
عبدالوہاب سحر قاسمی
میں یقین ہوں، گماں ہوں؟.. یا انہی کے درمیاں ہوں؟
منزل نہ جان مجھ کو.. کہ میں راہِ بے نشاں ہوں
مری ہم نشینی تجھ کو.. نہیں راس آئے شاید
کہ میں قصرِ منکسر ہوں.. میں فصیل بے اماں ہوں
مدت سے جستجو میں.. ہے مرا بھی جسد خاکی
تو تلاش میں مدد کر.. مجھے ڈھونڈ میں کہاں ہوں
نہیں مجھ کو آشنائی ادَب و سخن وری سے
کر رمز پر کفایت میں خطیبِ بے زباں ہوں
کبھی فرطِ شادمانی سے ہے روح میری رقصاں
کبھی یاس اور ألم ہوں کبھی درد ہوں فغاں ہوں
کبھی لے اڑے تخیل گَردوں کے پار مجھ کو
کبھی راہ نا شناسا خود پر ہی میں گراں ہوں
سرِ شام پھر سے دل میں تری یاد کی ہے دستک
میں نے چونک کر جو پوچھا تو کہا کہ میں فلاں ہوں
میں شعر کہہ رہا ہوں مت دل لگی سمجھنا
یہ تو زخم ہیں جگر کے میں انہی کا ترجماں ہوں
مرے دل کی روشنی نے مجھے عزمِ نو نوازا
یہ گماں سا دل میں چمکا کہ خودی کا رازداں ہوں
وہ سفر بھی کیا سفر ہے جو نہ مشکلوں سے پر ہو
میں خود ہی قافلہ ہوں، خود میر کارواں ہوں
اس دور بت گری میں نسبت بھی یہ بہت ہے
کہ خلیل کا ہوں پیرو اور منکرِ بتاں ہوں
مقصود زندگی ہے کہ قلم کی لاج رکھّوں
میں دغا کے دور میں بھی سچائی کا بیاں ہوں
رستہ جو خود بنائے ایسا ہوں اک مسافر
ضوبار اک سَحَر ہوں تاریکی پر گراں ہوں
مری روشنی سے خائف ہیں جہان دجل و باطل
جو نہ بجھ سکے ہوا سے وہ چراغ ضوفشاں ہوں
***