81

مجھے یاد ہے/تحریر/سمیرا صدیق

“مجھے یاد ہے۔۔۔” وہ درشت لہجے میں بولی۔۔۔
“تمہیں دیکھ کر لگتا ہے تم سب بھول گئی ہو۔۔۔میری محبت۔۔۔ میری چاہت کے وہ ہزار پھول جو میں تم پر نچھاور کرتا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہے ناں۔۔۔تم صرف میری بیوی نہیں۔۔۔میری محبت تھی۔۔۔”میں اس کے سامنے سٹ پٹا کر بول رہا تھا۔۔۔
“تھی۔۔۔”اس نے میرے آخری لفظ پر زور دے کر گویا میرے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔۔۔
“تم ایسی سخت تو نہ تھی”میں اس کے رویوں سے ٹوٹ رہا تھا۔۔۔
“مجھے یاد ہیں وہ سب ساعتیں
میری سسکیاں،تیری سماعتیں!!!
میری چپ اور لفظوں کے تیر سارے
مدنظر میں۔۔۔اور میری قباحتیں
وہ اپنے پرانے افسانوی اور شاعرانہ انداز میں ہمیشہ میرے دل میں اترتی۔۔۔لیکن میں افسانوی ذوق اور شاعرانہ شوق سے مبرا شخص۔۔۔بہت بری طرح اس کے انداز کو جھٹک دیتا۔۔۔ “مجھے مزید شرمندہ مت کرو۔۔۔ تم سے محبت کرتا تھا میں۔۔۔وہ بھی شدید محبت۔۔۔”تمہیں دیکھے بنا میرا ہر پل پہاڑ بن جاتا۔۔۔مجھے اپنے گرد صرف تمہارا سایہ ہی محسوس ہوتا۔۔۔”میں بلا ضرورت صفائیاں پیش کر رہا تھا۔۔۔
“محبت اور اذیت کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔۔۔ایک کو تو جانا ہوتا ہے۔۔۔اور جو نہ جائے۔۔۔عمر بھر وہی یاد رہتا ہے۔۔۔”اس کے الفاظ مجھے آئینہ دکھا رہے تھے۔۔۔میرے داغ دھبے سب مجھ پر عیاں ہو رہے تھے۔۔۔ اور وہ۔۔۔خود۔۔۔ہمیشہ کی طرح صاف شفاف نکھری شخصیت۔۔۔ باحجاب۔۔۔باوقار۔۔۔شرم و حیا سے معمور۔۔۔سراپا نور نظر آ رہی تھی۔۔۔
برسوں پہلے جب میں زیادہ پیسہ کمانے اپنے وطن سے دور یورپ گیا دولت اور یورپ کی ہوس نے مجھ سے حقیقی خوشی چھین لی۔۔۔جلد ہی میں نے وطن میں موجود اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر ایک یورپی عورت سے شادی کر لی۔۔۔ اور اپنی دنیا وہاں بسا لی۔۔۔لیکن اس دنیا نے مجھے ہمیشہ بے سکونی کا سامان ہی بخشا۔۔۔دولت کی فراوانی۔۔۔عیش و نشاط کے مشغلے مجھے لمحہ لمحہ بے چین رکھتے۔۔۔
آج جب میں اپنے آبائی قصبے واپس لوٹا۔۔۔جو قصبہ ہم دونوں کا تھا۔۔۔تو قصبے کی اکلوتی انتظار گاہ میں سالوں بعد میں اس کے روبرو خود کو بہت حقیر محسوس کر رہا تھا۔۔۔
“کہاں تک جانا ہے۔۔۔؟میں ڈراپ کر آتا ہوں۔۔۔”میں کچھ پل اس کے ساتھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ اپنے دل کی اندھیری دنیا کے کچھ قصے سنانا چاہ رہا تھا۔۔۔ اپنے سنگ بیتے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے لمحوں کو پہلی بار خراج تحسین پیش کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔اسی خاطر تو اسے اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کی پیشکش کر ڈالی۔۔۔
“نہیں۔۔۔شکریہ۔۔۔میری گاڑی پہنچنے والی ہے۔۔۔”وہ بہت آسانی کے ساتھ میری پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے بولی۔۔۔
“تمہیں کچھ بھی یاد نہیں رہا۔۔۔”میں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
میرے ان الفاظ پر اس نے میری نمناک آنکھوں کی جانب اپنی اچٹتی نظریں ڈالیں پھر شان بے نیازی سے اپنی نظریں دوسری جانب پھیر لیں اور بولی
“مجھے یاد ہے۔۔۔لیکن ان یادوں پر بہت ساری یادیں چھا گئی ہیں۔۔۔کچھ ایسی یادیں جو مجھے جینے کے لیے پر امید رکھتی ہیں۔۔۔جو مجھے کمزور نہیں بلکہ مضبوط بناتی ہیں۔۔۔جو میرے گرد خوشبوؤں کا حصار بناتی چلی جاتی ہیں۔۔۔جو مجھے نور کے ہالوں میں چھپا لیتی ہیں۔۔۔یہ یادیں ان لمحوں کی ہیں جن لمحوں میں بندہ اپنے مالکِ واحد،اللّٰہ رب العالمین سے کیے گئے وعدوں کو نبھاتا ہے۔۔۔جب بندہ کہتا ہے کہ میرا رب اللّٰہ ہے۔۔۔پھر وہ ان لفظوں پر جم جاتا ہے۔۔۔یہ یادیں ان لمحوں کی ہیں۔۔۔جن لمحوں میں۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کی وفائیں۔۔۔ نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیویوں کی جفائیں۔۔۔ عیسیٰ و موسیٰ علیہما السلام کی قوم کی جانب سے ابتلائیں۔۔۔یعقوب علیہ السلام کی التجائیں۔۔۔یوسف علیہ السلام کی نا کردہ گناہوں کی سزائیں۔۔۔محمد صلی وسلم کی دین اسلام کی طرف صدائیں۔۔۔ان صداؤں پر اپنی زندگی وقف کر دینے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی جان نثار ادائیں۔۔۔اور ان سب پر میرے رب کی عطائیں میرے لیے نشان منزل بن کر ماضی کی سب یادوں سے عظیم ترین ٹھہریں۔۔۔”اس کے لہجے میں۔۔۔اس کے الفاظ میں۔۔۔ اس کی گفتار میں۔۔۔بہت سکون ملا۔۔۔وہ سکون جسے میں ڈھونڈنے نکلا تھا۔۔۔
اس کی گاڑی آ چکی تھی۔۔۔اور وہ جا چکی تھی۔۔۔لیکن۔۔۔
اس کی گفتار کی
اس کے کردار کی
دل میں چبھتی رہی
نوک تلوار کی
کہیں جانے انجانے میں پڑھے ہوئے اشعار میری ترجمانی کررہے تھے۔۔۔اپنے وجود کی بکھری کرچیوں کو سمیٹے میں واپس مڑا۔۔۔اور جن یادوں نے اسے جینا سکھایا تھا۔۔۔ان یادوں کو میں بھی اپنے سینے میں بسانے کی چاہ لیے۔۔۔وہاں سے چل دیا۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں