92

عفت و پاکدامنی حقیقی کامیابی کا راز ہے/تحریر/آمنہ عارف/خانیوال

تحریر/آمنہ عارف/خانیوال

اللہ نے ہمیں انسان بنایا اور اشرف المخلوقات بنا کر عقل کا نور عطا کیا اور اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا اور مزاج شریعت کے عین مطابق بنایا۔
ہر بچہ فطری طور پر باحیا ہوتا ہے، اگر ہم اس جوہر کو پامال نہ ہونے دیں اس کی حفاظت کریں تو یہی فطری حیا انسان کے لیے بے حیائی، بے شمار گناہوں اور برائیوں سے بچنے میں معاون ہوتی ہے اور اگر اللہ پاک کی دی ہوئی یہ عظیم نعمت بے حیائی کے ذریعے پامال کر دی جائے تو پھر بندہ آزاد ہو جاتا ہے اور اس کے اعمال ایسے ہو جاتے ہیں کہ اس کے اعمال دیکھ کر شیطان کو بھی شرم آتی ہے۔
عفت و پاکدامنی ایسی نعمت ہے جو بندے کو اللہ پاک کی طرف سے ایک بار بطور تحفہ ملتی ہے، اگر بندے نے اس کی حفاظت کر لی تو وہ اس کے لیے علو مرتبت کا ساماں ہوتی ہے۔ اور اللہ کے ہاں وہ شخص مقرب ہوتا ہے۔انبیاء اکرام وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے مینارۂ نور بنا کر بھیجا تو انہوں نے خود بھی پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزاری اور اپنے متبعین کو بھی اسی کی تلقین کی۔
لہذا پاکدامنی نبوت کا جزء اور اور انبیاء کی وراثت ہے، اللہ پاک نے جب حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی ولادت کے بارے خوشخبری دی تو ارشاد فرمایا “سیدا و حصورا و نبیا من الصلحین ( آل عمران)” کہ وہ لوگوں کے پیشوا ہونگے اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر محفوظ کیے ہوں گے اور نبی ہونگے اور ان کا شمار راست بازوں میں ہوگا”
آج ہم میں سے ہر شخص کامیابی چاہتا ہے، مرد ہو یا عورت طالب علم ہو یا کوئی بزنس مین سب کامیابی چاہتے ہیں۔ لیکن کامیابی کے لیے اپنے اپنے ذوق کے مطابق راستے تلاش کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید نے کامیابی کے اسباب اور کامیاب لوگوں کی صفات بتاتے ہوئے کہا “قد افلح المومنون، الذین ھم فی صلوتھم خٰشعون، والذین ھم عن اللغو معرضون، والذین ھم لفروجھم حٰفظون،
وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں، جو نا مناسب باتوں سے اعتراض کرتے ہیں، اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
ان ہدایات کے بعد مفہوم مخالف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو عفت و پاکدامنی کو پامال کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد ہوجاتے ہیں یعنی ایسے لوگ اگر چہ بظاہر ترقی کے منازل طے کر رہے ہوں اور عیش و عشرت سے رہتے ہوں لیکن در حقیقت ایسا بندہ ناکامی سے دور ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ اللہ تعالی نے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا “ولایزنون” اور جو زنا نہیں کرتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ پاکدامنی کی زندگی گزارتے ہیں اور اگر بالفرض بتقضائے بشریت ان سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو وہ جب تک سچی توبہ کے ذریعے سے اسکو معاف نہیں کروا لیتے ان کو چین نہیں آتا۔
ان تمام شوہدات کے بعد اگر یوں کہا جائے کہ عفت و پاکدامنی اس کائنات کی بقاء کا ذریعہ ہے تو یہ بات عقل سے بعید نہ ہو گی۔ اس کائنات میں عفت و پاکدامنی کا ماحول ہے تو یہ نظام چلتا رہے گا اور جب یہ ماحول ختم ہو جائے گا اور بےحیائی عام ہو جائے گی تو اللہ پاک اس نظام کو درہم برہم کر دےگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے وقوع کی جو بڑی بڑی نشانیاں بتائی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ عفیف نہیں رہیں گے۔
اندازہ لگائیے کہ پاکدامنی والی صفت کی اللہ پاک کے ہاں کتنی قدر ہے کہ روز محشر جب تمام بنی نوع انسانیت نفسا نفسی کے عالم میں ہوگی تو اس وقت کچھ لوگ ایسے ہونگے جن پر اللہ پاک کا خاص کرم اور خصوصی رحمت ہوگی اور ان میں وہ خوش نصیب بھی ہوں گے جو دنیا میں بے حیائی سے بچتے تھے۔ عین اس وقت وہ اپنے نفس پر اللہ کی خشیت کی وجہ سے قابو پا لیتے کہ جب انہیں گناہ کی دعوت مل رہی ہوتی حالانکہ وہ چاہتے تو موقع سے فائدہ بھی اٹھا سکتے لیکن انہوں نے ضبط نفس کا مظاہرہ کیا اور کردار کو گناہ سے آلودہ ہونے سے بچایا۔ لہذا ایسے لوگوں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ روز محشر اللہ تعالی کے عرش کے سایہ میں مطمئن و مسرور ہونگے۔ اللہ تعالی ہمارا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں