96

/لوگ کیا کہیں گے/تحریر عبدالرؤف ملک (کمالیہ)

یہ ایک ایسا جملہ ہے جس نے زندگی کی تمام رعنائیاں ختم کردی ہیں۔ ترقی کی منازل، آگے بڑھنے کی جستجو اور مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ایک جملہ ہے یہ ایک ایسا زہرِ قاتل ہے جس نے تقریباً ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کردیا ہے ہمارے دل و دماغ میں یہ ڈر اورخوف بٹھا دیا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگوں کا کام صرف تنقید برائے تنقید ہوتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کو خوش کرلیں گے تو یہ آپکی بھول ہے میرا یہ ماننا ہے کہ جس طرح زندہ مینڈکوں کو ترازو کے پلڑے میں ڈال کر تولنا ناممکن ہے اسی طرح لوگوں کو خوش رکھنا بھی ناممکن ہے۔ آپ نے وہ باپ بیٹا اورگدھے والی کہانی تو سنی ہی ہوگی کہ پہلے باپ بیٹا گدھے کی رسی پکڑ کر چل رہے تھے تو لوگ انکو بےوقوف کہنے لگے پھر وہ دونوں گدھے پہ سوار ہوگئے تو دیکھنے والے انکو ظالم کہنے لگے کہ بےزبان جانور پہ ظلم کررہے ہیں پھرباپ نے بیٹے کو گدھے پر سوار کردیا خود نیچے اتر گیا تو دیکھنے والے بیٹے کو کوسنے لگے کہ کیسا ناخلف بیٹا ہے خود گدھے پر بیٹھا ہے اور باپ بیچارہ پیدل چل رہا ہے لوگوں کی باتوں سے بچنے کیلیے باپ گدھے پر سوار ہوگیا اور بیٹے نے گدھے کی رسی پکڑ لی تو لوگ باپ کو خود غرض کہنے لگ پڑے۔ یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے اور افراد کا رویہ ہے اور حقیقت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ اگر آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے کی چاہ ہے تو اپنی زندگی سے اس ایک جملے کو نکال دیں اور اپنی منزل پہ فوکس کریں لوگ جو کہتے ہیں کہتے رہیں انکی باتوں پہ دھیان دوگے تو پھر آگے بڑھنے کا خواب صرف خواب ہی رہ جائے گا آپ کبھی بھی اسکو حقیقت میں نہیں دیکھ پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں