مومن مال و متاع اور دنیاوی مفادات کے لیے جنگ نہیں لڑتا، یہی اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب دشمن سے مقابلے کی نوبت آجائے تو مومن اپنے دین، دین کی عظمت اور دین کے قلعے کی سلامتی کے لیے اپنے تن من دھن کو قربان کر دیتا ہے، لیکن دشمن کے آگے جھکتا نہیں۔ اسی کا سر چشمہ ہے کہ پاکستان کی افواج نے جنگ اور امن دونوں ادوار میں دین، ملک اور قوم کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ افواج پاکستان نے متعدد تنازعات میں جانباز اور بے مثال کردار نبھایا ہے، جن میں 1947، 1965 اور 1971 کی ہند و پاکستان جنگیں شامل ہیں۔ مسلح افواج نے اندرونی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ملک کے اندر شدت پسند عناصر کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا ہے۔پاک فوج ملکی تاریخ میں تعمیر، ترقی اور دفاع کا اٹوٹ حصہ رہی ہے۔ یہ ملک کی سرحدوں اور شہریوں کو بیرونی خطرات اور اندرونی تحدیات سے بچانے کے لیے ڈھال بنی ہر میدان میں ڈٹی رہی ہے۔ مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے باوجود، مسلح افواج پیشہ ورانہ مہارت، جدید دفاع کاری کی صلاحیت ، اور قوم کی خدمت کے عزم سے سرشار ترقی کرتی رہی ہیں۔ قوم کے ان سپوتوں میں سے لاکھوں نے اپنی جان اس وطن کی مٹی اور اس کے خمیر میں موجود لاالہ الااللہ کی صداؤں کی حفاظت اور بقا کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ انہی میں ایک نام جناب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا ہے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی نے قیام پاکستان سے لے کر یوم شہادت تک ہر ہر لمحہ اپنی جان وطن کی حفاظت کی خاطر وقف رکھی۔ پاک بھارت جنگ 1965 میں دنیا نے غیر متزلزل جرات اور بے شمار قربانیوں کا مشاہدہ کیا، اس تنازع کے دوران ابھرنے والے ممتاز ہیروز میں میجر عزیز بھٹی بھی شامل تھے۔ 10 اپریل 1928 کو پیدا ہونے والے میجر عزیز بھٹی پاک فوج کے ایک مثالی فوجی افسر تھے۔ انہوں نے لاہور سیکٹر میں بی آر بی کینال کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا، غیر معمولی بہادری اور بے لوثی کا مظاہرہ کیا جس نے انہیں ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز، نشان حیدر سے نوازا۔ یہ مضمون 1965 کی جنگ کے دوران میجر عزیز بھٹی کی زندگی، شراکت اور غیر معمولی بہادری اور کارناموں پر روشنی ڈالنے اور ان کی شجاعت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک ادنی سی کاوش ہے۔ راجہ عزیز بھٹی 6 اگست 1928 کو برطانوی ہانگ کانگ میں ایک پنجابی راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق ہندوستان میں پنجاب کے ضلع گجرات سے تقریباً 110 میل دور ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا، جو اپنے والد اور دو چچاوں کو ہانگ کانگ پولیس فورس میں ملازمت ملنے کے بعد برطانوی ہانگ کانگ ہجرت کر گئے تھے۔ تاہم دسمبر 1945 میں، بھٹی خاندان پھر سے بھارت منتقل ہو گیا، اور عزیز بھٹی نے جون 1946 میں رائل انڈین ایئر فورس میں بہ طور ایئر مین شمولیت اختیار کی۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعدمیجر عزیز بھٹی نے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ جنوری 1948 کو، انہوں نے وزارت دفاع (ایم او ڈی) کو ایک درخواست جمع کرائی، جس میں انہیں پاکستان آرمی میں منتقل کرنے کی درخواست کی گئی، اسے منظور کر لیا گیا اور آپ کو 1948 میں کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ عزیز بھٹی شہید 1950 میں پہلے پی ایم اے لانگ کورس کی کلاس میں اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوئے۔
انہوں نے فرض شناسی اور حب الوطنی کے گہرے جذبے کے ساتھ پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے پورے فوجی کیریئر کے دوران، انہوں نے قائدانہ صلاحیتوں اور اپنے ملک کی خدمت کے لیے لگن کا مظاہرہ کیا۔ جنوری 1965 سے مئی 1965 تک، میجر بھٹی نے 17 ویں پنجاب رجمنٹ کے جنرل سٹاف آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں، لیکن بعد میں آپریشن جبرالٹر پر ہندوستانی فوج کے جوابی حملے کے بعد انہیں دو ملٹری کمپنیوں کے کمانڈر کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔ ستمبر 1965 کی جنگ کے دوران، میجر عزیز بھٹی کو لاہور سیکٹر میں تعینات کیا گیا تھا، جہاں انہیں ترجیحاتی بنیادوں پر انتہائی اہم بی آر بی کینال کے دفاع کا کام سونپا گیا تھا۔ اس نہر نے خطے کے آ ب پاشی کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کیا اور فوجی اور شہری دونوں مقاصد کے لیے یہ نہربہت اہم تھی۔
ہندوستانی فوج کے ساتھ باضابطہ جنگی صورت 7 تا 10 ستمبر کے درمیان ہوئی جب ہندوستانی فوج نے لاہور میں داخل ہونے کے پیش نظر توپ خانے اور اسلحہ خانے کے ذریعے برکی سیکٹر پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کی۔ دشمن کی گولیوں، حملوں اور کارروائیوں سے بے خوف، میجر عزیز بھٹی نے غیر متزلزل حوصلے اور عزم کے ساتھ اپنے فوجیوں کی قیادت کی۔ دشمنوں کے بہت زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود، انہوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا اور بے خوف ہو کر دشمن کے انتھک حملوں کا سامنا کیا۔
میجر عزیز بھٹی کی مثالی قیادت ان کی بے لوث بہادری کی وجہ سے تھی۔ شدید لڑائیوں کے دوران، انہوں نے بار بار اپنے آپ کو دشمن کے حملوں کے سامنے کیا، اپنے فوجیوں کو ہدایت کرتے رہے اور دشمن کی پیش قدمی کو ناکام بنایا۔ ان کی ذاتی حفاظت ہمیشہ اپنے سپاہیوں کی حفاظت اور نہر کے دفاع کے مقابلے میں ثانوی تھی۔مسلسل پانچ دن اور راتوں تک میجر بھٹی ثابت قدم رہے اور قیادت کرتے رہے، انہوں نے شدید چوٹوں کے باوجود بھی اپنی پوزیشن چھوڑنے سے انکار کر دیا اور اپنے ملک کے لیے آخری سانسیں دینے تک مسلسل لڑتے رہے۔
میجر عزیز بھٹی کو اعلیٰ کمان نے واپس آنے کی پیش کش کی، انہوں نے لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ چھٹی لینے کی پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا، “مجھے واپس نہ بلائیں، میں واپس نہیں جانا چاہتا، میں اپنے خون کا آخری قطرہ اپنے وطن عزیز کے دفاع میں بہا دوں گا۔ ” میجر بھٹی نے دشمن کی نقل و حرکت کو دیکھنے کے لیے اپنی پوزیشن کو آگے کی طرف مسلسل منتقل کیا، قبضہ شدہ خطوں کو آزاد کروا کر پاکستانی پرچم لہرایا، اور پھر اپنا پڑاؤ بھی دشمن کے مورچوں کے آگے رکھا، تاکہ دشمن کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکے۔
12 ستمبر 1965 کو دشمن نے ٹینکوں اور پوری ایک پلاٹون کے ساتھ شدید حملہ کیا، میجر عزیز بھٹی شہید نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور غیر متزلزل جذبے کے ذریعے مختصر کمان کی قیادت کرتے ہوئے متعدد ٹینکوں کو تباہ کیا، اسی اہم دفاعی پوزیشن کی قیادت کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی دشمن کی ایک توپچی کا نشانہ بنے، گولہ آپ کے سینے پر لگا اور آپ ملک پر جان نثار کرتے ہوئے رب کے حضور پیش ہو گئے اور جام شہادت نوش کر گئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر صرف 37 سال تھی۔
میجر عزیز بھٹی کو ان کے آبائی گھر کے صحن میں گجرات، پنجاب کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں لدیاں میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی اعلیٰ قربانیوں اور غیر متزلزل عزم نے انھیں شہادت کے بعدپاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر ایوارڈ سے نوازا۔دراصل تو ان اعزازات کا اعزاز ہی ان ہستیوں سے ہے۔آج بھی جناب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا نام بہادری اور لگن کی علامت ہے، جو ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لاتعداد جانوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔
