7 اکتوبر 2023۔۔۔ اس روز مشرق وسطیٰ نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ چند افراد جو جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں دلیری سے اپنے اوپر قابض افواج سے ٹکرا گئے ۔۔۔
پہلے ہی حملے میں انہوں نے دشمن کے علاقے کو خاصا دہشت زدہ کر دیا اور ان کو مارنے کے ساتھ ساتھ یرغمال بھی بنا لیا۔۔۔
دوسری جانب دشمن نے اپنی خصلت سے مجبور ہو کر سامنے آ کر دوبدو جواب دینے کے بجائےنہتے شہریوں پر حملہ کر دیا ، اس حملے میں دشمن نے یہ پرواہ بھی نہ کی کہ وہ رہائشی عمارتوں پر حملہ کر رہا ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھی موجود ہیں۔۔۔
اس کے بعد بھی اس نے بس نہ کی بلکہ شہروں کے شہر باسفورس بم کے نشانے پر رکھ دیے اور پھر۔۔۔۔۔
انسانی آ نکھ نے ظلم کی ایک نئی داستان رقم ہوتی دیکھی۔۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ اچانک ایسا کیا ہو اکہ فلسطینیوں نے حملہ کر دیا۔۔
تو اس کا پس منظر جانتے ہیں ۔۔۔
2007 میں حماس نے اپنے آ پ کو الیکشن کے ذریعے منوایا لیکن جب ان کو ان کا حق نہ دیا گیا تو انہوں نے بزور طاقت اپنا حق لے لیا۔۔
اس کے بعد ناجائز اسرائیلی قبضے کے خلاف تحریک میں تیزی آئی جو صیہونی ریاست کو ہضم نہ ہوئی ۔۔۔ انہوں نے فلسطینیوں پر حملے کر کر کے انہیں نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا۔۔
2009 میں غزہ ایک ایسی جیل میں تبدیل ہو گیا جہاں صاف پانی سمیت بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی قریب قریب ناممکن بنا دی گئی ۔۔۔
غزہ کی پٹی اور مغربی فلسطینی کنارے کے درمیان نقل و حمل مشکل ترین بنا دیا گیا۔۔۔
اور اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ہر سال دو سال بعد غزہ پر حملے کیے جانے لگے۔۔۔حماس نے بھی دفاعی انداز اختیار رکھا اور دنیا بھر سے مدد کی اپیل کی ، اسی سلسلے میں جب ترکی نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایک امدادی جہاز ” فریڈم فلوٹیلا ” کے نام سے ان کی مدد کے لیے بھیجا تو اس جہاز تک پر حملہ کر دیا گیا اور اس میں موجود امدادی تنظیموں ، صحافیوں وغیرہ کو قید کر لیا گیا ، پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی اس میں شامل تھے۔۔۔
دو سال قبل مسجد اقصیٰ کے علاقے میں مکانات کو جبراً خالی کرایا گیا اور تیسرا ہیکل تعمیر کرنے کا واضح اشارہ دے دیا گیا ۔۔
اس پر بھی بس نہیں عید الضحیٰ پر حملہ کیا گیا پھر پچھلے سال رمضان کا تقدس پامال کرتے ہوئے پھر حملہ کیا گیا اور فلسطینیوں کو مسجد میں اعتکاف کرنے سے روکا گیا۔۔۔
یہ تمام باتیں مل کر اس حملے جسے ” طوفان الاقصیٰ” کا نام دیا گیا ہے ، اس کا سبب بنی ہیں۔۔۔
لیکن۔۔۔
ایک اور نظریہ بھی گردش کر رہا ہے۔۔۔
اور وہ یہ کہ حالیہ تمام واقعات اسرائیل کی جانب سے خود تخلیق کردہ ہیں تاکہ نائن الیون کی مانند کوئی واقعہ رونما کرایا جائے پھر اس کو جواز بنا کر تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا جائے ۔۔۔
اگر اس نظریے کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اسرائیل پر ہونے والا ہر حملہ غزہ پر کیے گئے حملے کا جواب خود بخودہی بن جائے گا۔۔۔
اسرائیل کی جانب سے حالیہ باسفورس بم کے حملے کے بعد تو حماس والے خواہ کچھ بھی کریں ، اسرائیل مظلوم بننے کا ڈرامہ نہیں کر سکتا ۔۔۔
