201

غزوہِ بدر الکبری/تحریر/ام عمر/کراچی

دنیا کے تینوں ابراہیمی مزاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) امن کے داعی ہیں- اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا
”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیاتھاکہ جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیااس نے گویا تمام انسانوں کوقتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویاتمام انسانوں کو زندگی بخش دی، مگران کاحال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھربھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں“۔
قرآن نے ایک مسلمان کے قتل کی بجائے ایک انسان کے قتل کا ذکر کیا اور ساتھ یہ بھی فرمایاکہ ایک انسان کو بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔

لیکن تینوں مزاہب کی اللہ کی وحی کی ہوئی کتابوں (توریت، انجیل اور قرآن) میں حق کی ترویج کے لئے مسلح جدو جہد اور قتال کی اجازت بھی دی گئی ہے- مگر بہت ساری شرائط اور پابندیوں کے ساتھ-اسلام جس کے معنی ہی امن ہیں میں بھی مسلح جنگ وجدال اور قتال کی بہت اہمیت ہے-

مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کی ابتدا 2 ہجری ہی سے جنگی جد و جہد کے واقعات شروع ہوگئے-
اس بظاہر متضاد مگر اسلام کی ترویج میں اہم جنگی عمل کا تعلق اسلام یعنی امن کے دعوے کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے تاکہ مخالفین اور کمزور عقیدہ کے افراد کے اعتراضات کو اطمینان بخش جواب دیا جاسکے-

بدر کے واقعے کو بعض غیر مسلم مصنفین نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا ہے اور اعتراض کیا ہے کہ ایک پر امن اور تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
اس کو سمجھنے کے لئے ہم اسلام کے اولین جہاد بالقتال یعنی غزوہ بدر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے-

یوم الفرقان

اِس غزوہ نے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا۔ اِس لئے اِس غزوہ کے دن کو ”یوم الفرقان“ بھی کہتے ہیں
جیسا کہ قرآنِ مجید میں بیان ہے:۔
(الانفال۔41)
”اور اِس پر جو ہم نے اپنے (محبوب) بندے پر ”فیصلہ کے دن“ اُتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں۔“
یعنی مسلمان مجاہدین اور کافر دہشت گرد اِس دن جمع ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ذِلّت آمیز شکستِ فاش سے مشرکین مکہ کو ذلیل وخوار کیا تھا ۔
یہ واقعہ ١٧رمضان المبارک ٢ہجری بمطابق ١٣ مارچ ٦٢٤ء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں کفار مکہ سے ہوا، جن کی قیادت ابوجہل کر رہا تھا ۔ ابوجہل کے ساتھ اس غزوہِ میں قبیلہ قریش اور دیگر عرب قبائل بھی شامل تھے۔
یہ معرکہ مدینہ کے جنوب مغرب کے علاقے بدر کے مقام پر ہوا۔ اس لئے اس غزوہِ کو بدر کبریٰ بھی کہا جاتا ہے۔

پس منظر

غزوہِ بدر کا پس منظر کچھ یوں ہے۔
مکہ کی اکثریت نے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں دین کا پیغام اور تبلیغ کا کام شروع کرتے ہی مسلمانوں اور آپ کی مخالفت شروع کردی- اس پیغام کو انہوں نے اپنے مفادات اور حکمرانی پر حملہ سمجھا اور دین اسلام کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی- ہر طریقہ سے مشکلات اور تکالیف پہنچائیں یہاں تک کہ طویل عرصہ کی مشکلات برداشت کرکے اللہ کا حکم ملنے پر مسلمانوں کو مجبوراً مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آنا پڑا۔
سفر ہجرت سے زرا پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باقاعدہ قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا جس کا زکر اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں کیا ہے۔
مدینہ میں اسلام زیادہ تیزی سے پھیلا۔ یہ بات کفار قریش کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وہ رات دن مسلمانوں کو اور دین اسلام کو نقصان پہنچانے کے منصوبے زیادہ تیزی سے بنانے لگے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے لیکن کفار مکہ اسی فکر میں رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بھی تبلیغ اسلام سے روکیں اور مدینہ منورہ میں دین کی تعلیمات نہ پھیلائی جا سکیں۔ اسی بے چینی میں کفار مکہ نے عبداللہ بن ابی کو پیغام بھیجوایا کہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے ،اب یا تم ان کو پناہ دینے سے ہاتھ اثھا لو ،ورنہ ہم تم پر حملہ کر دیں گے۔(سنن ابو داؤد ،کتاب الخراج،باب٢٣, حدیث نمبر : ۳۰۰۴)
انصار میں اوس قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گئے تو عین طواف کے دوران ابو جہل نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے اور اگر تم ہمارے ایک سردار کی پناہ میں نہ ہوتے تو تم ذندہ واپس نہیں جا سکتے تھے ابو جہل کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ اگر کوئی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئے گا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر تم ہمارے آدمیوں کو مکہ مکرمہ انے سے روکو گے تو ہم تمہارے لئے اس سے بڑی رکاوٹ کھڑی کر دیں گیں۔ ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے تجارتی قافلے شام جاتے ہیں تو یہ تجارتی قافلے مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتے ہیں۔اس لئے تمہاری اس بات کے بعد ہم تمہارے تجارتی قافلے پر حملہ کرنے اور ان کا راستہ روکنے میں ازاد ہونگے۔
اسی دوران کفار مکہ کے کچھ لوگ مدینہ منورہ کے قریبی آس پاس کے علاقوں سے مسلمانوں کے مویشی لوٹ کر لے گئے۔
اس طرح کے کشیدہ حالات میں ابو سفیان (جو اس وقت کفار مکہ کے سردار تھے) سامان سے لدا ہوا بھاری تجارتی قافلہ لے کر شام کے سفر کو روانہ ہوئے۔ مکہ کے ہر فرد نے اس تجارتی قافلے میں سرمایہ لگایا تھا اور یہ قافلہ سو فیصد منافع کے ساتھ واپس ارہا تھا۔ اس کے ساتھ اس قافلے کی سکیورٹی کے لئے چالیس مسلح افراد بھی تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے کی واپسی کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چیلنج کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے پر حملہ کرنے کا ارادہ فرمایا اور اہک فوجی لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ اس دستہ میں ۳۱۳ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ستر اونٹ، دو گھوڑے اور ساٹھ زرہیں شامل تھیں۔ اس مختصر اور ایمانی جزبہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے نکلے۔

ان سارے حالات کی ابوسفیان کو اطلاع ملی تو اس نے ابوجہل کو پورے لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ کرنے کا مشورہ دیا اور اپنا تجارتی قافلے کا راستہ بدل دیا اور بحر احمر کے ساحل کی طرف نکل گیا تاکہ چکر کاٹ کر مکہ مکرمہ پہنچ سکے۔ ابوجہل نے موقع سے فائدہ اٹھا یا اور ایک بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا۔

غزوہ کی تفصیلات
قرآن مجید کی ٤٢ آیت میں غزوہِ بدر کے محاذ جنگ کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ مسلمان عُدۡوَةِ الدُّنۡيَا کے پاس تھے اور کفار عُدۡوَةِ الۡقُصۡوٰى کے پاس مسلمانوں کا مقام میدان بدر کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ منورہ کے قریب تھا اور کفار میدان کے اس کنارے پر تھے جو مدینہ منورہ سے بعید تھا۔(عُدۡوَةِ کے معنی ایک جانب کے آتے ہیں اور لفظ دنیا ادنی سے بناہے جس کے معنی ہیں قریب تر۔اور لفظ الۡقُصۡوٰى اقصی سے بنا ہے اقصٰی کے معنی ہیں بعید تر۔)

اس نقشہ جنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان جنگی اعتبار سے بالکل بے موقع اور غلط جگہ ٹھیرے تھے۔اس جگہ سے دشمن پر قابو پانا بلکہ ظاہری حیثیت سے اپنی جان بھی بچانا بھی مشکل تھا اس کے ساتھ مدینہ کی طرف کی زمین بھی ریتیلی تھی جس پر چلنا بھی بہت مشکل تھا اس کے مقابلے میں کفار مکہ کا جس جگہ پڑاؤ تھا وہ زمین بھی صاف تھی اور پانی بھی قریب تھا-

اِس غزوہ میں مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اُونٹ 6 زرہیں اور 8 شمشیریں تھیں ۔ایک ایک اُونٹ پر تین تین مسلمان سواری کرتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم ‘ حضرت سیّدنا علیؓ اورحضرت مرثد غنویؓ ایک اُونٹ پر اور حضرت سیّدنا ابو بکرصدیقؓ‘ حضرت عمروؓ اور حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ دوسرے پر باری باری سوار ہوتے تھے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ ابوجہل نے مسلمانوں کا لشکر دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان کی تعداد زیادہ معلوم نہیں ہوتی جن کی خوراک ایک اونٹ ہو۔ عرب میں اس وقت لشکر کی تعداد معلوم کرنے کا یہی طریقہ تھا کہ کتنے جانور زبح کیے جاتے ہیں ایک اونٹ سو لوگوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کفار کے لشکر کا معلوم کرنے کے لئے بیجھا کہ وہاں کتنے اونٹ زبح ہوتے ہیں تو پتہ چلا کہ دس اونٹ روز زبح ہوتے ہیں۔لشکر کفار کو مسلمان کل سو دکھائے گئے حالانکہ مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی-
کم دکھانے کی حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ تھی کہ کفار پر مسلمانوں کا رعب نہ چھا جائے اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں۔

اس طرح مسلمانوں کو قلت و بے سامانی کے باوجود فتح مبین دے کر اسلام کی حقانیت اور تائید غیبی کاجو اظہار واضح ہوا وہ رہتی دنیا تک قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔قدرت الہی قلت کو کثرت پر قوت کو کمزور پر غلبہ دے کم کو زیادہ ،ذیادہ کو کم کر دے۔

اِس غزوہ نے حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کر دیا۔ اِس لئے اِس غزوہ کے دن کو ”یوم الفرقان“ بھی کہتے ہیں جیسا کہ قرآنِ مجید میں بیان ہے:۔
”اور اِس پر جو ہم نے اپنے (محبوب) بندے پر ”فیصلہ کے دن“ اُتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں۔“
یعنی مسلمان مجاہدین اور کافر دہشت گرد اِس دن جمع ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ذِلّت آمیز شکستِ فاش سے مشرکین مکہ کو ذلیل وخوار کیا تھا ۔

اللہ تعالیٰ کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ
“اے اللہ یہ قریش ہیں اپنے سازوسامان اور غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں اے اللہ اب تیری وہ مدد اجائے جس کا تونے مجھ سے وعدہ فرمایا ۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہو سکے گی”.
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دی جس کا ذکر سورہ انفال میں موجود ہے-

اس حقیقت کو قرآن نے سورہ انفال کی آیات میں بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ دو دفعہ پیش آیا ۔ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھلایا گیا کہ کفار کی تعداد کم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خواب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو سنایا جس ان کی ہمت میں اصافہ ہوا ۔ دوسری دفعہ عین میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے جب دونوں لشکر مد مقابل تھے تعداد کم دکھائی ۔ان دونوں واقعات کو (یعنی خواب کی اور بیداری کی ) قرآن مجید میں سورہ انفال کی آیات ۴۳اور ۴۴ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔
”بے شک تمہارے لئے نشانی تھی دو گروہوں کی جو آپس میں لڑ پڑے‘ ایک جتھہ اللہ (تعالیٰ)کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کفر کی، (مسلمانوں نے) جوآنکھوں دیکھا اپنے سے دوگنا سمجھیں۔“ ( آل عمران: 13)

مسلمانوں کو اللہ کریم نے فتح عظیم سے نوازا۔

مسلمانوں میں صرف 14 جانثاروں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 6 مہاجر اور باقی انصار تھے لیکن دوسری طرف قریش کی اصل طاقت ٹوٹ گئی

روسائے قریش جو اپنی قوم میں بہادری میں مشہور اور قبائل کے سپہ سالار تھے‘ ایک ایک کر مارے گئے۔
اِن میں عتبہ، ابو جہل، ابوا لبختری‘ زمعہ بن الاسود ، عاص بن ہشام ، امیہ بن خلف ، عتبہ بن الحجاج قریش کے سردار تھے قریباً ستر واصل جہنم اور اِسی قدر گرفتار ہوئے ۔
اِس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے صرف چودہ مجاہد شہید ہوئے جن کے اَسمائے مبارک یہ ہیں۔ حضرت عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف، حضرت عمیر بن ابی وقاص ، حضرت ذوالثمالین عمیر بن عبد بن عمرو بن نضلہ‘ حضرت عاقل بن ابی بکیر، حضرت مہجع مولی عمر بن خطاب ‘حضرت صفوان بن بیضار (یہ چھ مہاجرین میں سے ہیں) ،حضرت سعد بن خیثمہ ، حضرت مبشر بن عبدالمنذر ،حضرت حارثہ بن سراقہ، حضرت عوف و معوذ پسران عفرائ، حضرت عمیر بن حمام، حضرت رافع بن معلیٰ اور حضرت یزید بن حارث بن فسحم (یہ آٹھ انصار میں سے ہیں) رضی اللہ عنہم ۔

بدر کے میدان میں جن تین سو تیرہ (313) نفوس قدسیہ کا شیطانی قوتوں سے مقابلہ تھا‘ وہ کس قدر بزرگ اور عظیم شان والے تھے کہ جن کے حق میں امام الانبیائ نے دُعائیں فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل فرمایا‘ اُن مجاہدینِ اِسلام کے پاس ساز و سامان جنگ بھی مختصر تھا۔ آٹھ شمشیریں، چھ زر ہیں، دو گھوڑے اور ستر اُونٹ۔ عجیب قسم کی بے سر و سامانی تھی۔ بے سر و سامانی اورکم افرادی قوت کے مقابلے میں ایک ہزار فوج ہر قسم کے آلاتِ حرب سے آراستہ‘ پیادہ، سوار‘ زرہ پوش وغیرہ مگر فتح نے اہلِ ایمان کے قدم چومے اور خالق کائنات نے فرمایا : ”اور بے شک اللہ (تعالیٰ) نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔“

قتال کی عقلی وجوہات

تاریخ نے بہت مشاہدہ اور تجربہ کر لیااور اب تاریخ ہی گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ نقصان میں رہا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے،نیک عمل کیے،حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کی۔

کیوں؟

اس لئے کہ یہ اللہ کی مشیت اور اللہ کا پلان ہے- اللہ حق اور امن کے دین کو اس دنیا میں نافذ کرنا چاہتا ہے مگر اپنے ماننے والے بندوں کے ذریعے-

غزوہ بدر اس سوچ کو کھول کر واضح کرتا ہے-

اسلام میں ہر قسم کا اختلاف، لڑائی جھگڑا اور قتال کسی بھی انسان سے منع ہے سوائے اللہ کی راہ میں- اللہ کی راہ سے مطلب جب اللہ کے بتائے احکامات کی نفی اس حد تک ہوجائے جہاں اللہ آپ سے خود چاہے کہ آپ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف جہاد اس اگر موقع آجا8ے تو قتال کرکے ظالم کو خوف زدہ کرکے اس کے ظلم کو روک دیں- اس عمل کے لئے مسلمان حاکم کو اختیار دیا ہے اور اس اختیار کی حدود واضح مقرر کردی گئی ہیں- اس موقع پر کسی قسم کی کمزوری دکھانا یا کمزوری کی وجہ سے خوف کھانے کو کفر کے مساوی سمجھا گیا ہے-
اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اس کی خاطر اور انصاف کے ساتھ ظالموں کے خلاف جہاد وقتال کریں گے تو اللہ ان کی ہر طرح مدد کرے گا- اور جو مسلمان اس جہاد میں قتل ہوجائیں گے تو انہیں شہادت کا رتبہ عطا ہوگا-

غزوہ بدر ایسے جہاد کی ابتدا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی 1400 سال سے زیادہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے- حال ہی میں افغانستان جیسی کمزور قوم نے اللہ کے نام پر جہاد وقتال کرکے روس اور امریکہ دونوں آج کی عظیم قوتوں کو شکست کھاکر مکمل پسپائی اختیار کرنا پڑی- سوائے اصولوں کی پابندی اور اللہ کی طرف رجوع کے اور کوئی قوت ان کے ساتھ نہیں تھی- غزوہ بدر ایک معیار ہے مسلمانوں کی عسکریت کے لئے-
اللہ ہمیں دین سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

جب تک اس کردار کے لوگ ہماری قیادت نہیں کریں گے تباہی انسانوں کا مقدر رہے گی چاہے جنگیں ہوں یا نہ ہوں۔

( اس مضمون کی تیاری میں معارف القرآن (مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ) اور آسان ترجمہ قرآن ( مفتی محمد تقی عثمانی صاحب) سے مدد لی گئی )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں