247

مسجد نبوی کی تعمیر نو اور خلافت عثمانیہ/تحریر/ اعجاز خاں میو 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھایاگیاہے ۔ میں نے ایک کھاری زمین دیکھی ہے (خواب میں ) جہاں کھجور کے درخت ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان پڑتی ہے ۔(مراد مدینہ منورہ تھی ) ‘‘ یوم الزحمہ (جس دن قریش نے آپﷺ کو قتل کرنے کا مشورہ کیا ) کے دن حضرت جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ جس بستر پر آپ ﷺ آرام فرماتے ہیں آج اس بستر پر مت لیٹئے گا ۔ آپ ﷺنے اپنے بستر پر سیدنا علی المرتضیٰ؄ کو لیٹنے کے لئے فرمایا ۔ اور آپﷺ گھر سے نکلے تو ان کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ آپﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق؄ مکہ سے مدینہ منورہ کی جانب رات اندھیرے میں روانہ ہو ئے ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ 08 ر بیع الاول01ہجری20 ستمبر622 عیسوی کو قبا میں داخل ہوئے ۔یہو دی حساب سے تشرین اول کی دسویں تھی یعنی یہودیوں کے صوم ِکبور کا دن تھا اور یہود عاشورہ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔ گویا پیغمبر ِ اسلام ﷺ 27صفر سن ایک ہجری بمطابق10ستمبر622 عیسوی کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کے لئے نکلے تھے ۔ تاریخی روایات کے مطابق2200 قبل مسیح یثرب (مدینہ منورہ) کا شہر دنیا کے نقشہ پر نمو دار ہوا ۔جس کی آباد کاری کے اسباب اس طرح رونما ہوئے ۔ قوم عمالقہ اور جرہم یمن میں آباد تھے جو قحط کی جاں گداز مصیبت سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے پانی،چارہ اور سر سبز و شاداب علاقوں کی تلاش میں تہامہ کی طرف نکل گئے ۔ انہی کے چند خاندان ’’ یثرب ‘‘ کے مقام پر آبا د ہوئے ۔ قبائل عمالقہ اور جرہم ایک ساتھ یمن سے ترک وطن کرکے کچھ اطراف مکہ مکرمہ میں اور بعض مدینہ منورہ کے مقام پر آبا د ہوئے ۔ حضور اکرم ﷺ جب مکّہ معظّمہ سے ہجر ت فرما کر مدینۂ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بنی عَمْرو بن عَوف کے پاس دس دن سے کچھ زائد قیام فرمایا ۔ وہاں مسجد قُبا کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز ادا فرمائی۔ پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابۂ کرام ؇ کے جھُرمٹ میں آگے بڑھےیہاں تک کہ اونٹنی مدینۂ منورہ میں آ کر اس مقام پر بیٹھ گئی جہاں اس دن بعض مسلمان نماز ادا کررہے تھے۔ یہ کھجوروں کو خشک کرنے کی جگہ تھی اور یہ زمین دو یتیم بچوں سَہْل اور سُہَیْل کی تھی جو حضرت سیدنا اَسْعَد بن زُرارَہ ؄ کی زیرِ کَفالت تھے۔ جب اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہی ہماری منزل ہو گی ان شآء اللہ ۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان بچّوں کو بلایا اور ان سے زمین خریدنے کے لئے گفتگو فرمانے لگے تو انہوں نے عرض کیا: ہم آپ کو بطور نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے وہ زمین بلاقیمت قبول نہ فرمائی بلکہ اس کو خریدا اور رقم حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؄ نے ادا کی۔ مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ (بمطابق اکتوبر 622 عیسوی )کو ہوا۔ مسجد نبوی کا سنگ بنیاد اس انداز سے رکھا گیا کہ پہلا پتھر حضور اکرم ﷺنے، دوسرا سیّدنا ابو بکر صدیق ؄ نے، تیسرا سیّدنا عمرفاروق ؄ نے اور چوتھا سیّدنا عثمانِ غنی ؄ نے رکھا۔ اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ رسول ﷺ کی درج ذیل احادیث سے لگایا جاسکتا ہے: حضرت جابر ؄ سے روایت ہےکہ رسول اللهﷺ نے فرمايا : ’ ’ ميری اس مسجد ميں نماز (اجر کے اعتبار سے )دوسری مساجد ميں نماز پڑھنے سے ايک ہزار گنا افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام ميں نماز پڑھنا اس کے سوا مساجد ميں ايک لاکھ نمازيں پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘ خیال رہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کے ان تین مقدس ترین مقامات میں ایک ہے جہاں ثواب حاصل کرنے کی غرض سے طویل سفر کی اجازت ہے۔اس سلسلہ میں ایک اور جگہ فرمایا: ’’تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ) سفر اختیار نہ کیا جائے۔ یعنی مسجد الحرام،مسجد النبوی اور مسجد الاقصیٰ۔‘‘ اسی مسجد میں وہ مقام بھی واقع ہے جسے ’ریاض الجنہ‘ یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کہا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث ہے کہ آپ ﷺ کے منبر شریف اور حجرہ مبارک کا درمیانی حصّہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اس مسجد کا ابتدائی رقبہ 1050 مربع میٹر تھا ۔جسے سات ہجری حضور ﷺ کی ہدایت پر اس بڑھا کر 1425 مربع میٹر کر دیا گیا تھا۔ حضور اکرم ﷺکی وفات کے صدیوں بعد اس مسجد کی متعدد بار تعمیرِ نو اور توسیع ہو چکی ہے جس کی ابتداء سیدنا عمر فارق ؄ اور سیدنا عثمان غنی ؄ کے دور میں شروع ہوئی اور پھر اموی اور عباسی ادوار اور خلافتِ عثمانیہ سے لے کر سعودی دور تک جاری رہی ہے۔ ۔اب وسعت پاتے پاتے قدیم مدینہ شہر کی حدود سے باہر تک پھیل گئی ہے اور وہ سارا علاقہ جو اسلام کے ابتدائی دور کا شاہد ہے اب اس کا حصہ بن چکا ہے۔ تاہم آنے والے ادوار میں مسجد کو کئی مرتبہ وسعت دی گئی تاکہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں،خاص طور پر حجاج کرام کے لیے ایک وقت میں نماز ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جا سکے۔ مسجد کی بیرونی دیوار اب جنت البقیع کے قبرستان سے مل گئی ہے جو حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں شہر کے مضافات میں تھا ۔ اب اس مسجد میں اٹھارہ لاکھ سے زاید افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ سیدناعثمان غنی ؄ نے جب مسند خلافت سنبھالی تو بعض حضرات نے آپ؄ سے مطالبہ کیا کہ مسجد نبوی کی توسیع کی جائے کیونکہ فتوحات کی کثرت اور مدینہ کی آبادی میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے جمعہ کے لئے مسجد تنگ پڑنے لگی تھی۔چنانچہ سیدناعثمان غنی ؄ نے اس سلسلہ میںاصحاب ِ حل و عقد سے مشورہ کیا ۔ تمام لوگوں نے اس پر اتفا ق کیا کہ مسجد کی پرانی عمارت کو منہدم کرکے اس کی جدید تعمیر ، توسیع کے ساتھ کی جائے ۔ سیدناعثمان غنی ؄ نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی ۔پھر منبر پر تشریف لائے اور اللہ کی حمد و ثنا ء کے بعد فرمایا : ’’ لو گو ! میرا ارادہ ہے کہ مسجد نبوی کو منہدم کرکے توسیع کے ساتھ اس کی تعمیر ِ نو کروں ،میںاس بات پرشاہد ہو ں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کیلئے مسجد تعمیر کی اس کے لئے اللہ نے جنت میں گھر تعمیر کیا ۔ اس سلسلہ میں میرے لئے پیش رو موجود ہیں ۔حضرت عمر بن خطاب ؄ نے مجھ سے سبقت کی ہے ،آپ ﷺ نے مسجد نبوی کی توسیع و تعمیر کی ہے ۔ میں نے صحابہ؇ میں اصحاب حل و عقد سے مشورہ کیاہے ۔ انہوں نے اس کو منہدم کر کے اس کی توسیع اور تعمیرِ نو سے اتفاق کیا ہے ۔‘‘ لوگوں نے اس کی تحسین فرمائی اور آپ ؄ کے لئے دعا کی ۔ سیدنا عثمان ؄ نے دوسری صبح کاریگروں اور مزدوروں کو بلایا اور بذات خود اس کام میں شریک ہوئے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ؄نے مسجدنبوی کے ارد گرد میں رہنے والوں سے کہا کہ وہ اپنے مکانات حکومت کے ہاں بیچ دیں تاکہ مسجد کی توسیع کی جاسکے ۔ آپ ؄ نے انہیںکافی معاوضہ بھی پیش کیا لیکن وہ کسی صورت اپنے مکانات فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے ۔ آپ ؓ نے انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کے لئے ہر ممکن تدبیر کی لیکن ہر تدبیر بے سود رہی ۔لہٰذا توسیع و تعمیر کا معاملہ پانچ برس تک تعطل و التوا ء میں رہا ۔ جب آپ ؄نے اپنے اس ارادے کو پورا ہوتے نہ دیکھا تو ایک جمعہ کو آپ ؄ نے نہایت موثر خطبہ دیا اور لوگوں کو نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگ دامنی کی طرف نہایت درد انگیز لہجے میں توجہ دلائی ۔جس نے حاضرین پر خاص اثر کیا ۔وہ سب لوگ جو ابھی تک اپنے مکانات حکومت کے ہاتھ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے تھے فوراً اپنے مکانات بیچنے پر راضی ہو گئے ۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان ؄ کو ا س بات پربڑی خوشی ہوئی ۔ چنانچہ آپ ؄ نے انہیں منہ مانگے دام دے کر وہ سارے مکانات خرید لئے ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی ؄ کاایک مکان مسجد نبوی کے قریب واقع تھا ۔ مسجد کی توسیع کے لئے اس کا خریدنابھی ضروری تھا لیکن یہ اپنا مکان فروخت کرنے پر راضی نہیں ہو رہے تھے ۔ آخر آپ ؄نے انہیں اس مکان کے بدلہ میں بصرہ میں نہر کے کنارے وہ مکان دے کر راضی کر لیا جو ’’ شط عثمان ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ اب سیدنا حضرت عثمان غنی ؄ نے مسجد کو منہدم کروادیا اور اس کوطریقے سے پختہ بنوانا شروع کیا جس میں تزئین و آرائش کا پہلو بھی نمایاں ہو۔ مدینہ منورہ میں چونا نہیں ملتا تھا ۔ وہ مدینہ طیبہ سے چند میل دور بطن نخلہ سے منگوایا ۔ دیواروں کے لئے منقش پتھر منگوائے گئے ۔ چھت کے لئے ساگوان کا انتظام کیا گیا ۔ مسجد کی تعمیرتقریباً دس ماہ میں مکمل ہوئی ۔سیدنا عمر فاروق ؄ نے اپنے دور خلافت میں مسجد کی جو توسیع فرمائی تھی ۔اس کے بعد مسجد کی لمبائی 140 ہاتھ اور چوڑائی 120 ہاتھ ہو گئی تھی جبکہ حضرت عثمان ؄ نے اپنے زمانہ خلافت میں جو توسیع کی اس سے مسجد کا طول 160 ہاتھ اور عرض 150 ہو گیا ۔ اس طرح عہد عثمانی میں مسجدطول میں بیس ہاتھ اور عرض میں تیس ہاتھ بڑھی لیکن بعض روایات میں ہے کہ عرض میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا مگر طول میں پچاس ہاتھ کا اضافہ ہوا ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ؄ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہﷺکے عہد مبارک میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی ،چھت پر کھجور کی شاخیں تھیں اور ستون بھی کھجور کی لکڑی کے تھے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؄ نے (اپنے عہد خلافت میں ) اس میں کوئی اضافہ نہ کیا ۔سیدنا عمر فاروق ؄ نے اس میں توسیع کی لیکن عمارت ویسی ہی رکھی جیسے رسول اللہﷺ کے زمانے میں تھی ۔ یعنی کچی اینٹیں ،کھجور کی شاخیں اور ستون اسی کھجور کی لکڑی کے بنائے گئے ۔ پھرسیدنا عثمان غنی ؄ نے اس میں تبدیلی کرکے بہت وسیع کی ، اس کی دیواریں منقش پتھروں اور چونے سے بنوائیں اور اس کے ستونوں پر بھی منقش پتھر لگوایا اور اس کی چھت ساگوان سے تیار کی ۔ ‘‘ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی توسیع کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر وتجدید کو کافی زیادہ عرصہ گزر چکا تھا لہذا اس کی نئے سرے سے تعمیر کی ضرورت پیش آئی چنا نچہ ترک سلاطین نے اس کام کو شروع کرنے کا ارادہ کر لیا۔ سلطان سلیم نےقسطنطنیہ شہر سے باہر ایک بستی تعمیر کروائی جس میں دنیا بھر سے ماہرین تعمیرات ماہرین فنون ونقوش کو اکٹھا کیا گیا۔ سلطان پھر خود اس بستی میں گیا اور انہیں اپنے مستقبل کے منصوبہ سے مطلع کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کی تعمیر کا ارادو رکھتا ہے اس لیے ہر ہنرمند اپنے بچے کو اپنا پورا فن سکھائے اور ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی حفظ کروائے ۔ چنانچہ طویل عرصہ کے بعد حفاظ کی ایک بڑی جماعت اپنے علوم وفنون کے ساتھ تیار ہوگئی۔ عاشقان رسول کی یہ جماعت پھر تمام مطلوبہ ساز وسامان کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوئی اور شہر سے تقریبا بارہ میل باہر ایک بستی میں قیام پذیر ہوگئی ۔یہ اس ادب و تقدس کے پیش نظر کیا گیا کہ تعمیرات کا شور وغل مدینہ طیبہ نہ پہنچے۔ تعمیر کے دوران اگر کسی پتھر یا لکڑی کو درست کرنے کی ضرورت پیش آئی تو اسے بستی میں لا کر ٹھیک کیاجاتا۔ تمام کارکنوں اور ہنر مندوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ تعمیر کے دوران باوضور ہیں اور کام کے دوران تلاوت کلام پاک جاری رہے ۔ یوں یہ عاشقان رسول کی جماعت پورے خلوص سے تقریبا پندرہ برس مسجد نبوی کی تعمیر وتوسیع میں مصروف رہی ۔سلطنت عثمانیہ کی تعمیرات میں جن سلاطین نے حصہ لیا ان میں سلطان سلیم عثمانی ،سلطان سلیمان عثمانی اور سلطان سلیم ثانی شامل ہیں۔ اہم اور یادگار دور سلطان محمود عثمانی اور سلطان عبدالمجید خان عثمانی کا ہے ۔ سلاطین عثمانی کی نئی تعمیر کا توسیعی رقبہ 1293مربع میٹر بنتا ہے۔ سلطان غالب القعیطی نے مسلمانوں کے مقدس شہروں، حج اور دنیائے اسلام کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1909 میں جزیرہ نما عرب میں مسجد نبوی وہ واحد عمارت تھی جہاں روشنی کے لیے بجلی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں