102

غزل/یہاں منصف کو لازم ہے گواہی سن کے بھی ارقم/شاعری/ارقم شہیر عباسی

پیام نور آنے تک حجاب شب اترنے تک
سیاہی راج کرتی ہے اجالے کے ابھرنے تک

ترے دست رحم کی خیر ہو لیکن مرے دل پر
کئی تازہ زخم ہوں گے پرانے گھاؤ بھرنے تک

بیابان و شہر میں اس سے بھی تفریق ہوتی ہے
وہاں کےگدھ جوہوتےہیں صبررکھتےہیں مرنےتک

امید و یاس سے ہٹ کر مقام فکر ہے یارم
نجانے تو کہاں ہوگا ہمارے دن سنورنے تک

مریضِ مرگ سے کہہ دو زرا ٹہرے صبر رکھے
رعایا نے کھڑے رہنا ہے حاکم کے گزرنے تک

کہاں نظروں کی تابانی کہاں یہ مرض آشوبی
خسارہ پا گئیں آنکھیں خوابوں کے بکھرنے تک

میں حامی گلستاں ہوں فریق دوم سے کہہ دو
مری تحریک رہنی ہے رخ گل کے نکھرنے تک

یہاں منصف کو لازم ہے گواہی سن کے بھی ارقم
نتیجہ روک کر رکھے گواہوں کے مکرنے تک

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں