نصف رمضان المبارک کی آمد کے بعد بازاروں میں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے اور عید کی تیاریاں اپنے عروج پر جا پہنچتی ہیں۔عیدالفطر جسے ”چھوٹی عید“یا ”میٹھی عید“ بھی کہتے ہیں ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔
تمام مسلم امہ اس دن کو نہایت مذہبی عقیدت اور جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ویسے تو عید کا دن ہر خاص و عام بچے اور بوڑھے کے لیے باعث مسرت ہے مگر اصل تیاریاں تو بچوں،بچیوں اور خواتین کی ہوتی ہیں۔بچوں کو عید کے دن نئے کپڑوں،غباروں،کھلونوں اور عیدی ملنے کی خوشی ہوتی ہے تو خواتین و نوجوان لڑکیوں کو خوب سے خوب تر لگنے کی چاہ جس کے لیے پورا رمضان ذوق و شوق سے تیاری کی جاتی ہے۔
خاتونِ خانہ کو عید کے لیے گھر کی خصوصی صفائی ستھرائی بھی کرنی ہے اور ساتھ ساتھ سحر و افطار کی تیاریوں کے سنگ عید کے لذیذ پکوانوں کی فہرست بھی مرتب کرنی ہے۔میٹھی عید بھی مزیدار مٹھائیوں،شیر خورمہ اور سویوں کے بنا ادھوری ہوتی ہے۔کچھ گھروں میں ماہ رمضان میں خصوصاً کھجوروں اور پھینیوں کا ہدیہ دیا جاتا ہے۔اسی طرح عیدی کے تحائف میں ملبوسات،مہندی،چوڑیوں کے ساتھ سویاں بھی خصوصی طور پر بطور ہدیہ دی جاتی ہیں۔
اصل عید کی تیاریاں تو خواتین کی ہوتی ہیں جو عید پر منفرد اور خوبصورت نظر آنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف ہوتی ہیں۔ایک جانب خواتین بچوں کے لیے نئے ملبوسات اور جوتوں کی خریداری کرتی نظر آتی ہیں تو دوسری جانب اپنے لیے رنگ برنگ ملبوسات کی خریداری کرتے ہم رنگ جیولری،پرس اور جوتوں کی تلاش بھی جاری رہتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ خواتین عید کے کپڑوں کے تھان لے کر اپنے اور بچوں کے کپڑے خود سلائی کرتی تھیں۔پھر وقت بدلا اور یہ ذمے داری درزی اور درزن کے حوالے کر دی گئی اب یہ صورتحال ہوتی کہ لوگ کپڑے لینے کے لیے دکان پہ پہنچتے اور کوئی سوٹ تو سلا ہوتا تو کوئی ان سلا۔کبھی جلدی جلدی میں کسی کا پائنچہ آستین میں جوڑ دیا جاتا تو کبھی درزی نیفہ بنانا بھول جاتا۔کبھی تو سارا سوٹ ہی الٹی جانب سے سی کر پکڑا دیا جاتا ایسے میں چاند رات کو کئی درزی یا تو عورتوں کے ہاتھوں پٹ جاتے یا پھر دکان کے شٹر گرائے صبح تک کام کرنے میں مگن رہتے۔اسی اذیت سے بچنے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد نے ریڈی میڈ گارمنٹس کا رخ کیا تاکہ اپنے ناپ کے کپڑے بآسانی خرید کر پہنے جا سکیں۔نہ تو ان سلا کپڑا سلوانے کی جھنجھٹ ہو نہ سوٹ عید کے بعد سل کر آنے کی پریشانی۔نہ ہی درزیوں کے خواہ مخواہ کے نخرے برداشت کیے جائیں۔
کرونا کے بعد سے جہاں دنیا بدلی وہیں ان لائن شاپنگ نے بھی خوب کامیابی سمیٹی۔جب تک لوگ گھروں تک محدود تھے ان لائن شاپنگ ایپس نے لوگوں کو بہت سہولت فراہم کی جس کے باعث کافی خواتین کو گھر بیٹھے ان لائن آرڈر کرنا اور کپڑے منگوانا خوب آسان لگنے لگا سو اس ذریعے میاں کی خوب جیبیں ڈھیلی کی گئیں۔کرونا کے بعد دنیا تو بدل گئی مگر نہیں بدلیں تو خواتین نہیں بدلیں،جو نیا کپڑا لے کر اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد بھی جب تک لیا ہوا کپڑا بدلوا نہ لیں انہیں سکون نہیں ملتا۔ان لائن شاپنگ میں تو آئے دن کبھی سائز کا مسئلہ ہوتا ہے تو کبھی رنگ کا،کبھی کپڑے کی کوالٹی اچھی نہیں ہوتی تو کبھی کپڑے کی سلائی۔غرضیکہ اب بھی خواتین کو گھر بیٹھے خریداری کر کے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر بھی خواتین اور خریداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کسی صورت نہیں چھوٹ سکتا۔اب وہ چاہے کوئی لوکل دکان کی سیل ہو یا برانڈڈ کپڑوں کی سیل،ان لائن ڈسکاؤنٹ آفر یا فری ڈیلیوری کی آفر خواتین اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا موقع جانے نہیں دیتیں۔
صنف نازک ہیں تو سجنا سجانا تو ان کا حق ہے اور یہ حق عید تہوار پہ خوب اچھی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
عید کے جوڑے سے کہانی شروع ہو کر میچنگ جیولری،ہم رنگ جوتوں اور پرس سے ہوتی ہوئی جاذب نظر میک اپ تک جا پہنچتی ہے۔
کپڑوں جوتوں کی شاپنگ تو سارا رمضان چلتی ہی رہتی ہے مگر مہندی اور چوڑیوں کے بنا بھی عید ادھوری ہے۔مہندی کے دلکش و دیدہ زیب ڈیزائن بنوانے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد چاند رات کو چھوٹے بڑے پارلرز کا رخ کرتی ہے۔وہ خواتین جو خود مہندی لگا سکتی ہیں مختلف ڈیزائن گوگل کر کے مہندی سے نقش و نگار بناتی ہیں جبکہ وہ خواتین جو اس ہنر سے نابلد ہیں ان کے شوہر یا بھائی رات گئے تک پارلرز کے دروازے کے سامنے ایک ٹانگ پہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ مہندی لگوانے والیوں کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں اور اچھی مہندی لگانے والیاں منہ مانگے دام وصول کرتی نظر آتی ہیں کیونکہ یہ عید ان کے لیے بھی کمائی کا موثر ذریعہ ہے۔
نوجوان لڑکیاں اور بچیاں عموماً باریک پھول بوٹوں کی بیلیں اور ہلکے ڈیزائن لگوانا زیادہ پسند کرتی ہیں جبکہ شادی شدہ خواتین انڈین یا عربی ڈیزائن کی مہندی لگوانا پسند کرتی ہیں جس میں ہاتھ دیدہ زیب نقش و نگار سے بھرا دکھائی دے۔
ستائیسویں رمضان کو جہاں ایک جانب مساجد میں ختم القرآن کی دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب تراویح کے بعد سے گلی محلے کا ہر پارلر خواتین سے بھر جاتا ہے۔پلکنگ،ویکسنگ،ہیئر کٹنگ،کلرنگ،کلنزنگ اور فیشل کروانے کے لیے خواتین قطار در قطار موجود ہوتی ہیں۔سارا سال کچن تک محدود رہنے والی خواتین بھی اس دن خاص طور سے پارلر جانے کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ عید والے دن اچھے کھانوں کے ساتھ اچھی صورت سے بھی گھر والوں کے دل جیت سکیں۔
عید سے پہلے عید کی رونق دیکھنی ہے تو آخری تین روزے کسی بھی پارلر میں گزاریے۔جہاں ایک کونا تھریڈنگ کے لیے مخصوص ہوتا ہے تو دوسرا بالوں کی کٹنگ اور کلر کے لیے۔کہیں ایک خاتون کے منہ پہ مساج ہو رہا ہوتا ہے تو دوسری کے منہ پہ ماسک لگا ہوتا ہے۔ایک جانب ویکسنگ والیوں کی قطار ہوتی ہے تو دوسری جانب مہندی لگوانے والیوں کی۔کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے اور آپس میں باتیں کرتی خواتین کی آوازیں پارلر میں مچھلی منڈی کی طرح گونج رہی ہوتی ہیں۔یہی سب تو عید کی رونقیں ہیں۔
کچھ دہائی پہلے تک تو عید کی حسین یادگار عید کارڈ بھی تھے جن کی روایت اب دم توڑ چکی ہے اور اب اس کی جگہ واٹس ایپ مسیجز، ایموجی،اسٹیکرز نے لے لی ہے مگر اپنے پیاروں کو عید پر تحفے دینے کی روایت اب بھی زندہ ہے۔شادی شدہ خواتین کی عیدی تو اب بھی بہت چاؤ سے میکے کی جانب سے روانہ کی جاتی ہے۔جبکہ بہن بھائیوں،عزیز رشتے داروں اور سسرالیوں میں عید پہ خصوصی تحائف کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ان تحائف میں بچوں کے کپڑے، مہندی، چوڑیاں، جیولری،سویاں،میوہ جات وغیرہ شامل ہیں۔ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی خوشیوں کو اپنے پیاروں سے بانٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
عید کے اس پر مسرت موقع پر گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور دیگر غریب غربا کو خصوصی طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔عید سے پہلے ہی ان کے تحائف اور صدقہ فطر ان کو ادا کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی عید کی رونق سے محظوظ ہو سکیں۔
مہنگائی کے اس مشکل دور میں عید کی تیاریاں کرنا اور اس کی گہما گہمی سے لطف اندوز ہونا ہر شہری کے لیے ممکن نہیں۔سو اپنے آس پاس سفید پوش گھرانوں پر خصوصی نگاہ رکھیے اور اس عید پر ان کے لیے کچھ تحائف کا اہتمام ضرور کیجیے تاکہ ان کی بھی عید کی خوشی کا لطف دوبالا ہو سکے۔
53