کے نسخے سے ہوئی جو وہ اکثر اپنے پاس رکھتے تھے وہ پاکستان کے ڈکٹیٹروں میں وہ واحد ڈکٹیٹر تھے جن کے جنازے کو عوام نے بھی پروٹوکول دیا۔ شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں جب انہیں دفنایا گیا تو زمین پر سوئی رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اللہ ان کی لغزشوں سے ان کو معاف کرے اور ہمارے آنے والے حکمرانوں کو ہدایت اور عقل سلیم نصیب فرمائے کہ اقتدار خدا نہیں ہوتا کیونکہ خدا اس حال میں بھی بلا سکتا ہے کہ آپ کے جسم کی ایک ہڈی بھی سلامت دفنانے کو نہ ملے۔
یا غفار یا رحمن