اسرائیل کی جانب سے پھینکے گئے باسفورس بم کا بدلہ لینے کے لیے فلسطینی جو بھی کریں کم از کم میں تو اسے حق بجانب ہی کہوں گی۔۔۔
کچھ حقیقی یہودی جو اپنی مذہب کی روح کو اختیار کرتے ہیں اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے تمام حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور ان کا واضح موقف ہے کہ تمام یہودی صیہونی یعنی zionist نہیں ہیں۔۔۔
عالم اسلام کی جانب دیکھیں تو سب سے زیادہ مضبوط موقف طالبان کا سامنے آ یا ہے جنہوں نے کہا کہ اگر فلسطین کے ہمسایہ مسلم ممالک ہمیں اجازت دیں تو ہم القدس فتح کر لیں گے۔۔۔اس کے بعد چیچنیا کے صدر رمضان کادروف نے بھی فلسطین کی فوجی حمایت کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور ساتھ ہی باقی امت کو بھی جگانے کی کوشش کی یے۔۔۔
محمد بن سلمان نے بھی اسرائیل سے تعلقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے جو خوش آ ئیندہے۔۔۔دوسری جانب ایران کے راہنما خامنہ ای نے بھی بیان دیا کہ حماس نے جو کچھ کیا ہے میرا جی چاہتا ہے ان کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔
تمام مسلم ممالک میں ہمارا ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہنوز اس صورتحال میں نیوٹرل پالیسی پر چل رہا ہے۔۔۔
سینیٹر مشتاق نے حکومت کو جگانے کی کوشش کی ہے تاہم لگ رہا ہے کہ اثر کچھ نہیں ہوا۔۔
عوامی سطح پر قریباً تمام پاکستانی عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔۔۔بہت سے افراد اپنے مال کے ذریعے بھی فلسطینیوں کی امداد کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے انسانیت کی شدید ترین تذلیل کرتے ہوئے مصر کی جانب سے امدادی سامان کو بھی روک دیا ہے اور اس پر بھی حملے کی دھمکی دی ہے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے 9 افراد کو بھی ائر سٹرائیک کے دوران ہلاک کر دیا۔ اس کے علاوہ ہلال احمر کے رضاکاروں پر بھی براہ راست حملہ کیا اور ہسپتالوں تک کو نہیں بخشا۔۔
شہریوں پر مسلسل بمباری کرنے کے جواب میں القسام بریگیڈ نے تل ابیب پر حملہ کر دیا اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی مدد کے لیے لبنان سے حزب اللہ کے مجاہد بھی پہنچ گئے ۔۔۔
یہ جنگ اب فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکی ہے اور حماس نے اسرائیل کی جانب اپنا طوفان میزائل داغنے کی دھمکی بھی دے دی یے۔۔۔
میرا نظریہ ہے کہ
جنگ ہونی نہیں چاہیے تاہم اگر جنگ ناگزیر ہو گئ ہو اور حق و باطل صاف دکھائی دے رہا ہو تو کم از کم اگر حق کا ساتھ دے نہیں سکتے تو ظالم کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق دے۔۔۔
بحیثیت مسلمان ہمیں چاہیے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات اور اس کے حمایتی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور عوامی سطح پر اس بائیکاٹ کو یقینی بنائیں۔
اگر صاحب ثروت اور صاحب استطاعت ہیں تو اپنے مال کے ذریعے اس جہاد میں حصہ ڈالیں اور مستند و با اعتماد تنظیموں کے ذریعے جہاد بالمال کریں۔
اس سلسلے میں الخدمت فاؤنڈیشن اور فاتح فاؤنڈیشںن پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے مال کے ذریعے فلسطینیوں کی قوت و طاقت بڑھائی جا سکتی ہے۔۔۔