رات کا ایک تاریک پہر تھا جب میری نیند ٹوٹی- جاڑوں کی سرد راتیں کتنی تاریک اور خاموش ہوتی ہیں، یہ وہی جان سکتے ہیں جو اس پہر جاگ کر اسے محسوس کرتے ہیں- گھپ اندھیرا تھا، میں نے آنکھوں کو ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا تو پہلے کچھ دکھائی ہی نہ دیا، مگر جب آنکھوں پر زور ڈالا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پتھر کی سلوں سے بنی ایک طویل راہداری ہے، جس کے اطراف کی دیواریں بھی قدیم پتھروں سے چنی گئی تھیں- ان دیواروں کے اوپر وقفے وقفے سے محرابیں بنی ہوئی تھیں، جن سے بوسیدگی ٹپک رہی تھی اور ان پر کہیں کہیں مکڑی نے جالے بھی بن رکھے تھے- یہ منظر کسی قدیم ترین شہر کی ایک تنگ گلی کی مانند معلوم ہو رہا تھا یا شاید یہ کوئی قدیم قلعہ تھا-
راہداری کے آخری کونے پہ ایک پراسرار سی روشنی دکھائی دے رہی تھی- یہ کوئی چراغ تھا یا اس راہداری سے نکلنے کا کوئی روشن راستہ، یہ معلوم نہ تھا لیکن میں خاموشی سے اسی جانب چلنے لگا- شاید بہت عرصے سے یہاں کوئی نہیں آیا تھا- اس پہر میرے چلنے اور سانس لینے کی آواز کے علاوہ اور اور کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا- میں یہاں کیسے پہنچا تھا مجھے نہیں معلوم، لیکن میں دھیرے دھیرے اس روشنی کی جانب بڑھ رہا تھا جو راہداری کے آخر پہ مجھے نظر آئی تھی- میں نے محسوس کیا کہ میں اس جگہ پر اجنبی نہیں تھا، یوں لگتا تھا جیسے پہلے بھی کبھی یہاں آ چکا ہوں- شاید یہی وجہ تھی کہ میں بے چین اور خوفزدہ نہ تھا، ہاں البتہ یہاں سے نکلنا ضرور چاہتا تھا، کیونکہ اب مجھے کچھ پراسرار سائے ادھر ادھر منڈلاتے اور اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دینے لگے تھے- میں تیز قدموں سے چلنے لگا، مگر یہ سائے تھے کہ مزید بڑھتے چلے جا رہے تھے-
میں نے ابھی آدھا رستہ ہی طے کیا تھا کہ ایک سیاہ سایہ میری جانب بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے جیسے مجھ پہ چھا گیا- میں نے پوچھا کون ہو تم؟ وہ سایہ بولا تم مجھے نہیں جانتے؟ میں تو تمہارے ساتھ رہتا ہوں- لیکن جہاں تک مجھے معلوم تھا، سائے بات نہیں کیا کرتے جیسا کہ کسی نے کہا تھا،
“وہ میرے ساتھ رہتا ہے مگر ملاقات نہیں کرتا
وہ سایہ ہے شاید اس لیے کوئی بات نہیں کرتا”
مگر یہ سایہ تو مجھ سے نہ صرف بات کر رہا تھا بلکہ مجھے جانتا بھی تھا- وہ کہنے لگا تم جہاں بھی جاتے ہو میں تمہارا پیچھا کرتا ہوں اور تم سے جڑا ہوا ہوں- جتنے پیر بدل لو، مگر کسی آسیب کی مانند تم پر چھایا ہوا رہوں گا- میں نے اسے اپنا وہم سمجھا اور نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے چلنا شروع کر دیا- لیکن وہ سایہ میرے ساتھ ساتھ ہی چل رہا تھا- اب کی بار میں نے ذرا تلخی سے پوچھا، کون ہو تم؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، بیر کے ایک درخت کے نیچے کھیلتے ہوئے بچے سے لے کر اس سنبل کے درخت کے نیچے بچھڑنے کے منظر تک، اور پہاڑوں کے بیچ سستاتے ہوئے لڑکپن سے لے کر آج اس راہداری میں چلنے تک، تمہارے بارے میں سب جانتا ہوں- چاندنی راتوں میں تنہا سمندر کنارے بیٹھنے سے لے کر بیابانوں میں بھٹکنے تک کے سفر میں تمہارا ہم سفر رہا ہوں- یہ سن کر میں ایک پل کے لیے سہم گیا- راہداری کے اس پار وہ روشنی مجھے بلا رہی تھی، لیکن یہ سایہ میرا راستہ روکنے کی کوشش میں تھا- میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ کہنے لگا، تمہاری صبحیں اور شامیں، تمہاری بہاریں اور خزائیں سب جانتا ہوں- میں اس انتظار کو بھی جانتا ہوں جو اک زمانے سے تم کو ہے اور اس بے چینی کو بھی جو تمہاری رگ رگ میں بسی ہوئی ہے- تمہاری اس کھوج کو بھی جانتا ہوں جو تمہیں یہاں تک لے آئی-
اچانک مجھے قہقہے کی آواز سنائی دی- وہی سایہ جو اب تک مجھ سے باتیں کر رہا تھا، اب مجھے کشمکش میں دیکھ کر ہنس رہا تھا- اس قہقہے میں درد بھی تھا، راحت بھی تھی، اس میں خوشی بھی تھی اور غم بھی تھا- وہ اچانک خاموش ہوا اور بولا، یہ تلاش ہی تو ہے جو تمہیں رات کے اس پہر تخیل کی اس راہداری میں لے آئی ہے- وہ سایہ مجھ سے اتنا واقف کیسے تھا یہ سوچ کر مجھے کچھ خوف سا آنے لگا تو میں نے اپنی رفتار مزید تیز کر دی- اب میں اس راہداری کے پار پہنچنے ہی والا تھا کہ اچانک اس سائے نے اپنا سیاہ چوغہ اتار پھینکا، میں نے چونک کر اسے دیکھا تو ایک بوڑھا جھریوں زدہ چہرے والا شخص میرے عین سامنے موجود تھا-
میں اسے پہچان گیا تھا، یہ وقت تھا، یہ تو گزرا ہوا وقت تھا جو اس بوڑھے کا روپ دھارے مجھ سے گفتگو کر رہا تھا- میں نے اسے نظر انداز کیا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی، لیکن اس کے نوکیلے ہاتھوں نے مجھے پکڑنا چاہا، میں نے مزاحمت کی اور تیزی سے آگے بڑھا، مگر وہ جھریوں زدہ چہرہ یعنی میرا ماضی مجھے اپنی گرفت میں لینے ہی لگا تھا کہ میں راہداری کے اس پار موجود روشنی تک پہنچ گیا اور پھر اچانک میری آنکھیں چندھیا گئیں-
جب میں دیکھنے کے قابل ہوا تو میں اپنے ہی بستر پر موجود تھا- رات کا تاریک ترین پہر بیت چکا تھا اور صبح کا ستارہ نمودار ہونے لگا تھا-