103

نواسےؓ کا مقام، ناناﷺ کی نظر میں/تحریر/حنظلہ ضمیر منہاس

حنظلہ ضمیر منہاس

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے نہایت درجے محبت فرماتے تھے، جس کا اظہار رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اقوال اور مختلف معاملات سے تمام زندگی فرماتے رہے۔ 10 محرم کے دن کی بنا پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان خصوصی عنایات کا بالاختصار یہاں پر تذکرہ کردیا جائے جس کے مطالعہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے عظمت اور ان سے سچی محبت کا جذبہ مسلمان کے قلب میں پیدا ہوجائے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک روز صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس شان سے کہ آپ اونی منقش کمبل اوڑھے ہوئے تھے، اتفاق سے اتنے میں حضرت حسن بن علی بھی آگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کمبل میں لپیٹ لیا، تھوڑی دیر کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی آگئے آپ نے ان کوبھی اسی کمبل میں لپیٹ لیا تھوڑی دیر کے بعد حضرت فاطمہ بھی وہاں آگئیں، آپ نے ان کو بھی اسی کمبل میں داخل کرلیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے آپ نے ان کو بھی اسی کمبل میں داخل کرلیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے پیغمبر کے گھر والو! تم سے معصیت و نافرمانی کی گندگی کو دور رکھے اور تم کو ظاہراً و باطناً عقیدةً و عملاً و خلقاً بالکل پاک و صاف رکھے۔ (بیان القرآن ج 9ص 46) (رواہ مسلم)

ف: حضرت والا حکیم الامت رحمہ اللہ تعالیٰ تفسیر بیان القرآن میں تحریر فرماتے ہیں۔ غرض کہ لفظ اہل بیت کے دو مفہوم ہیں ایک ازواج، دوسرے عترت۔ خصوصیت قرائن سے کسی مقام پر ایک مفہوم مراد ہوتا ہے، کہیں دوسرا اور کہیں عام بھی ہوسکتا ہے (ص 48 ج 9)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مقام خم کے قریب جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں واقع ہے کھڑے ہوکر عام مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیا خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد مختلف نصیحتیں فرمائیں اس کے بعد ارشاد فرمایا:

حدیث اول:
”اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں عن قریب زمانہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے پاس میرے پروردگار کا قاصد آئے گا اور میں اس کی دعوت پر لبیک کہوں گا لیکن میں
تم میں دو عظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جاﺅں گا، اول کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم کتاب اللہ کو مضبوط پکڑلو اور اس کی حفاظت کی پوری کوشش کرو، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقہ پر کتاب اللہ کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کی رغبت دلائی، اس کے بعد ارشاد فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں تم اللہ سے ڈرنا میرے اہل بیت کے معاملہ میں تم اللہ سے ڈرنا میرے اہل بیت کے معاملہ میں یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار ارشاد فرمایا۔“ (رواہ مسلم)

ف: حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں (ح) اذکر کم اللہ (الخ) سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت کے حقوق کی پوری پوری حفاظت کرو اور ان کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچاﺅ…. اور پہلی روایت سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل بیت کے اندر شامل ہیں، لہٰذا وہ بھی اس عظیم الشان بشارت میں شامل ہیں اور ان کے حقوق کی نگہبانی بھی مسلمانوں پر ضروری ہے اور ان کی شان میں گستاخی کرنے سے بچنا لازم ہے اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب ایک عراقی محرم نے ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ ”بحالت احرام مکھی کو مارنا جائز ہے یا نہیں؟ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ناخوش ہوکر ارشاد فرمایا:

حدیث دوم:
اہل عراق مجھ سے مسئلہ پوچھ رہے ہیں کہ مکھی کے مارنے میں بحالت احرام کیا حکم ہے حالاں کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جان سے مار ڈالا ہے یاد رکھو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ دونوں میرے لیے بمنزلہ دو ریحان یعنی پھول کے ہیں۔ (رواہ البخاری و مشکوٰة ص 569)

حدیث سوم:
حضرت انس رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا ہے کہ آپ کو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے محبوب مجھ کو حسن و حسین ہیں اور بارہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے فرمایا کرتے تھے ”میرے پاس میرے دونوں بیٹوں حسن و حسین کو بلادو تاکہ میں ان کو محبت سے اپنے سینہ سے لگاﺅں اور پیار کروں۔

حدیث چہارم:
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
اے اللہ میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہوں آپ ان دونوں کو محبوب بنالیجیے اور اس شخص سے بھی محبت کیجیے جو حضرت حسن و حسین سے سچی محبت کرے۔(رواہ الترمذی)

حدیث پنجم:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اس طرح تشریف لائے کہ آپ کے ایک کاندھے پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور غایت شفقت سے کبھی ایک کو پیار کرتے، کبھی دوسرے کو، اس پر حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ خدا کی قسم آپ کو تو ان دونوں بچوں سے بہت محبت معلوم ہوتی ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جو حسن و حسین سے محبت کرے گا اس نے حقیقت میں مجھ سے محبت کی اورجو حسن و حسین سے بغض و عداوت رکھے گا وہ دراصل مجھ سے بغض و عداوت رکھنے والا ہے۔

حدیث ششم:
حسین رضی اللہ عنہ میری اولاد ہیں اور مجھ کو حسین رضی اللہ عنہ سے خصوصی تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرمائیں گے جو حسین رضی اللہ عنہ سے سچی محبت کرے گا، حسین رضی اللہ عنہ میری اولاد ہیں بڑے مرتبہ کے ہیں۔ (رواہ الترمذی)

حدیث ہفتم:
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے۔ (الترمذی)
ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مراد حدیث یہ ہے کہ یہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ ان تمام لوگوں میں افضل ہیں جو بہ حالت جوانی انتقال کر گئے ہیں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما جوانی کی حالت میں دنیا سے کوچ کریں گے، بلکہ مراد یہ ہے کہ جیسے نوجوان مروت و فتوت کے کارنامے انجام دیا کرتے ہیں ایسے ہی یہ دونوں بھائی ہوں گے کیوں کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کی وفات ایسے زمانہ میں ہوئی جب کہ یہ کہولت کے زمانہ کو پہنچ چکے تھے، بحالت جوانی و شباب کے ان دو حضرات کا انتقال نہیں ہوا۔ (ا۔ح)

ان ارشادات کی روشنی میں یہ بات سمجھنا سہل ہوجاتا ہے، کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل درجہ محبوب صحابی اور اولاد ہیں ان کے کمالات معنوی کی بناء پر ان کی عظمت و محبت کرنا ہر مسلمان کا وظیفہ ہے، لیکن وہ محبت شریعت کے مطابق ہو، اور اس کا اظہار اُن ہی طریقوں پر کیا جائے گا جن کی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو فرمائی ہے۔ اللہ رب العزت تمام مسلمانان عالم کو فہم سلیم نصیب فرمائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں