161

عزیز بھٹی بن جاٶ/تحریر/ام محمد عبداللہ

سر احتشام ظہیر کالج سٹاف روم میں بالکل خاموش بیٹھے تھے جبکہ ساتھی لیکچرار ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے تٸیں حکمت و دانش اور پاکستان کے ساتھ خیر خواہی کے موتی بکھیر رہے تھے۔
زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے اور پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
انڈین فلم انڈسٹری بھارت کی میعشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ہمارے ملک میں بھی فن اور فن کار کی حوصلہ افزاٸی ہونی چاہیے۔
کشمیر کی وجہ سے دونوں ممالک کے فوجی جوان اور ان کے خاندان دباٶ میں رہتے ہیں خطے میں امن کے قیام کے لیے کشمیر پر سمجھوتہ کر بھی لیا جاٸے تو کچھ برا نہیں۔
جب عربوں کو اسراٸیل کو تسلیم کرنے میں کوٸی تامل نہیں تو پاکستان کو اسراٸیل سے کیا مسلہ ہے؟
دل پر بوجھ لیے سر احتشام کالج کیفے ٹیریا میں چلے آٸے۔ جہاں من چلے طلبا۶ کھا لے پی لے جی لے اور تھوڑی مستی تھوڑا فن کی عملی تصویر بنے ہوٸے تھے۔ ان کے دل پر کٸی من بوجھ اور آن گرا۔
میں کب تک خاموش رہوں گا؟ انہوں نے سوچا
جوانو!
تم سب 6 ستمبر کی شام میرے گھر ہاٸی ٹی پر مدعو ہو اور ان کی گرمجوشی کا کھلے دل سے خیر مقدم ہوا۔
آج سے 56 سال پہلے
آپ ہی کی طرح ایک جوان تھا
جو اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹا تھا، ہاں بی آر بی نہر جس پر قبضہ بھارتی افواج کا خواب تھا
لیکن وہ نہیں جانتیں تھیں کہ خواب اس جوان کی آنکھوں میں بھی سجے تھے۔ اپنے وطن کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر ثابت کرنے کے خواب۔

7 ستمبر کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ بی آر بی نہر پر حملہ کیا تو وطن کے اس عظیم سپوت نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹا رہا۔ یہ اعصاب شکن معرکہ جب 12 ستمبر کو پانچویں روز میں داخل ہوا تو اس وقت تک بھارت کے چھ حملے روکے جا چکے تھے۔
ایسے میں
آگے جانے والے پاکستانی سپاہی اور ٹینک ایک ایسے مقام پر پھنس گئے جنہیں واپس لانا ضروری تھا۔ اس پر اس بہادر جوان نے اپنی فوج کو منظم کرکے کئی اطراف سے حملہ کیا اور پاکستانی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوگیا لیکن اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے دوران ایک شیل نے اس کے کندھے کو شدید زخمی کردیا اور وہ صرف 42 سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش کر کے رہتی دنیا تک ہمیں یہ سبق دے گیا کہ اپنے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ڈٹ جانے میں ہی قوم کی بقا ہے۔
میرے عزیز طلبا۶
پاکستان کا یہ عظیم سپوت میجر عزیز بھٹی شہید ہیں۔
میرے پیارو!
آج آپ میں سے ہر ایک بی آر بی نہر کے کنارے کھڑا ہے۔ بزدل اور مکار دشمن آپ کی سرحدوں پر حملہ آور ہے۔ آپ کو اس معرکے میں میجر عزیز بھٹی بن کر اپنی سرحدوں کی انچ انچ کی حفاظت کرنا ہے۔
سر احتشام بول رہے تھے اور طلبا۶ کے چہروں پر سوالیہ نشان تھے۔
سر دست دشمن کسی سرحد پر حملہ آور نہیں تھا پھر وہ سب عزیز بھٹی کیسے بنتے؟
سر احتشام گویا ہوٸے
آج معرکہ حق و باطل جغرافیاٸی نہیں نظریاتی سرحدوں پر برپا ہے۔
پاکستان زمین کا صرف ایک ٹکڑا نہیں ایک نظریاتی مملکت ہے۔ یہ دو قومی نظریے پر قاٸم ہوا۔
اس نظریے کے مطابق ہندوستان کا متحدہ قومیت کا نظریہ مسترد کیا گیا اور قطعیت کے ساتھ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو الگ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا جبکہ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسےمشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند بالآخر 1947ء میں پاکستان کے قیام میں کامیاب ہوٸے۔
آج ایک بار پھر امن اور انسانیت کے دلفریب نعرے لگا کر ہندوستان کی متحدہ قومیت پروان چڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
آج سے ستر دہاٸیاں پہلے ہندو غلامی کاجو طوق پہننے سے پہلے ہی ہمارے بزرگ توڑ گٸے ہم اس کی طرف انجانے میں لپک رہے ہیں۔
اور آج سے چودہ سو برس قبل اللہ پاک نے سورہ الکافرون میں جب ہمیں واضح بتا دیا
کہ کافروں کے لیے ان کا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین
تو ہم پھر ہم کسی بھی نام کے ساتھ دنیا کے دٸیے گٸے قوانین کی مکس مصالحہ چاٹ کو اپنے اس نظریاتی وطن میں کیسے لاگو کر سکتے ہیں؟
بات طلبا۶ کی سمجھ میں آ رہی تھی۔
ان سب کو اب میجرعزیز بھٹی بن کر اپنے وطن کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں