84

مؤرخ لکھے گا/تحریر/سمیرا صدیق

اکتوبر بھی کتنے ہی دکھ اور درد لیے بیت گیا۔۔۔اب نومبر بھی۔۔۔دکھ۔۔۔کرب۔۔۔اذیت۔۔۔اور غم سے لبریز گزرتا جا رہا ہے۔۔۔ہر گزرتے موسم اور دن کے ساتھ۔۔۔ امت مسلمہ کے درد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔اور مسلمانوں کی ہی نہیں۔۔۔بلکہ ہر اہل درد کی بھی نگاہیں۔۔۔اس وقت بابرکت سرزمین فلسطین کی جانب مرکوز ہیں۔۔۔وہ ایسی جگہ ہے۔۔۔جسے رب رحمٰن نے بٰرَکْنَا فِیْھَا کہا۔۔۔تو اس کے گردونواح کو بٰرَکْنَا حَوْلَهٗ کہا۔۔۔
اس بابرکت سرزمین پر غاصب صیہونیوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر ڈالی ہے۔۔۔ظالم اور غاصب بزدل صیہونیوں نے نہتے شہریوں پر بارود کی بارش برسا رکھی ہے۔۔۔اوراس بارودی بارش میں بھیگتا ہر وجود ہی۔۔۔۔امت مسلمہ کا درد رکھنے والے۔۔۔ہر ملک اور خطے کے مسلمانوں کا اپنا وجود ہے۔۔۔وہ مسلمان کہ جو کَالْجَسَدِ الْوَاحِد کی عملی تصویر ہیں۔۔۔جو کرب اور دکھ کی اس گھڑی میں۔۔۔امت مسلمہ کے ساتھ اپنی تمام ترجغرافیائی مجبوریوں کے باوجود شامل ہیں۔۔۔فلسطین کے مسلمانوں کے آگے ڈھال بن جانے کی تڑپ انہیں بے خواب رکھتی ہے۔۔۔ظالم صیہونیوں کی بمباری کا نشانہ بنتے۔۔۔معصوم فلسطینی بچوں کو۔۔۔ وہ اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے بے تاب و بے قرار ہوتے ہیں۔۔۔وہ کبھی ظالم صیہونیوں سے۔۔۔فلسطینی ماؤں اور بہنوں کی آہوں اور آنسوؤں کا بدلہ لینے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔۔۔وہ اپنی کوششوں سےصیہونیوں کو کمزور کرتے ہیں۔۔۔وہ جانتے ہیں۔۔۔کہ مؤرخ لکھ چکا تھا۔۔۔یہ بات۔۔۔۔کہ جب فلسطین (بیت المقدس) پر یہودی قابض ہوئے تو صلاح الدین ایوبی کو کسی نے مسکراتے نہیں دیکھا۔۔۔
ایک وقت آئے گا۔۔۔مؤرخ لکھے گا۔۔۔امت مسلمہ فلسطین میں زخموں سے چور تھی۔۔۔مسلمانوں کی ایک جماعت۔۔۔اپنی ہر ممکن کوشش سے۔۔۔کہیں یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہی تھی۔۔۔کہیں اپنے مال کو امت کے لیے پیش کر رہی تھی۔۔۔کہیں راتوں کو بیدار ہو کر۔۔۔مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں میں مشغول تھی۔۔۔کہیں اپنی علمی و قلمی صلاحیتوں کے ذریعے۔۔۔فلسطینی مسلمانوں کی حالت زار کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی تھی۔۔۔کہیں ان کے لیے سراپا احتجاج بن رہی تھی۔۔۔
تبھی۔۔۔مؤرخ حیرتوں کی سیاہی میں اپنے قلم کو ڈبو کر۔۔۔چند غیر مسلم اہل درد کی آوازوں کو بھی لکھے گا۔۔۔جو انہوں نے صیہونیوں کے ظلم کے خلاف بلند کیں۔۔۔
لیکن مؤرخ یہ بھی لکھے گا۔۔۔کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایسی بھی تھی۔۔۔جو قومی تہواروں میں مگن تھی۔۔۔فلسطین اور غزہ سے بلند ہوتی۔۔۔امت مسلمہ کی چیخ و پکار۔۔۔اور آہ و بکا۔۔۔کا ان کے معمولات زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔جو مگن تھی۔۔۔جو جماعت اپنی خوشیوں میں مصروف تھی۔۔۔
ہاں۔۔۔مؤرخ۔۔۔کانپتے ہاتھوں سے انہیں بھی مسلمانوں کی ایک جماعت ہی لکھے گا۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں