195

غزہ کے مجاور/پہلی قسط/تحریر/کیپٹن ر غلام شبیر منہاس(نامور کالم نگار و سماجی رہنما)

مسلم دنیا کا یہ نمایندہ ادارہ اپنے مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوا یا قائم رہ سکا اس کو آپ خود دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس نے بطور چودھری مسلم دنیا کی پنچائیت اور فیصلہ جات کرنا تھے مگر حالات کے جبر اور ناموافق موسموں کی آندھیوں میں خود اسکے لیئے اپنا شملہ اور پگ سبنھالنا ممکن نہ رہا۔ یوں آج پوری اسلامی دنیا نبض شناس اور ویثزی قیادتوں سے محروم بانجھ پن کا شکار ہے۔

اس وقت فلسطین میں قیامت بپا ہے اور بلاتخصیص مذہب پوری دنیا میں یوں سکوت ہے جیسے کوئی ذی روح یا ذی شعور ملک، قوم، نسل اور بنی نوع انسان خدا کی اس سرزمین پر موجود ہی نہیں۔
تادم تحریر اسرائیلی فوج کی نسل کش کارروائیوں میں شہادتوں کی تعداد 5 ہزار 8 سو ہو چکی ہے جس میں 23 سو سے زائد بچے اور 13 سو سے زائد خواتین ہیں۔ 18 ہزار زخمی یوں پڑے کراہ رہے ہیں جیسے ویران جنگلوں میں درندوں نے انہیں چھیڑ پھاڑ دیا ہو اور دور دور تک ایسی کسی آبادی کا نام نشان تک نہ ہو جہاں انکی آواز پہنچ سکے۔
عزہ کے 35 میں سے 12 ہسپتالوں نے مکمل طور پہ کام بند کر دیا ہے۔ 72 میں سے 46 طبی مراکز غیر فعال ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں پہ کئی گئی وحشیانہ بمباری میں اب تک ڈاکٹروں سمیت پیرا میڈیکل سٹاف کے 65 افراد لوگوں کی جان بچاتے خود موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ رفح کراسنگ پوائنٹ پر 20 ٹرکوں کا پہلا قافلہ داخلے کا منتظر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ، جی ہاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خبردار کیا ہے کہ ایندھن نہ ملا تو آج نہ صرف غزہ کے ہسپتال بند ہو جایئں گے بلکہ صاف پانی کی دستیابی بھی ناپید ہو جائے گی۔

اس پورے پس منظر میں آئیں دیکھتے ہیں کہ او آئی سی اور اقوام متحدہ کہاں کھڑے ہیں۔ ان اداروں کا وجود کیونکر قیام پذیر ہوا، ان کے مقاصد کیا تھے اور یہ اپنے قیام کے بعد اپنے ان مقاصد میں کامیاب ہوئے یا پوری دنیا میں ہونے والی تباہی اور اموات پہ محض ” قبروں کے مجاور ” بن کر رہ گئے۔

اقوام متحدہ سے قبل ہم مسلم دنیا کے سب سے معتبر فورم کے قیام و کردار پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 57 مسلم ممالک پہ مشتمل اسلامی دنیا کی تنظیم او آئی سی کا قیام 1969ء میں عمل میں لایا گیا۔ اور ہمیں یہ پڑھ کر حیرانگی ہو گی کہ اس کے قیام کا پس منظر ہی مسلہ فلسطین تھا۔ جب مسجد اقصی کو آگ لگائی گئی تو قبلہ اول سے بلند ہوتے شعلے اس تنظیم کے قیام کا باعث بنے تھے۔ مزید یہ کہ او آئی سی کے جنرل سکریٹریٹ کا صدر مقام یروشلم طے پایا تھا۔ او آئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل فایئو میں طے ہے کہ “چونکہ یروشلم اس وقت اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے تو ہم عارضی طور پر یہ سکریٹریٹ جدہ میں قائم کر رہے ہیں۔ البتہ جیسے ہی یروشلم آزاد کرا لیا جائے گا تو یہ سکریٹریٹ یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔ یعنی یروشلم کی آزادی او آئی سی کے چارٹر کا حصہ ہے۔ او آئی سی کے چار اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہیں جن میں سے ایک کا کام ہی صرف فسلطین اور القدس کے معاملات کو دیکھنا ہے۔او آئی سی نے ایک ” القدس کمیٹی” بھی بنا رکھی ہے جسکی ذمہ داری فلسطین اور القدس کے معاملات کو سٹڈی کرنا اور اس کی روشنی میں اقدامات تجویز کرنا ہے۔ تاکہ وہ اقدامات تجویز کرے اس پر قرارداد لائی جائے تو او آئی سی اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے۔ او آئی سی کی پالیسی میں لکھا ہے کہ فلسطین کی آزادی کیلئے جہاد کیا جایئگا۔ اور اس جہاد کے تین پہلو یعنی معاشی، سفارتی اور عملی یعنی عسکری ہوں گے۔ عسکری جہاد کے باب میں رقم ہے کہ یہ عام افراد کی سطح پر بھی ہو گا اور ریاستی سطح پر بھی، یہاں تک کہ فلسطین آزاد ہو جائے۔ آزادی کی انہی کاوشوں کو عملی رنگ دینے کیلئے ” اسلامک آفس فار ملٹری کوآپریشن ود فلسطین ” کا مستقل شعبہ قائم کیا گیا۔اور اس شعبہ کے ذمہ لگایا گیا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں گروہوں کی ہر طرح سے معاونت کی جائے۔ او آئی سی نے اس کیلئے ایک متفقہ قرارداد پاس کی کہ اس شعبہ کا ایک فوجی جنرل سربراہ بنا جائے۔ اس باب کو سمیٹنے سے قبل یہ بھی پڑھ لیں کہ او آئی سی کا آفیشل موقف ہے کہ ” نہ صرف تمام مسلمان حکومتیں فلسطین کی آزادی کے لیے کام کریں بلکہ عام لوگ بھی بھلے وہ اسلامی ملکوں میں قیام پذیر ہوں یا غیر مسلم ممالک میں، وہ دنیا میں جہاں بھی ہوں فلسطین کے کاز کیلئے کام کریں۔
مسلم دنیا کا یہ نمایندہ ادارہ اپنے مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوا یا قائم رہ سکا اس کو آپ خود دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس نے بطور چودھری مسلم دنیا کی پنچائیت اور فیصلہ جات کرنا تھے مگر حالات کے جبر اور ناموافق موسموں کی آندھیوں میں خود اسکے لیئے اپنا شملہ اور پگ سبنھالنا ممکن نہ رہا۔ یوں آج پوری اسلامی دنیا نبض شناس اور ویثزی قیادتوں سے محروم بانجھ پن کا شکار ہے۔
اب ایک نظر دنیا کے بڑے چودھری یعنی اقوام متحدہ کو بھی دیکھ لیں۔
یہ بنیادی تصور ایک امریکی صدر روزویلٹ کا تھا۔ جس نے پہلی جنگ عظیم میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد محسوس کیا کہ ایک ایسی عالمی تنظیم تشکیل دی جائے جو دنیا میں کبھی جنگ نہ ہونے دے۔ اجتماعی شعور اور تدبر سے کام لیتے ہوئے ایسے مسائل کا حل قبل از جنگ تلاش کرے جن سے لڑائیوں اور جنگ و جدل کا سبب بننے کا اندیشہ ہو۔
یوں دوسری جنگ عظیم کے اختتامی مہینوں میں امریکا، برطانیہ، سوویت یونین اور قوم پرست چین نے ایک عالمی تنظیم کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا جس کا چارٹر تشکیل دینے کیلئے سان فرانسسکو وار میموریل اوپیرا ہاوس میں 25 اپریل تا 26 جون 1945ء پچاس قوموں کے 13 سو مندوبین سر جوڑ کر بیٹھے ۔یہ اس وقت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع تھا جس سے دنیا بھر سے اس وقت اڑھائی ہزار صحافیوں نے کور کیا۔ یوں 24 اکتوبر 1945ء کے دن اکیاون ملکوں کے دستخطوں کیساتھ ” اقوام متحدہ ” پیدا ہوئی۔ آج اس کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے۔
جاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں