تحریر/زاھد محمود

میرا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی سے ہے۔ میانوالی وہ بدقسمت ضلع ہے جس پر جب بھی میں کسی وجہ سے فخر کرنے لگتا ہوں تو کوئی نہ کوئی انسانیت سوز واقعہ میرے فخر کو خاک آلود کر کے رکھ دیتا ہے۔ پورے پاکستان میں قتل و غارت گری میں شاید کراچی کے بعد میانوالی ہی کا نمبر آتا ہے۔ گزشتہ سال بھی درندہ صفت انسانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے انسانوں کے شمار میں ضلع میانوالی سرفہرست رہا (ایسے درندوں کو انسان کہتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے)۔ سب سے اندوہناک واقعات وہ تھے جن میں حقیقی بیٹوں نے اپنے ماں یا باپ کو اور حیقیقی باپ نے اپنے معصوم اور نومولود بیٹوں اور بیٹیوں کو بڑی بے دردی اور سفاکیت سے موت کے گھاٹ اتارا۔
وہ واقعہ تو یقیناً آپ سب لوگوں کو کل کی طرح یاد ہوگا جس میں ایک نومولود اور خوبصورت بیٹی کو اپنے ہی سفاک اور درندہ صفت باپ کے ہاتھوں پستول کے برسٹ سے اپنا معصوم اور نرم و گداز سینہ چھلنی کروانا پڑا تھا۔ یہ ایسا دلفگار اور خوںچکاں واقعہ تھا کہ جس پر پورے پاکستان میں آواز اٹھائی گئی، واقعہ کی بھرپور مذمت کی گئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قانون کو پوری قوت سے نافذ کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر عدالتوں سے استدعا کی گئی کہ وہ ان اور ان جیسے دیگر جاھل مجرموں کو عبرت ناک سزاؤں سے دوچار کر کے معاشرے کو امن کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسی ہر استدعا اور ہر مطالبہ صدا بصحرا ثابت ہوا۔ اگر کہیں انتظامیہ نے کسی حد تک اپنی زمہ داری پوری کر کے مجرموں کو پکڑا بھی تو عدالتوں کے گورکھ دھندوں سے کوئی خیر کی خبر برآمد نہیں ہوئی۔
بدقسمتی سے میرے ملک میں ظالم سے زیادہ مظلوم کو رگیدا جاتا ہے، قاتل سے زیادہ مقتول کے لواحقین کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ظالموں کی پشت پناہی اور ان کی سرپرستی رواج پا رہی ہے۔ قتل و قتال کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ قتل کرنے والا ہر خونخوار درندہ قتل کی واردات کے بعد سینہ چوڑا کر کے اسے اپنا کمال سمجھتا نظر آتا ہے اور قتل ہونے والوں کے لواحقین رونے دھونے اور اپنی جمع پونجی تھانہ کچہریوں پر لٹانے کے بعد بھی اطمینان سے نہیں گزر پاتے۔ قاتل کو چھوڑ کر اس کے کسی بھی بے گناہ رشتہ دار کو بدلے میں قتل کرنا ایک اور بھیانک ظلم ہے جو میرے بدقسمت ضلع میانوالی میں بری طرح رائج ہے۔ اسے آپ اشرافیہ اور سول بیوروکریسی کی سستی کہیں یا ان کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہونے میں مکمل طور پر ناکامی کا الزام دیں، ان قبیح جرائم کے آگے بند باندھنے کی کوئی کامیاب صورت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ حرام خوری، رشوت ستانی اور انسانیت سوزی کے گملوں میں پروان چڑھنے والے یہ انسان نما درندے ظالموں اور قاتلوں کو حوصلہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجرم اذہان کو کسی بھی معصوم کی جان لینے کے لیے کسی مشکل یا عبرت ناک انجام کے خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
میانوالی میں ایک ایسے ہی مجرم اور شیطان صفت درندے نے ایک خوبصورت اور حسین و جمیل بچے کو (جو اس کا انتہائی قریبی رشتہ دار بھی تھا) پہلے اغوا کیا اور پھر ناکردہ گناہوں کی سزا میں اسے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آپ اس معصوم مقتول کی تصویر پر ایک نظر دوڑائیے اور اندازہ کیجئے کہ قاتل کس قدر حیوانیت اور شیطنت کا مارا تھا کہ جسے اس حسین و جمیل اور ننھے فرشتے کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے ذرا بھی انسانیت سے واسطہ نہیں پڑا۔ میانوالی کا یہ پہلا معصوم نہیں جسے انسانی حیوانیت کا سامنا کرنا پڑا مگر دعا ہے کہ خدا کرے یہ آخری معصوم ضرور ہو جس کا قاتل عبرت ناک انجام سے دوچار ہو کر ہاکی گراؤنڈ میانوالی میں پھانسی کے پھندے پر جھولتا نظر آئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ معصوم بچوں کے قتل کا یہ سفاک سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا اور محشر کے دن جب ہر انسان نفسا نفسی کے عالم میں ڈوبا ہوا ہوگا، میانوالی کے یہ ننھے فرشتے اپنے قاتلوں اور اس ملک میں رائج ظالم نظام کے سرپرستوں کو پکڑ پکڑ کر رب کی بارگاہ میں کھڑا کر کے یہ عرض کر رہے ہوں گے کہ میرے اللّٰہ ان ظالموں سے پوچھ تو سہی کہ انہوں نے ہم جیسے معصوموں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو کیوں رنگین کیا ؟ اور بحیثیت حکمران اور ملک کے کرتا دھرتا، ہمیں بے دردی سے قتل ہونے کے لیے بے یارو مددگار کیوں چھوڑا ؟
یقیناً جزا کے اس دن مالک روز جزا ان معصوم بچوں پر ظلم بپا کرنے والے ایک ایک ظالم کو اس کی طرف سے بپا کیے گئے بھیانک مظالم کی پوری پوری سزا سے دوچار کرے گا اور کسی بھی ظالم و قاتل درندے کو وہاں سے بھاگنے اور جہنم کی آگ سے بچنے کی کوئی راہ نہیں ملے گی !!!!