84

پاکستان کا جشن آزادی/تحریر/ام عمر(کراچی)

پاکستان ترقی کیوں نہیں کر سکا !
پاکستان کا جشن آزادی ہم ہر سال جوش وجذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
لیکن اج ہم کو یہ سوچنا ہے کہ ہم کو ازاد ہوئے پون صدی سے زیادہ گزر گئی ہے اور ہم ایک صدی کا سفر مکمل کرنے کے قریب ہیں۔
یہ سوال ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں اتا ہے کہ ہم نے ازاد ہو کر اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی نہیں کر سکے۔
یہ ہر محب وطن پاکستانی کو سوچنا چاہیے کہ ہم اخر اپنے پڑوس کے ممالک سے ترقی کے ہر میدان میں بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔
ہر ذی شعور پاکستانی اس اذیت کو محسوس کرتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہمارے اندر ایسی کون سی خرابی ہے ہم دنیا میں تو بہت پیچھے ہیں بلکہ اس خطہ میں بھی شاید دوسرے ممالک سے سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس خطہ میں ہندوستان کے بعد پاکستان دوسرا بڑا ملک ہے۔پاکستان کی ابادی 23 کروڑ سے ذائد ہے ۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت پہاڑوں ،بہتے دریاؤں ،پر فضا خوبصورت وادیوں اور سال کے چاروں مو سموں سے نوازا ہے۔
پاکستان کے پاس ہر قسم کے اعلیٰ معیار کے پھل ،سبزیاں اور پھول بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی بہترین ایک مضبوط فوج ہے لیکن اللہ کی بے حساب نعمتوں کے باوجود ہم اس خطے میں ہر چیز میں بہت پیچھے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان کی ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔میرے نزدیک تو ایک مہذب معاشرے سے ہی ایک قوم کی تشکیل ہوتی ہے ۔
پاکستان اپنے خطے کے دوسرے ممالک سے ترقی کی رفتار میں کیوں بہت دور رہ گیا ہے اس کو بحثیت قوم سمجھنا ضروری ہے۔
یہ بات تو ہر زی شعور انسان کے زہن میں آتی ہیں کہ قوم کا وجود اچانک سے نہیں ہوجاتا بلکہ یہ ہزار ہا سالوں کی تہذیبی ،تاریخی ،روایاتی رہن سہن سے ایک قوم وجود میں اتی ہے قوم کو وجود دینے میں دوسرے عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں جن میں معاشرتی و معاشی اقداد اور مذہبی روایات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔
لیکن کچھ اقوام کا وجود بنیادی اصولوں جن میں ایثار ،مساوات، سب کے یکساں حقوق سے بھی دنیا میں ہمیں نظر آتیں ہیں۔
پاکستانی قوم کا بھی وجود ان اصولوں کے مطابق ہمیں نظر اتا ہے۔
لیکن جن اصولوں کو اپنا کر قومیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتی ہیں وہ ان اصولوں کو چھوڑ کر کسی نئی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو ایسی اقوام اپنے وجود کو اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر بیٹھتی ہیں۔
ان سب اصولوں سے قائد اعظم اچھی طرح واقف تھے ۔اس لئے انہوں نے پاکستانی قوم کو متحد اور قائم و دائم رکھنے کے لئے تین نکات ‘ایمان،اتحاد اور تنظیم جیسے رہنما اصول دیئے ۔
ان تینوں نکات پر عمل پیرا ہوکر تمام مشکلات جو ایک آزاد مملکت کو حاصل کرنے میں درپیش تھیں ان کو شکست دی ۔
ہزار ہا رکاوٹوں اور سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک ازاد ملک کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوئے ۔
ایمان ،اتحاد اور تنظیم جیسے نکات پر قائم رہنے کی نصیحت بھی کرتے رہے اور ان پر عمل پیرا بھی رہے۔
قائد اعظم ہمیشہ ان نکات پر عمل کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔
ہماری ترقی نہ کرنے وجوہات میں ایک اہم وجہ ان نکات پر عمل نہ کرنا بھی ہے۔
بحثیت قوم ہم منظم نہیں بلکہ منتشر ہوکر اقربا پروری ،انفرادی اور ذاتی مفادات کو تر جیج دیتے ہیں۔
ہم نے جب بھی قائد اعظم کے اصولوں کو سامنے رکھا ہم پستی سے بلندی کی جانب تیزی سے سفر کرتے ہوئے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ایٹمی قوت بھی ان ہی اصولوں پر کاربند ہو کر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔
ان سب باتوں کو جانتے ہوئے بھی ہم مستقلاً انتشار اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں ۔
ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار میں کمی کی ایک بڑی وجہ بحثیت مجموعی ہم انتشار اور اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دینے میں پون صدی سے ذائد وقت کو ضائع اور برباد کر چکے ہیں۔
اقوام کی ترقی کا سب سے اہم ستون اتحاد اور منظم انداز میں آگے کی جانب گامزن ہونا ہوتا ہے ۔
پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔شعور اور اگاہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔
مہذب معاشرہ اسی وقت وجود میں آسکتا ہے کہ جس میں بڑے چھوٹے کا عزت و احترام ہو ،قانون کی پاسداری ہو ،قانون کا استعمال سب کے ساتھ انصاف سے کیا جائے۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم :
دوسری اہم رکاوٹ جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم ۔
ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف دس فیصد طبقہ کا امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب طبقہ ہر روز مزید ایک درجہ اپنی زندگی گزارنے کی حیثیت سے نیچے اجاتا ہے ۔
اسی طرح دس فیصد طبقہ مزید اپنی آسائش اور مراعات میں خاموشی سے اصافہ کر لیتا ہے ۔
اسی دس فیصد طبقے نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے اور یہی طبقہ شروع سے پاکستان پر حکمرانی کرتا چلا ارہا ہے ۔
پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف اس دس فیصد طبقہ کے امیر لوگوں کے گرد گزشتہ ستر برس کے عرصے سے گھومتی نظر آتی ہے اور سرمایہ کاری کے سارے مواقع بھی ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں ۔پاکستان کی ترقی کی راہ میں یہ طبقہ حائل رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام :
ہماری ترقی نہ کرنے کی وجہ یا ہماری پسماندگی کی ایک اہم وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔اس وجہ کو بہت سے باشعور اور سینئیر صحافی حضرات بھی بر ملا اظہار کرتے نظر اتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں نے پوری سوچ اور سمجھ کے ساتھ اور پورے شعور کو بیدار کر کے پاکستان کا نظام حکومت چلانے کے لئے جمہوری نظام کو قرار دیا۔اس نظام کو چلانے کے لئے بہت سے قوانین بھی ترتیب دیے گئے ۔
مقام افسوس یہ ہے کہ پون صدی کا طویل سفر طے کرکے بھی اس جمہوری نظام حکومت کو چلنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہی۔اس طرح پورے ملک کا نظام حکومت درہم برہم ہی رہا۔ ترقیاتی منصوبوں کو تسلسل کے ساتھ مکمل ہونے کا موقع ہی نہیں ملا اس طرح ملک کے تر قیاتی کام صرف اورس صرف فائلوں ہی تک محدود رہے ۔
اس طرح پاکستان ترقی کی راہ میں اپنے پڑوسی ممالک سے بھی بہت پیچھے رہ گیا ۔
پاکستان انسانی ترقی میں زوال کا شکار :
پاکستان انسانی ترقی میں بھی اپنے خطے کے ممالک سے کافی پیچھے نظر اتا ہے۔
انسانی ترقی کی شرح اس سال گزرے سال کے مقابلے میں کم ہے۔
انسانی ترقی کے عالمی جائزے کا اغاز پاکستان کے نامور اور ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق نے 1999 میں شروع کیا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملکوں کی ترقی کو ان ممالک کی اقتصادی ترقی پر نہیں بلکہ ان ممالک کے عوام کے معیار ذندگی ان کے رہن سہن اور عوام الناس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے پرکھنا اور سمجھنا چاہیے ۔
اس جائزہ رپورٹ کو ان ممالک کے لوگوں کی امدنی،معیار ذندگی،تعلیم ،اوسط عمر اور عادات ذندگی کو سامنے رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی کی شرح گزرے سال کے مقابلے میں کم رہی اور پاکستان کا 188 ممالک میں انسانی ترقی کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 147 ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان انسانی ترقی میں کیوں برابر پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ اقتصادی امور کے افراد کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات ،دہشت گردی، ملک پر بھاری قرضوں کا بوجھ اور اس کے ساتھ ساتھ محصولات کی کمی ،وجہ سے رقم نہ ہونے سے انسانی ترقی پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان اپنی امدنی کا بڑا حصہ انسانی ترقی کے شعبوں پر خرچ نہیں کرسکتا ان وجوہات کی بناء پر پاکستان انسانی ترقی کی راہ میں اپنے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کی ابادی میں مسلسل اصافہ:
پاکستان اقتصادی اور سماجی ترقی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچھے کے جانب ہے اور یہ انتہائی تشویشناک بات ہے ۔
مسلسل تیزی سے ابادی میں اصافہ اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ہمارے معاشرے میں غربت اور افلاس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔عوام الناس سماجی اور اقتصادی مسائل سے بھری ذندگی گزارنے پر مجبور و لا چار ہیں۔
معاشرہ عدم استحکام اور عدم مساوات کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔حکومت کا ابادی پر اور ملک کی معیشت پر کنٹرول نہ ہونے کے بربر ہے۔
حکومت کو ابادی پر کنٹرول کرنے کے لئے اگاہی مہم چلانی چائیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کے لئے نئی رائیں کھولنے کے لئے کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔تا کہ وسائل اور ابادی میں توازن قائم رہ سکے۔
کرپشن یا بد عنوانی
عصر حاضر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان بد عنوانی اور کرپشن کی وجہ سے تیزی سے زوال کی طرف جارہا ہے۔
بدعنوان عناصر پاکستان کے ہر محکمے میں موجود ہیں۔ یہ عناصر چاہے تعلیم ہو،صحت کا شعبہ ہو،بنیادی ضروریات کا شعبہ ہو،زرعی ترقیاتی منصوبوں کا محکمہ یہ بد عنوان عناصر ترقی کے کاموں کو تکمیل کی راہ میں پوری طرح رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں اور ملک کو پسماندگی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان عناصر کی کرپشن اور بد عنوانی کی سزا پاکستان کی ایک بہت بڑی ابادی کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔
ان عناصر کی وجہ سے لوگ غربت کا شکار ہیں ۔صاف پینے کے پانی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں اس کے ساتھ ساتھ طبی سہولتیں،تعلیم،بجلی،گیس اور اس طرح کی لازمی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔
اس طرح یہ محروم طبقہ سٹریٹ کرائم ،گداگری اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
یہ سب مسائل بد عنوانی اور کرپشن کے پیدا کر دہ ہیں۔
اس بد عنوانی اور کرپشن کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اس کے لئے ہمیں اجتماعی جنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کا ہر محب وطن شہری کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب دیکھ رہا ہے۔لیکن اس ناسور سے لڑنے کے لئے ایمانداری ،حب الوطنی ،محنت اور اس کے ساتھ خلوص نیت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
معاشرے میں انصاف اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم کرپشن اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
کرپشن سے نجات اسی وقت حاصل ہوسکتی کہ عوام الناس اپنے ہر طرز عمل سے سچائی، ایمانداری اور دیانتداری کا مظاہرہ کرتے نظر ائیں ۔ ان شاءاللہ ہمارا ملک بد عنوانی اور کرپشن کے الزامات سے ازاد ہوجائے گا۔
اچھے سیاسی لیڈروں کا فقدان:
ہمارے ملک میں اچھی اور باصلاحیت قیادت کا شدید فقدان بھی ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
سب سے پہلے تو قیادت کے معنی سمجھنے ضروری ہیں ایک مشہور دانشور (Marine corps) کے مطابق لیڈر شپ،ذہانت،اچھے اخلاقی کردار اور عام انسانی ذندگی کو سمجھتا ہو۔ ان صلاحیتوں کی مالک شخصیت ایک فرد کو یا پورے گروہ کو اپنی خداد صلاحیتوں سے کامیابی سے متاثر کرتی ہے اور اس کی ان صلاحیتوں کی بدولت وہ ایک بڑے گروپ کو جس میں لوگوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے ان کو آسانی سے کنٹرول کر لیتی ہے ۔
ایک کامیاب لیڈر یا قیادت اپنے مقاصد کا تعین کرکے ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایک حقیقی لیڈر حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے۔اس کے علاوہ ملک کے معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے ہیں۔
ہمارے ملک میں حقیقی قیادت کا کام اپنے کارکنوں کی تربیت اور ان میں ضرورت پڑنے پر ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت پیدا کرنے کا شدید فقدان ہے اور اپنے کارکنوں میں قائدانہ صلاحیتوں کی تربیت نہ کرنے کی وجوہات سے بھی ملک میں اچھی قیادت خال خال نظر آتی ہے۔
سیاسی قائدین کو یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ اگے چل کر یہ کارکن میرے اپنے سیاسی کئریر کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔
ملک کو ترقی کی راہ سے دور کرنے میں بھی سیاسی لیڈروں کا اہم کردار ہے۔جس پر ہر محب وطن پاکستانی کو غور وفکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نوجوانوں میں قیادت کا فقدان:
کسی بھی ملک کے معاشرے کی ترقی کا دارومدار ایک باصلاحیت اور صحت مند نوجوان نسل تیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔سیاسی تحریک ہو،مذہبی تحریک ہو،قومی یا دیگر تحریکیں ہو ان کو مقبول اور کامیاب کرنے میں نوجوان نسل کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔
دین اسلام کو پھیلانے میں نوجوانوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین تعلیم اور تربیت اس وقت کے نوجوانوں میں اج بھی روشن ستاروں کی مانند ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین تعلیم وترتبیت اس وقت کے نوجوانوں کے ساتھ تھی جس کی وجہ سے دنیا کے طاقتور حکمران دین اسلام کے اگے سر نگوں ہونے پر مجبور ہوئے۔
رنیا کی تاریخ میں جتنے بھی انقلاب آئے اس کی کامیابی میں نوجوانوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔
ہمارے ملک میں نوجوانوں کو صیح سمت میں لے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے لیڈر صاحبان کو اس خوف سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان طبقہ اگے چل کر ہماری حثیت کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔
یہ تو چند نکات تھے جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ان جیسے اور بہت سی وجوہات بھی ہیں جو وطن عزیز کو مستقل پسماندگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ وطن عزیز کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے ۔
سب سے پہلے تو پاکستان کو ترقی کی راہ پر چلانے کے لئے ہر فرد کو خود کو بدلنا ہوگا قوم کاہر فرد اپنا کام درست طریقے سے ایمانداری سے اور محنت سے کرے تو ہم اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں۔
انسانی ترقی کی بھی ملک کی ترقی میں اہمیت ہے اس کے لئے عوام الناس کی صلاحیتوں میں مثبت ترقی کے ساتھ علم وادب سے اگاہی پیدا کرنے کے لئے دور رس اقدامات کرنے ہوں گے۔
ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے بھی وطن عزیز کے مسائل میں کمی آسکتی ہے اس کے لئے بھی صیح اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے ۔قدرتی دولت سے اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو نوازا ہے ۔چاروں موسم جیسی نعمت عطا کی ہے ۔پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام سے وجود میں ائی۔اس لئے محنت اور ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ہم اپنے ملک کو عظیم تر بنا سکتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں