آج کل دیکھا جائے تو پوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ ہر امیر، غریب کا گزر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک تو بہت کم لوگوں کی نوکریاں لگی ہوئی ہیں اور ان سب کی تنخوایں بھی کم دی جاتی ہیں۔ جس سے گزر بسر کرنا بہت دشوار ہوگیا ہوا ہے۔
دوسرا روز بروز کی بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے پریشان اور مجبور عوام کیا کرے؟ اپنے گھر کے راشن پانی کو پورا کرے یا حکومت کو اتنے زیادہ بل اور ٹیکس دے کہ ان کے بینک بھرے۔ حکومت ہر طرح سے عوام کو لوٹ رہی ہے اور عوام کی پریشانیاں مزید بڑھاتی جا رہی ہے۔ عوام کو سہولتیں دینے کی بجائے ان کو تسلیاں دی جاتی ہیں کہ ہم اپنی عوام کی سہولت ہی سوچ رہے ہیں اور حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کون سی حکومت! کہاں کی حکومت ہے یہ؟ جو اپنی ہی عوام کو مہنگائی میں، پریشانیوں میں دھکیلتے جا رہے ہیں۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہاتھوں میں اپنی ڈگریاں لے کر پھر رہا ہے اور اس کو نوکری نہیں دی جارہی ہوتی اس کی قابلیت اس کی ڈگری کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا اور اس کو نوکری نہیں دی جاتی تو وہ اپنے گھر کی ذمہ داری کیسے نبھا سکے گا۔ کون اس کے اخراجات اٹھائے گا؟ کیا حکومت ایسے لوگوں کے گھروں کے اخراجات برداشت کریں گے؟ کیوں پھر نوکریوں کے لیے لوگ در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں؟ کیوں حکومت ان کے لیے آسانیاں نہیں کرتی؟ اس مہنگائی کو روز بروز بڑھا رہے ہیں لیکن لوگوں کو نوکریاں اور تنخوائیں نہیں دے رہے۔ یہ کون سا انصاف ہے؟
روز بروز کبھی بجلی کے نرخ بڑھا دیتے ہیں، کبھی پٹرول کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔ کھانے کی اشیاء تک کے ریٹ روز کے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہاں کون ہے جو سکھ کا سانس لے کر جی رہا؟ کس کو سکون دے رہی ہے یہ حکومت؟
لوگوں کا زندہ رہنا یہاں مشکل کر دیا ہے اسی ہماری حکومت نے
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی عوام کو ہر سہولت مہیا کرے اس مہنگائی سے سب کی جان کو سکون دے تاکہ یہ معاشرہ ترقی کرسکے اور سب لوگ سکون سے اپنی زندگی گزار سکیں۔ عوام کی آسائشوں کا خیال کریں اور عوام اپنی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تب ہی ایک خوشحال معاشرہ بن سکتا ہے اور جب کوئی معاشرہ ترقی کرتا ہے تو ملک ترقی کرتا ہے۔
تب جا کر بنے گا خوشحال پاکستان۔