93

قربانی کا مقصد اور فلسفہ/تحریر/محمد سعد ترناوی

1:📿 قربانی کا عمل ہر دین وملت میں موجود رہا ہے:
قربانی پیش کرنے سے متعلق حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعات سے واضح ہوجاتاہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا ایسی عظیم عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امتِ محمدیہ تک ہر دین وملّت میں موجود رہی ہے،جیسا کہ قرآن کریم سورت الحج آیت 34 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے
▪ ترجمہ:
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
چنانچہ حکیمُ الامّت مجدّدُ الملّت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب سے حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تب ہی سے ان جانوروں کا ذبح کرنا بحکمِ الہٰی جاری ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ ہابیل نے قربانی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوئی۔‘‘ (امداد الفتاویٰ)
اس سے یہ حقیقت تو سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنےکا عمل ہر امت کے لیے مقرر کیا گیا البتہ اس کے طریقےاور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے، انھی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امتِ محمدیہ علیٰ صَاحِبِہَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کو عید الاضحیٰ کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔اس پوری تفصیل سے قربانی کے عمل کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے۔

2:📿 قربانی اسلامی شعائر میں سے ہے:
قرآن کریم کی رو سے قربانی اسلامی شعائر یعنی نشانیوں میں سے ہے، جس کے ذریعے اسلام کی شان وشوکت نمایاں ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
☀ سورتِ حج آیت 32، 36، 37:

▪ ترجمہ:
’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔۞ اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔۞ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنادیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں انہیں خوشخبری سنا دو ۔۞‘‘
▪ تفسیر:
شعائر کے معنی ہیں: وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں، اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر میں داخل ہیں، اور ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)
قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی جیسی عظیم الشان عبادت اپنے اندر ایک عالیشان مقصد لیے ہوئے ہے کہ بندہ اپنے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری کے لیے ہمہ وقت تیار رہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی تمام تر خواہشات پرمقدّم رکھے، اللہ تعالیٰ کی محبت تمام محبتوں پر غالب رکھے، اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی جان، مال، اولاد اور خواہشات سمیت ہر چیز کو قربان کرنے سے دریغ نہ کرے، اپنے آپ کو مکمل اللہ تعالیٰ کے تابع کردے اور زندگی کے تمام معاملات میں شریعت کی پیروی کو ترجیح دے۔
یہی قربانی کی حقیقت اور فلسفہ ہے! یہی ہر سال قربانی کرنے کا سبق ہے کہ ہمیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے سب کچھ قربان کرنا آجائے، اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے اُس عظیم واقعہ سے سب سے بڑا درس بھی یہی ملتا ہے کہ اللہ کا حکم پورا کرنے کے لیے والد نے بیٹے تک کو قربان کرنے میں تأمُّل اور پس وپیش نہیں کیا، بلکہ جیسے ہی اللہ کا حکم آیا تو فورًا اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اور بیٹا بھی وہ جو بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد عطا ہوا تھا جبکہ والدین کی عمر ڈھل چکی تھی! اور سعادت مند بیٹے نے بھی اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرا برابر بھی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس میں تاخیر اور عذر پیش کرنے کی ذرا بھی کوشش کی، جیسا کہ ان سے متعلق قرآنی واقعہ میں ’’فَلَمَّآ أَسۡلَمَا‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہورہاہے کہ دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کیا، چنانچہ قرآن کریم سورۃ الصَّافّات میں اس عظیم الشان واقعہ کا ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیں آیت 100 تا 111:

▪ ترجمہ:
[حضرت ابراہیم علیہ السلام نےدعا مانگی کہ:] ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔۞ چنانچہ ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔۞ پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اُنھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔۞ چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا،۞ اور ہم نے اُنھیں آواز دی کہ: اے ابراہیم! ۞ تم نے خواب سچ کر دکھایا۔۞ یقینًا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔۞ یقینًا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا،۞ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اُ س بچے کو بچا لیا۔۞ اور جو لوگ اُن کے بعد آئے اُن میں یہ روایت قائم کی۞ (کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہو ابراہیم پر!۔۞ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں،۞ یقینًا وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔۞‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)
یہ ساری صورتحال اس بات کی خبر دیتی ہے کہ قربانی کرنے کو محض ایک عمل نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا مقصد اور فلسفہ سمجھ کر اس سے سبق حاصل کیا جائے۔

📿 قربانی جیسی عبادت کو محض رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے!
قربانی ایک عظیم عبادت ہے اور اس کا حاصل اللہ کی رضا ہے بس! اس کا تقاضا یہ ہے کہ قربانی کی عبادت سر انجام دینے میں قدم قدم پر یہی تصور غالب اور مدنظر رکھنا چاہیے کہ یہ خالص عبادت ہے اور اس سے اللہ کی رضا مقصود ہے، اس لیے قربانی کا جانور خریدنے، اس کی خدمت کرنے، اس کو ذبح کرنے، اس کو تقسیم کرنے اور اس کے حصے بناکر رشتہ داروں اور حاجت مندوں میں بانٹنے تک کے تمام مراحل میں یہ تصور دل ودماغ سے اوجھل نہ ہونے پائے کہ یہ قربانی عبادت ہے اور اسے عبادت ہی کی طرح اور عبادت ہی کی نیت سے سر انجام دینا ہے تاکہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے۔

📿 قربانی میں عبادت کا تصور برقرار رکھنے کے بہترین نتائج:
جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اور دینی شعائر ہونے کے تصور کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس کے بہترین نتائج یوں نمایاں ہوتے ہیں کہ:
▪قربانی بوجھ اور تاوان سمجھ کر ادا نہیں کی جاتی بلکہ خوشی خوشی اللہ کا حکم سمجھ کر ادا کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل سے متعلق شرعی احکام سیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر قدم قدم پر شریعت کے ان احکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں اخلاص مدنظر رکھا جاتا ہے، اور ریاکاری اور نام ونمود کے طور طریقوں سے بالکلیہ دور رہا جاتا ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں نماز اور اس جیسی دیگر اہم عبادات ترک نہیں کی جاتیں بلکہ ہر حکم کی بجا آوری کی کوشش کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں کسی حکمِ شرعی کی مخالفت نہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
▪پھر ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی عبادت ہی برقرار رہتی ہے اور اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔

📿 قربانی میں عبادت کا تصور برقرار نہ رکھنے کے بُرے نتائج:
لیکن مذکورہ تفصیل کے برعکس جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اور دینی شعائر ہونے کے تصور کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو اس کے برے نتائج یوں نمایاں ہوتے ہیں کہ:
▪قربانی بوجھ اور تاوان سمجھ کر ادا کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے کے تمام مراحل سے متعلق شرعی احکام سیکھنے کی نہ تو کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی قدم قدم پر شریعت کے ان احکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ رکھا جاتا ہے، مہنگے سے مہنگے جانور خرید کر ان کی نمائش کی جاتی ہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں اور ہماری شہرت ہو۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں نماز ادا کرنے کی پروا نہیں کی جاتی، اسی طرح دیگر عبادات سے بھی پہلو تہی کی جاتی ہے۔
▪قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، جانوروں کی منڈیوں میں گانوں کی آوازیں بجتی ہیں، جانور خریدنے کے لیے جاتے ہوئے سواریوں میں گانے بجتے ہیں، خواتین بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، حرام مال سے بھی جانور خرید لاتے ہیں اور جانور خریدتے وقت شرعی احکام کی مخالفت کی جاتی ہے۔
▪پھر ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی میں عبادت کی روح برقرار نہیں رہتی، بلکہ یہ ایک دنیاوی تہوار اور جشن بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں قربانی اللہ کے ہاں کیسے قبول ہوسکے گی!!

⬅️ اس لیے مسلمانو! جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے، اگر ہم نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی اور خود کو ان برائیوں سے دور نہ رکھا تو رفتہ رفتہ قربانی عبادت کی بجائے ایک دنیاوی رسم بن جائے گی اور پھر ہماری نسلیں اس کی حقیقت سے محروم رہ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں