جو لوگ اپنا مال اللّٰہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللّٰہ تعالٰی جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔ (سورة البقرہ)
اللّٰہ تعالٰی نے صاحب استطاعت مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی برکت سے معاشرے کے مُفْلِس، نادار اور محتاج افراد اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنےکے قابل ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کی مالی معاونت کرنے والوں کو رضائے الٰہی جیسی عظیم دولت ملنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ بخیل سے لوگوں کی طبیعتیں بیزار رہتی ہیں۔ صدقہ و خیرات اخروی و معاشرتی فوائد کے ساتھ ساتھ بیماریوں اور حادثات سے بچت کا ذریعہ بھی ہے نبیِ اکرم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: صدقہ دو اور صدقے کے ذَرِیعے اپنے مریضوں کا مُداوا کیا کرو بے شک صدقہ حادِثات اور بیماریوں کی روک تھام کرتا ہے اور یہ تمہارے اَعمال اور نیکیوں میں اِضافے کا باعِث ہے (شعب الایمان رقم الحدیث: 3556)
صدقہ کی اقسام :
وجوب اور عدم وجوب کے اعتبارسے صدقہ کی دو قسمیں ہیں
1۔ صدقہ واجبہ 2۔ صدقہ نافلہ
صدقہ نافلہ:
جو شخص ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرے وہ نفلی صدقہ میں شمار ہو گا۔ پس جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا آخرت میں اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے۔ اس کے بھی بے شمار فضاٸل قرآن و حدیث میں وارد ہوے ہیں
آپﷺ نے فرمایا جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر (البخاری)
صدقہ واجبہ :
صدقہ واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جن کا ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر بطورِ فرض لازم ہے مثلا زکوٰۃ، صدقہ فطر اور عشر وغیرہ
زکوة : جوشخص مسلمان، عاقل و بالغ ،آزاد ہو، نصاب کے برابر مال رکھتا ہو، مال ضروریات اصلیہ سے زائد ہو اور اس مال پر پورا سال گزر جائے تو اس پر زکوٰة فرض ہے قرآن مجید میں نماز قاٸم کرنے کے ساتھ زکوة کے ادا کرنے کا حکم بارہا دفعہ آیا ہے جبکہ ادا نہ کرنے پر احادیث میں وعیدیں بھی آٸی ہیں
عشر: ارشاد باری تعالی ہے
وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ (سورةالانعام)
کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس زمین کو آسمان یا چشموں نے سیراب کیا یا عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کرتے ہوں، اُس میں عشر ہے اور جس زمین کے سیراب کرنے کے لیے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہوں، اُس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ۔(البخاری)
صدقہ فطر: زکوۃ کی طرح صدقہ فطر بھی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے
آپﷺنے فرمایا صدقہ فطر ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، بچے اور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا
زکوة اور صدقہ فطر میں فرق : زکوۃ کی ادائیگی کے لئے سال بھر نصاب کا باقی رہنا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن نصاب زکوۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے
بالغ اور نابالغ اولاد کے صدقہ فطر کا حکم :
مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
صدقہ فطر کب ادا کیا جاے
عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ اور عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اسے ادا کرنا ضروری ہے،
”حضور نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔‘‘ (مسلم)
اگر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا تو بعد میں بھی ادا کرنا ہوگا، لیکن بعد میں ادا کرنے سے اس صدقہ کی فضیلت ختم ہوجائے گی، اور یہ عام صدقہ بن جائے گا، نیز عید الفطر کی نماز کے بعد تک تاخیر مکروہ ہے۔
”حضرت عبد اللّٰہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا“(ابو داٶد)
حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ صرف وہی صدقہ فطرانہ کہلائے گا جو عید الفطر تک ادا کر دیا جائے گا اور جس نے اس کو عید کے بعد کچھ صدقہ دیا تو وہ (فطرانہ نہیں بلکہ صرف) صدقہ ہو گا۔‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
غریب کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ صدقہ عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک میں بھی ادا کیا جاسکتاہے۔ تاکہ غربإ عید سے پہلے اپنی ضرورت کو پورا کر سکیں اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں
بیرون ممالک رہنے والوں کے لیے صدقہ فطر کا حکم
اگر کوٸی بیرون ملک میں مقیم ہے اور عید الفطر وہیں کرے گا تواس پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر اس ملک کے نرخ کے حساب سے دینا لازمی ہوگا، خواہ آپ یہ قیمت بیرون ملک میں ادا کریں یا اس کی اجازت سے پاکستان میں ادا کیا جائے۔
عید الفطر کے دن پیدا ہونے والے بچے کا حکم
عید الفطر کے دن طلوع فجر سے پہلے جو بچہ پیدا ہوجائے اس کی طرف سے تو صدقہ فطر کی ادائیگی غنی پر واجب ہوتی ہے، لیکن عید الفطر کے دن طلوع فجر کے وقت جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے، بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی حمل کی طرف سے فطرانہ ادا کرے گا تو وہ خود اس کی طرف سے نفلی صدقہ شمار ہوگا(الدرالمختار ،دارالافتإ بنوری ٹاٶن)
صدقہ فطر کی مقدار اور اجناس
صدقہ فطر میں چار اجناس چار ہیں گندم، جو، کھجور، کشمش، اس میں سے کسی ایک جنس کا دینا یا اس کی مارکیٹی قیمت کادینا ضروری ہے، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1:گندم نصف صاع یعنی پونے دو کلو تاہم احتیاطًا دو کلو یا اس کی بازاری قیمت دینی چاہیے۔
2: جو ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی بازاری قیمت ہے۔
3:کھجور ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی بازاری قیمت ہے۔
4:کشمش ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی بازاری قیمت ہے، لہذا مذکورہ چار اجناس میں سے کسی ایک کی بازاری قیمت فقیر کی حاجت پورا کرنے کے لیے بطورِ صدقہ فطر دینا زیادہ بہتر اور آخرت میں ثواب کا باعث ہے۔ (فتاوی ہندیہ)
سال 2023 ٕ بمطابق 1444صدقہ فطر کی تفصیل:
گندم دو کلو احتیاطا قیمت: 250 جَو ساڑھے تین کلو قیمت: 450 کھجور ساڑھے تین کلو قیمت: 2100 کشمش ساڑھے تین کلو قیمت : 2800 (جاری کردہ :دارالافتإ جامعہ فاروقیہ کراچی )
صدقہ فطر ان چار اجناس میں کسی ایک جنس یا اس کی قیمت سے ادا کیا جاسکتا ہے جن لوگوں کو اللّٰہ نے مال کی فراوانی دی ہے وہ اپنی مالی حیثیت کے پیش نظر اعلٰی جِنس یا اس کی قیمت سے صدقہ فطر ادا کرے
نوٹ : فی روزہ فدیہ کی بھی یہی مقدار ہے
صدقہ فطر کے مصارف
صدقہ فطر کا مصارف بھی وہی ہیں جو زکاة کا مصارف ہیں یعنی مسلمان فقیر آدمی جو سید/ہاشمی نہ ہو۔
مصارف زکوة ، عشر اور صدقہ فطر کی تعداد آٹھ ہے
1۔ فقراء، 2۔ مساکین، 3۔ عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)، 4۔ مؤلفۃ القلوب، 5۔ غلام کی آزادی، 6۔ مقروض، 7۔ فی سبیل اللّٰہ، 8۔ مسافر
مدارس بھی انہی مصارف میں آتے ہیں جن میں اکثر طلباء مسافر یا غریب مستحق ہوتے ہیں، دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین کی بقا ہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکاۃ دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج و اشاعت میں تعاون ہے، لہذا مدارس کے غریب، مستحقِ زکاۃ طلبہ کو زکاۃ دینا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور دوہرے اجر کا باعث ہے، اس مہنگاٸی کے سیلاب میں محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، مُعاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے، ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے رب کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے ۔
